یوم آزادی……کیسے منایا گیا؟

کاش ہم ایک دن کے لیے پاکستانی بن جاتے تو اس کا مستقبل سنور جاتا۔چودہ اگست کا بابرکت دن آیا اور گزر گیا، ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا کہ اہل پاکستان نے روائتی جوش و خروش سے یوم آزادی منایا۔ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ افغانستان، فلسطین، عراق ، ہندوستان کے مسلمان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام ہی کرسکتے ہیں۔ 1947 میں ہجرت کرکے آنے والے بزرگ ہی آزادی کی قیمت جانتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم آزادی کی حقیقی قیمت جو ہمارے آباو اجداد نے ادا کی تھی اگلی نسل کو منتقل نہیں کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم آزادی کو محض ایک اتفاق سمجھتے ہیں، اس کی نہ قدر کرتے ہیں اور نہ اس دن کو کسی اہتمام سے مناتے ہیں۔ حکمران تو شاید صرف شوق حکمرانی پورا کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، اﷲ اگرا نہیں کچھ عقل بھی دے دیتا اور اس قوم کا دکھ درد محسوس کرنے والی کوئی حس بھی تو ہم یوں بے راہ رو نہ ہوتے۔

اہل پاکستان نے یوم آزادی تفریحی مقامات، شہروں کی سڑکوں، پارکوں، ٹی وی سکرین اور پٹاخے مارتے ہوئے گزارا۔ ایک بڑی تعداد نے نیند پوری کرنے کی کوشش کی اور کچھ لوگ تاش کھیلتے رہے ۔ اکثر شہروں میں تیس، چالیس فیصد کاروبار کھلے رہے اور لوگ معمول کے مطابق اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مگن تھے۔ چند ایک پرائیوٹ تعلیمی اداروں نے یوم پاکستان کے موقع پر بچوں کے پروگرامات منعقد کررکھے تھے، سرکاری تعلیمی اداروں اور اکثر پرائیوٹ اداروں نے بھی اسے روائتی چھٹی کے طور پر ہی منایا۔

نوجوانوں نے موٹرسائیکل کے سلنسرز نکال کر شور شرابے سے اپنی آزادی کا اظہار کیا، کچھ نے آتش بازی اور پٹاخے وہ بھی عوام باالخصوص خواتین کے جھرمٹ پر پھینک کر یوم آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کی ملحقہ سیرگاہوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، مری انتظامیہ نے دو روز قبل ہی سیاحوں کو انتباہ کردیا تھا کہ وہ مری کی طرف رخ نہ کریں، رہائش اور پارکنگ کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ جو لوگ گئے وہ آدھا دن جانے میں اور آدھا دن واپس آنے میں لگا کر اپنے آزاد ہونے کا احساس دوبالا کرتے رہے۔ کچھ منچلے سڑکوں کے کنارے گاڑیوں پارک کرکے لاوڈسپیکر پر ترانے لگا کر مخلوط ڈانس کرتے رہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ شہری آبادی کا تیس فیصدکسی نہ کسی انداز میں جشن آزادی میں شریک تھا۔

مجھے ایک پسماندہ بستی میں عائشہ سکول سسٹم کے جشن آزادی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، غریب بستی کے بچے ’’کیا ہم آزاد ہیں‘‘ جیسے مشکل موضوع پر دلائل کے انبار لگا رہے تھے، بچیاں کس جوش و خروش سے ترانے سنا رہیں تھیں اور سامعین گرمی کی شدت کے باوجودگھنٹوں شریک رہے۔ مجھے بطور مہمان خصوصی اپنی گزارشات پیش کرنا تھیں۔ میں بچوں کا جذبہ حُب الوطنی اور حکمرانوں کے بے حسی کے درمیان پھنس گیا۔ایک طرف تپتی دھوپ میں طلبہ و طالبات اپنے وطن کے ساتھ محبت کااظہار کررہے تھے اور میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ پولیس نے سکول فنگشن کے لیے ٹرک کو راولپنڈی سے کھنہ پل نہیں آنے دیا۔ بتائیں ، ہم ّٓآج کی نسل کو کیسے سمجھا ئیں کہ ہم واقع ہی آزاد ہیں۔ بچے بھی کیا ہیں آج کے، ایک جواب پر دس، دس سوالات اٹھاتے ہیں۔

یہ آزادی جو ہم نے خون کے دریا عبور کرکے حاصل کی، جس کی خاطر عزت، عصمت، والدین، بہن بھائی اور اولاد سب کچھ قربان ہوا۔ انگریز سامراج اور ہندوو بنیے دونوں سے ایک ہی جست میں بچ نکلنا ، قائداعظم کی بصیرت ہی کا کمال تھا۔ورنہ متحدہ قومیت کے پرفریب نعروں میں کتنے ملآں ہمیں گمراہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ متحدہ قومیت کا ترجمہ آج مسلمانان ہند سے کوئی پوچھے۔ہم ہیں کہ آزادی کی قدر و قیمت سے نابلد، ناچ ، کود اور مخلوط ڈانس ، سیرگاہوں کے آوارہ ماحول میں جشن آزادی منا کر نظریہ پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

سکول کی تقریب میں مجھے محسوس ہوا کہ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ عید کے دن کی طرح یونین کونسل کی سطح پر سب مرد وزن جمع ہوں، اجتماعی طور پر قومی پرچم کو سلامی دیں اور مل کر قومی ترانہ پڑھیں اور تحریک آزادی کی ایک ویڈیو دکھا کر پاکستان کے آزاد شہریوں کو آزادی کی قدر و قیمت بتلائی جائے۔ سرکاری سرپرستی میں تمام سیاسی، سماجی تنظیمیں بغیر کسی پارٹی جھنڈے کے پاکستان کے پرچم لیے ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ کا عملی مظاہرہ کریں۔ ہاں یہ ممکن تو ہے، گلی محلے کے نوجوان یہ کرسکتے ہیں، اس دن کو جذبہ آزادی ، جذبہ حُب الوطنی اور جذبہ دفاع وطن کے طور پر منایا جاسکتا ہے ، اگر حکمرانوں کی کھوپڑی میں قومی حمیت جاگ اٹھے یا وہ لوٹ کھسوٹ سے فارغ ہوں تو۔ ہمارے قومی ادارے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، یونیورسٹیاں، ہائرایجوکیشن کمیشن، لوک ورثہ، نیشنل بک فاونڈیشن، مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات اور اس طرح کے دیگر ادارے پاکستان سنوارنے کے ایجنڈے پر کام کرنے لگیں۔

ہمیں ایک دن کے لیے تو پاکستانی بن جانا چاہیے۔ مجھے پنجابی، پٹھان، ہزارہ، بلوچستان، سندھ، کراچی ، کشمیر اور گلگت بلتستان سے پیار ہے، یہ میرے گھر کے بچوں کے مختلف ناموں کی طرح اپنے ، اپنے علاقے کی پہچان ہے۔ علاقائی زبانیں اور بولیاں بھی ہمارے ملک کا حسن ہیں۔ یہ سب ہمارا ثقافتی سرمایہ ہے۔ ان سب کو اہمیت دینی چاہیے اور پاکستان اور اردو زبان کو ہماری اجتماعی پہچان اور آن ہونا چاہیے۔ یہ کون کرے گا؟ ہماری حکومت کو یہ سوچنا چاہیے اور بے لگام، بغیر منزل، بغیر ویژن اندھیروں میں بکھرے ہوئے ان موتیوں کو پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنانے کے لیے منصوبہ سازی کرنی چاہیے۔

کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ملک کے ہر تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹی میں ٹاپ ٹونٹی طلبہ و طالبات کو ایوان صدر میں جشن آزادی کی تقریب میں مدعو کیا جاتا۔ ملک کے لیے گرانقدر خدمات انجام دینے والے خواتین و حضرات کو جشن آزادی کی تقریبات کے لیے ملک بھر میں پھیلا دیا جاتا۔ تحریک آزادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بزرگوں کو ملک کی ہر یونیورسٹی میں اپنے مشاہدات بیان کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا۔

کاش ہم ایک دن کے لیے پاکستانی بن جاتے تو اس ملک کا مستقبل سنور جاتا۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117217 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More