بچوں سے جنسی زیادتی اور معاشرہ

بچوں و بچیوں کے ساتھ زیادتی و ہراساں کرنے کے مسلسل واقعات معاشرے کی اخلاقی ابتری کی نشاندہی واضح کر رہی ہے جوظلم کی انتہاء کی جانب نشان دہی کرتا ہے سب سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد اذیت ناک موت سے بھی ہمکنار کردیاجاتا ہے پاکستان میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے انسانیت شر ما جائے حالیہ واقعات میں قصور کے نواح میں نو عمر بچوں سے درندگی اوران کی وڈیوز کی فروخت کا شرمناک سانحہ منظر عا م پر آیا ہے جس سے والدین کے دل دہل کر رہ گئے ہیں اور وہ ان دیکھی تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔نوعمر بچوں سے درندگی اور حیوانیت کوئی پہلا واقعہ نہیں قبل ازیں چند سال قبل سینکڑوں بچوں سے زیادتی اوران کے قتل کے ملزم جاوید اقبال نے عالمگیر شہرت حاصل کی تھی جس کے بعد یہ المناک سانحہ ماضی کی گرد میں دب گیا جبکہ ہمارے گردو پیش میں بھی ایسے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں جن کا کوئی سنجیدگی سے نوٹس ہی نہیں لیتا ۔قصور کے نواحی گاؤں حسین خان والا میں پیش آنے والا یہ سانحہ کوئی ایک دم رونما نہیں ہوا اورنہ ہی کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار ہے اس کی ذمہ داری والدین ،اساتذہ اور معاشرے پر بھی مشترکہ طور پر عائد ہوتی ہے والدین کا فریضہ محض بچے پیدا کرکے لاتعلق اور عہدہ برا ہونا نہیں وہ یہ نظرکیوں نہیں رکھتے کہ ان کا بچہ گلی ، محلے میں کس کس کے پاس وقت بے وقت جارہا ہے اس سے ملنے والوں میں اس سے بڑی عمر کے افراد شامل تو نہیں معصوم بچے بد قماش افراد کے لیے سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں اور انہیں ہدف بنانا بہت آسان ہوتا ہے۔ گلی محلے کے دوکاندار ، ٹیچر ، عزیز ، رشتہ دار کسی بھی بہانے ان کی معصومیت چھین سکتے ہیں قصور کے دیہات میں 284بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے سیکنڈل منظر عام پر آنے کے بعد اہل علاقہ میں شدید اشتعال پھیل گیا اور وہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تاہم مقامی انتظامیہ قومی مفاد کے نام پر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے اور ابھی کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ایک سرو ے کے مطابق 20سے 25 افراد کے گروپ نے مبینہ طور پر گزشتہ برس کے دوران بجوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں چار سو کے قریب نازیبا ویڈیو ز بنائی تھیں۔ یہ گینگ بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کرکے بھتہ بھی وصول کرتا رہا معصوم بچے جنہیں والدین کی طرف سے بھر پور توجہ نہیں ملتی ان میں قوت مدافعت اورخود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے کوئی بھی انسانی درندہ سکول ،اکیڈمی ، بندگھر ،دکان ،پارک یا ویرانے میں انہیں درندگی کانشانہ بنا سکتا ہے اس المیہ کا شکارہونے والے بچے خوف ،شرمندگی اور ندامت کے باعث اپنے ساتھ پیش آنے والی درندگی کو عام طور پر چھپاتے ہیں جب تک کہ کوئی دوسرا اسے منظر عام پر نہ لے آئے چھوٹے بچوں کی اپنی ضروریا ت بھی ہوتی ہیں جن کا بدقسمتی سے ان کے والدین کو اندازہ ہی نہیں ہوتا سکول اورٹیوشن کے اخراجات کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ بسا اوقات بچوں کواپنی اس معصوم سی خواہش کی قیمت اپنی سب سے قیمتی متاع لٹاکر ادا کرنا پڑتی ہے اورپھر یہ نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلتا ہے یہی بچے آگے چل کر مختلف قباحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں بلا شبہ انسانیت کی تذلیل کا اس سے بڑا اندو ہناک واقعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا جو بہترین گورنٹس کی دعوے دار پنجاب حکومت کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور اسکی گورنٹس پر سوالیہ نشان بھی کہ صوبائی دارالحکومت سے صر ف 50.40کلومیٹر دور اخلاق باختہ جنسی درندے معصوم بچوں کو گزشتہ چار پانچ سال کے عرصے سے اغواء کرکے نہ صر ف خودانہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے بلکہ پانچ سے 15سال تک کے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خود بھی اس قبیح فعل پر مجبور کرتے رہے مگر اتنے عر صے سے جاری اس گھناؤ نے کاروبار کی مقامی پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی جو شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے ضامن اس ادارے کی اپنی کارکردگی کی قلعی کھول رہا ہے ۔معاشرے میں اخلاقی تربیت کا سخت فقدان ہے والدین او راساتذہ اپنے بچوں کو ہر اچھی بری بات سے آگاہ نہیں کرتے ہمار ا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ بھی شکست کا شکار ہے والدین بچوں کو گھروں سے نکا ل کر آنکھیں موند لیتے ہیں جبکہ ٹیچر ز بھی نامکمل تعلیم اور تربیت کے فقدان کے باعث ان کی اخلاقی تربیت کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں ۔رہ گیا معاشرہ تو گلی ، محلے ،پارک، بازار یا سنسان جگہ پر ایسے درندے ان معصوموں کو دبوچنے کیلئے تیار کھڑے ہیں ۔سروے کے دوران اس گھناؤنے کاروبار کے حوالے سے جو حقائق و شواہد سامنے آئے ہیں وہ اخلاق باختہ جرائم پیشہ عناصر کی دیدہ دلیری اور ایسے واقعات پر قانون کی آنکھیں بند ہونے کے بھی عکاسی کررہے ہیں اس قبیح فعل میں نہ صر ف ملزمان نے خود اپنے جنسی سفلی جذبات کی تسکین کی بلکہ معصوم بچوں اور بچیوں کی ویڈیو فلمیں بنا کر اسے اپنے لئے منفعت بخش کاروبار بھی بنایا ملزمان نے ان ویڈیوز کے ذریعے نہ صرف بچوں کے والدین کو بلیک میل کرکے انکی جمع پونجی لوٹی بلکہ مبینہ طورپر ویڈیوز بیرون ممالک بھی بھجوائیں جس سے دنیا میں پھیلے اس گھنا ؤنے کاروبار کے منظم نیٹ ورک کی بھی نشاندہی ہو رہی ہے ۔اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائی کم ہے جنہوں نے یہ گھناؤنا فعل کیا وہ سخت ترین سزا کے حق دار ہے ملزمان کو کڑی سے کڑ ی سزا دی جانی چاہیے تاکہ کو ئی آئندہ ایسے گھناؤنے فعل کی طرف سوچ بھی نہ سکے اس واقعہ کے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں انکو فی الفور سزا دے کر نشا ن عبرت بنا دیا جائے ۔
 
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 17541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.