آمنہ نسیم
''ہر نشہ آور چیز حرام ہے"(ارشاد نبی)
آج کے نا م نہاد ترقی یافتہ اور مادہ پرستی کے دور میں بہت سی ایسی اخلاقی
اور سماجی قدروں سے دور ہوتاجارہا ہے جو ہمیشہ سے شرف انسا نیت کا طرز
امتیاز رہی ہیں-اس کے نتجے میں ہم گوناگوں پریشانیوں الجھنوں اور مصائب میں
گھر کر رہ گئے ہیں بنیادی طور پر ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس قرآن مجید کی
صورت میں ایک نسخ کمیا موجود ہے جو ہماری پریشانیوں اور مصائب کا بیترین
انداز میں مداوا کرسکتاہے لیکن صد افسوس کے یہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود
بھول چکے ہیں -دینی و اخلاقی تربیت اور تعلیم کا فقدان اور معاشرے میں دولت
کی ریل پیل اور اس کا ناجائز استعمال اسے برائی اور شر کی طرف لے جاتا
ہے-منشیات کے بے تحاشہ پھیلاؤ اور استعمال کی وجہ دراصل منشیات کا کاروبار
کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بین الاقوامی سطح پر یہ کالا دھندا کرتے ہیں اس
وباء کو پھیلانے میں انھی لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے بلا شیہ آج سے پہلے زمانے
میں بھی منشیات کا استعمال کاروبار ہوتا تھا لیکن وہ محدود پیمانے پر تھا
اور چوری چھپے ہوتا تھا لیکن اب اس کا دائرہ کار بے حد وسیع پیمانے پر پھیل
چکا ہے یہ کارو بارو ایک رستا ہوا ناسور بن کر رہ گیا ہے۔ راتوں رات لکھ
پتی اور کروڑ پتی بننے کے جنون نے اس کالے دھندے کو بے پناہ وسعت دے رکھی
ہے-آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ منشیات کا مسلہ کس قدر سنگین صورت اختیار کر چکا
ہے یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ رستا ہوا ناسور اندر ہی اندر
سوسائٹی کو بری طرح مفلوج اور زہر آلودہ کر رہاہے۔ ان جدید قسم کی منشیات
کا استعمال انسان کو بے کار اور ناکارہ بنا رہا ہے ۔خاص کر کے زہر ان
نوجوانوں اور نونہالوں کی زندگیاں برباد کررہا ہے جو ملک کو تباہی بربادی
کی طرف لے جارہا ہے -اس کے نتائج بہت سنسی خیز اور پریشان کن ہیں۔اس لعنت
میں زیادہ تر نوجوان طبقہ اور نئی نسل ملوث و مرتکب ہے ۔اس کی سب سے بڑی
وجہ معاشی بدحالی ہے۔ حیرانگی کی یہ بات ہے کہ یونیورسٹی کے طالب علم بڑے
فخر سے نشہ کرتے ہیں ۔جن میں طالبات بھی شامل ہوتی ہیں۔ غربت اور مفلسی ایک
ایسی لعنت اور بد نصیبی ہے جو انسان کو ہلاکت کے دروازے تک پہنچادیتی ہے ۔جیسا
کے ارشاد نبوی ہے
"قریب ہے کہ مفلسی انسان کو کفر تک پہنچا دے "
نشہ بھی ایک بیماری اور لعنت ہے جو اپنے آپ کو قتل کرنے کے مترادف ہے اس کے
علاوہ اس مسلے کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کے بعض معزز اور اونچے گھرانے
کے چشم و چراغ بھی نشے کی لعنت میں گرفتار ہیں۔ اونچے گھرانوں کے افراد کا
مطمع نظر صرف اور صرف دولت سمیٹنا ہے وہ راتوں رات کڑور پتی اور ارب پتی
بننے کے جنون میں گرفتار ہیں یوں وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے پروگرام
سے یکسر بے پروا ہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ طرح طرح کی سرگرمیوں میں ملوث
ہوجاتے ہیں - یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ منشیات کا ا ستعمال مسلسل اور روز
بروز بڑھتا جارہا ہے اور اس سلسلے میں ہماری تمام کوششیں بے اثر ثابت ہورہی
ہیں ۔منشیات کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ منشیات کی روک تھام کے
اداروں کے مقابلے میں وہ ادارے اور ایجنسیاں بہت زیادہ طاقت ور ارو منظم
ہیں جو منشیات کے کاروبار کے استعمال میں شب و روز مصروف عمل ہیں ۔ اگر ہم
منشیات کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں ان اداروں اور ایجنسیوں کے خلاف
منظم اور مربوط جہاد کرنا ہوگا-لیکن یہاں یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ ہمارے
ہاں قوانین تو تشکیل پاتے ہیں لیکن ان قوانین پر عمل در آمد کی نوبت کم آتی
ہے ظاہر ہے جس قانون کا نفاذ عمل میں نہ آسکے وہ بیکار ہے ۔ قانون بنانے
والے اور اسے نافذ کرنے والے ادارے چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔قانون کے
محافظ ہی قانون کی تحقیر کے مرتکب ہوتے ہیں۔
"مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"
منشیات کی موثر اور مکمل روک تھام کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ باقاعدہ
منظم پیمانے پر جدید خطوط کی طرز معیاری ادارے اور تربیت گا ہیں بنائی
جائیں اور ایسے افراد کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں جو اس کالے دھندے میں
شامل ہیں- یہ لوگ انسانیت کے چیرے پر بد نما داغ ہیں انھیں سر عام سزا دینی
چاہیے ۔جو ادارے اور ایجنسیاں اس گھناو کاروبار میں ملوث پائی جائیں ،ان کے
ساتھ قطعُا کوئی نرمی نہ برتی جائے بلکہ پوری قوت اور سختی کے ساتھ فیکڑیاں
یا کارخانے سیل کردئییے جائییں پھر انھیں مکمل طور پر تباہ برباد کر دیا
جائے ۔یہ شیطان کے اڈے ہیں اور ان کا مکمل خاتمہ ضروری ہے ۔ تاکہ
نہ رہئے بانس نہ بجے بانسری
یہ ایک اور دلخراش حقیقت ہے کہ ملک میں سات فیصد خواتین منشیات کا استعمال
کررہی ہیں۔ جن میں ایسی خواتین شامل ہیں جن کے شو ہر ملازمت کے سلسلے میں
بیرون ملک میں مقیم ہیں-ایسی خواتین جو طلاق یافتہ ہیں وہ بھی نشے کا
استعمال کررہی ہیں۔ حکومت میں ایسے سر کردہ افراد موجود ہیں جو منشیات کا
کروبار کرنے والوں کی سر پرستی کر رہے ہیں بعض سیاستدان نشے کے عوض الیکشن
جتیتے ہیں ۔منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے خواتین میں شعور و بیداری
اجاگر کرنا ضروری ہے-اس مسلے کا ایک تاریک پہلوں اور نہایت افسوسناک اور
تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی ادارے بھی نشے اور منشیات کے مرکز
بنے ہوئے ہیں-ہمیں اس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے -علماء اکرام نشے کی
لعنت کو ختم کرنے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں وہ قرآن اور حدیثوں کر ذریعے
ناقص علم رکھنے والوں کو اس کی لعنت کے متعلق بتائے کہ اﷲنے اس کی کتنی
ممانعت کی ہے یہ علماء کرام کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے
کہ1979ء سے قبل ہیرؤئن عام نہیں تھی ۔لوگ اس کے نام ہی سے قطعا ناآشنا تھے
جب کہ افیون بھی سرکاری ٹھیکے پر دستیاب تھی ۔ہیروئن کی لعنت کو مغربی
ممالک نے متعارف کروایا اور آج وہ ہیروئن کی زد میں آگئے ہیں تو نشے کے
خلاف شور مچارہے ہیں۔ منشیات کی آما جگاہ مغرب میں ہے -جہاں اس کی بھاری
قیمت ملتی ہے جبکہ پاکستان میں اس کی قیمت بین الاقوامی قیمت کے مقابلے میں
بہت کم ہے جس کی وجہ سے اس کے استعمال میں زرو افزوں اضافہ ہورہا ہے-ملک
میں ایک فیصد لوگوں کے لیے بھی ایسی سہولتیں نہیں ہیں جو نشے کی لعنت کو
چھوڑنا چاہتے ہیں -منشیات چھوڑنے والے افراد کو روزگار مہیا کیا جائے تاکہ
وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں-یہ لوگ قابل نفرت نہیں بلکہ
قابل رحم ہیں ان کی اصلاح اور بحالی کے لیے مناسب اقدامات ضروری ہیں جس طرح
عام طور پر کہاجاتا ہے کہ نفرت گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے ہونی چاہیے ۔اس
حکمت عملی کے تحت ہم گناہ اور برائی کا خاتمہ کرسکتے ہیں جب تک ہمارا نظام
نہیں بدلے گا اس مسلے پر قابو پانا دشوار ہے |