قومِ لوط
(Shaikh Wali Khan Al Muzzafar, Karachi)
قصور میں بے قصور وں اور معصوم
کلیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے،اس کے تذکرے سے ہی دست وقلم میں ارتعاش ہے،جان
سے ماردینا اتنا بڑا ظلم نہیں جتنا بڑا ظلم یہ ہوا ہے،ظلم بالائے ظلم یہ ہے
کہ حرکت اجتماعی ہوئی ہے،اسے فلمایا بھی گیا ہے،عالمی مارکیٹ میں اسےبیچا
بھی گیا ہے،اس کے ذریعے خاندان کے دیگر افراد کو بلیک میل بھی کیا گیا
ہے،کسی محکمے میں مظلوموں کی دادرسی بھی نہ ہونے دے گئی،کئی سالوں سے یہ
دھندا تسلسل کے ساتھ چلتا رہا ہے،اس سے نہ صرف قصور ،پنجاب، پاکستان،یاعالمِ
اسلام کی رسوائی ہوئی ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کی تذلیل ہے،آپ ذرہ تھوڑی
دیر کے لئے گردن جھکاکر غور فرمائیں ،ایک معصوم بچہ سکول سے تھکا ہوا،بھوکا
پیاسا،ڈرا ہوا، سہما ہوا آرہا ہے،اس پر یہ درندے ہاتھ ڈالتے ہیں،کتنا وہ
بھاگا ہوگا،کتنا چلاّیا ہوگا،کتنا رویا ہوگا،پھر ان ملعونوں کی گرفت میں جب
آیا ہوگا، تو کیا کیا گذری ہوگی،اس کا تصور بھی کوئی نہ کرے تو بہتر ہے،
اتنا بد ترین کردار ہے کہ اس پر اللہ کا عذاب سب سے زیادہ قہر ناک اور
غضبناک ہوکر نازل ہو تاہے،لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے،
وہ اس شرمناک عمل کے تخلیق کنندہ تھے،ان پر جو عذاب آیا تھا، اس کی
تفصیلات کتبِ تفسیر میں اور ان کی بستیوں کے آثار نیٹ میں دیکھ کر رونگٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں،لوط علیہ السلام نے ایک مرتبہ ان سے پریشان ومایوس ہوکر
فرمایاتھا : کیا تم لوگوں میں ایک بھی شریف آدمی نہیں ہے؟۔
’’اور لوط علیہ السلام کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھر یاد کرو جب اس نے
اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم
سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی
خواہش پوری کرتے ہو۔حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ
ہو۔مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا ’نکالو ان لوگوں کو اپنی
بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں۔آخر کار ہم نےلوط علیہ السلام اور اس کے
گھر والوں کو، بجزاس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی، بچا کر
نکال دیا اور اس قوم پر برسائی (پکے پتھروں کی) ایک بارش، پھر دیکھو کہ ان
مجرموں کا کیا انجام ہوا۔‘‘(سورۃ الاعراف۔ آیات 80 تا84 )۔
حضرت لوط علیہ السلام کی اردن کے علاقے’’ سدوم‘‘ کی طرف بعثت ہوئی تھی،قوم
کی شرمناک بیماری کا روحانی علاج کرنے کے لئے،مگر وہ لوگ ایسے عادی مجرم
ہوگئے تھے، جن کی اصلاح ناممکن ہو گئی تھی، لوط علیہ السلام حضرت حضرت
ابراہیم خلیل اللہؑ کے بھتیجے ہیں جو ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے ملک شام
میں تشریف لائے اور خداکی طرف سے سدوم اور ا سکے گردونواح کی بستیوں کی طرف
مبعوث ہوئے ،تاکہ ان کی اصلاح فرمائیں اور انہیں گندے ،خلاف فطرت اور بے
حیائی کے کاموں سے بازرکھیں، جن میں وہاں کے لوگ مبتلاتھے، نہ صرف مبتلا
بلکہ اس بے حیائی کے موجد تھے ،ان سے پیشتر پورےعالم میں اس بیماری سے کوئی
واقف نہ تھا، اولاً یہ ملعون حرکت شیطان نے سدوم والوں کو سجھائی اور وہیں
سے دوسرے مقامات میں پھیلی ، حضرت لوط علیہ السلام نے اس ملعون وشنیع حرکت
کے عواقب پر متنبہ کیااور اس اخلاقی گندگی کو دنیا سے مٹانا چاہا۔
لوطؑ نے اُن سے فرمایا: صرف یہ ہی نہیں کہ ایک گناہ کے تم مرتکب ہورہے ہو
بلکہ اس خلاف فطرت فعل کا ارتکاب اس کی دلیل ہے کہ تم انسانیت کی حدود سے
بھی باہر نکل چکے ہو۔
جس کے جواب میں انہوں نے یہ بات کہی کہ جب ہم سب کو آپ گندہ سمجھتے ہیں
اورخودپاک بنناچاہتے ہیں، توگندوں میں پاکوں کا کیا کام ؟ لہذا باہمی
مشاورت سے وہ کہنے لگے،انہیں اپنی بستی ہی سے نکال دینا چاہیے کہ یہ روزروز
کی رکاوٹ ختم ہو، خیر !وہ ملعون تو کیا نکالتے ، ہاں !حق تعالے نے لوط علیہ
السلام اور ان کے متعلقین کو عزت وعافیت کے ساتھ صحیح وسالم ان بستیوں سے
نکال لیا اوران بستیوں پر عذاب مسلط کردیا ، بہرحال عذاب ان سب پر آیا جو
اس مہلک مرض میں مبتلاتھے اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نبی کا مقابلہ اور
تکذیب کرتے تھے یا جو کفر وفواحش کے اس سسٹم میں ان کے معین ومددگارتھے۔
چنانچہ پہلی ایک خطرناک چیخ نے انہیں آلیا،پھر پتھروں کی بارش
ہوئی،پھربستیاں جڑوں سے اکھاڑ کر ،بہت اوپر لے جاکر، الٹادی گئیں،چنانچہ
نتیجے میں وہاں اس بہت بڑے کھڈے سے ایک چھوٹا سا سمندر وجود میں آگیا،جو
آج بھی موجود ہے، اور بحیرہ’’ مردار ‘‘سے مشہور ومعروف ہے، عبرت کے لئے
صرف اس بحرِ میت کیا سرچ کریں ،اندازہ ہوجائے گا تمام قضیئے کا،اسی لئے
اسلام میں بھی اس قسم کے ملعون کی سزایہ ہے کہ پہلے اسے ایک سخت بدبودار
گندی جگہ میں مقید کیاجائے،جب مقدمہ چلنے پر جرم ثابت ہوجائے،تو پھرکسی
پہاڑوغیرہ ،یابلندمقام سے اسے گرایاجائےاوراوپر سے پتھر مارے جائیں، اس کا
کوئی جنازہ بھی پڑھا یا نہ جائے ،اس کی کوئی قبر بھی نہ بنائی جائے،بلکہ جس
کھڈے میں اسے گرایا گیا ہو،وہاں اس پر اتنے پتھر برسائے جائیں کہ وہ خبیث
الفطرت ان میں مدفون ومقبور ہوجائے، اس کے حوالے سے کوئی تعزیت بھی نہ کی
جائے۔
انسانیت سے گرے ہوئے آدمی کو گناہ کرتے وقت اس کا بدانجام سامنے نہیں آتا،
نفس وشیطان کے ورغلانے سے اس کی بصارت وبصیرت ختم ہوجاتی ہے،بس شہوت ولذت
کے غلبہ میں وہ بات کرگزرتاہے جو عقل وانسانیت کے خلاف ہے،لیکن عقل مندکو
چاہیےکہ دوسروں کے واقعات سن کر عبرت حاصل کرے اور بدی کے انجام کو ہمیشہ
پیش نظر رکھے ۔
بندوں کے حقوق کی رعایت اور معاملات باہمی کی درستی جس کی طرف ہمارے زمانے
کے پرہیزگاروں کی بھی بہت کم تو جہ ہوتی ہے ،خداکے نزدیک اس قدر اہم چیز ہے
کہ اگر ان حقوق کوپامال کیاجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اایسا المناک
عذاب آدمی کو گھیر لیتاہے،جس سے بچاؤ کی پھر کوئی راہ نہیں ہوتی اور مبتلا
شخص موجودہ زمانے میں اور آئندہ نسلوں کے لئے تاریخ کے اوراق میں نشانِ
عبرت بنجاتا ہے۔ |
|