ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے

آج میرے پاکستان کی ٦٨ ویں سالگرہ ہے'مجھے اس کی دوستی پر فخر ہے۔جب میں اس کے ہمراہ ہوتا ہوں تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے۔پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس کو جوساتھی ملے،اس کے خلوص،اس کی محبت،اس کی ہمدردی ،اس کی وسیع القلبی کا بے جا ستعمال کرتے رہے۔پاکستان یہ سب چکر سمجھتا تھامگر اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے اس نے یہ سارے معاملات اللہ پر چھوڑ رکھے تھے ۔ جب میں اپنے گھر سے باہر نکلاتو میں نے جگہ جگہ اجتماعات دیکھے جس میں مقرر حضرات پاکستان سے اپنی دوستی اور محبت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رطب اللسان تھے۔میں ایک جلسے سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے میں پاکستان کو تلاش کرتا رہامگر ایسا لگتا تھا کہ شائد وہ اپنی اس ٦٨ ویں سالگرہ کی تیاریوں میں نہ تو شریک ہونا چاہتا ہے اور نہ دوسروں کی شرکت پراسے کوئی خوشی ہورہی ہے۔

ان پریشان کن خیالات کو لیکر میں نے گلی گلی اس کو ڈھونڈنا شروع کیا ، جیسے جیسے میری تلاش بڑھتی گئی ،میری امید کمزور پڑتی گئی اور وقت بھی تنگ ہوتا چلا گیا۔مجھے یہ بھی فکر لاحق تھی کہ شام کو بچوں نے بھی پاکستان سے مل کر مبارکباد دینا تھی، اگر مجھے پاکستان نہ ملا تو میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گا، ویسے بھی بچے پاکستان سے میری دوستی کو ایک خواب ہی سمجھے تھے اور میں نے بڑے وثوق سے ان کو یقین دلایا تھا کہ میں تم کو بتاؤں گا کہ میں اور پاکستان کتنے اچھے دوست اور ساتھی ہیں۔اچانک خیال آیا کہ پاکستان جب گھبراتا ہے یا کسی بات پر اس کو صدمہ ہوتا ہے تو وہ ایک ہی جگہ ملتا ہے۔یہ خیال آتے ہی میں الٹے پاؤں بھاگتا ہوا گھر آیااور اپنے بچوں،پوتوں کو ساتھ لیکر قائد اعظم کے مزار کی طرف روانہ ہو گیا۔ بابائے قوم کے مزار کے احاطے میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پاکستان بابا کی قبر سے لپٹا ہچکیاں لے رہا ہے۔

قدموں کی آہٹ پر پاکستان نے اپنا چہرہ قبر سے الگ کیااور اپنی سوجھی ہوئی آنکھوں سے میری طرف لپکا۔میں نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ پھیلائے،بغل گیر ہوتے ہی میں نے کہا کہ پاکستان تم اپنی سالگرہ کے جلسوں میں کیوں نہیں تھے؟اس نے مجھے فوراًاپنے سے الگ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے میرا کندھا پکڑکر زور سے جھٹکا دیا کہ تم بھی مجھے یہی کہنے کیلئے آئے ہو؟کیا کوئی اپنی سالگرہ اس منافقت سے منا سکتا ہے؟میں نے کہا کہ میں تمہاری بات نہیں سمجھا،اس پر پاکستان نے مجھے یہ کہا کہ کیا مجھے میرے باپ نے اسی لئے جنم دیا تھا کہ میری جنم بھومی عروس البلادمیں ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری،لینڈ مافیا،قتل وغارتگری،شوت،چوربازاری اورغنڈہ گردی ہو،اس کوختم کرنے کیلئے میرے بچے دن رات اپنی جانوں کی قربانیاں دیکراس کاامن واپس لانے کیلئے کوشاں ہیںتوہزاروں میل دوربیٹھااسی شہرکاایک مفرورپہلے تو میرے وجودکودشمن کی سرزمین پرمجھے تاریخ کی ایک بڑی غلطی قراردیتارہااور اب توثابت بھی ہوگیاکہ وہ میرے وجودمسعودکوختم کرنے کیلئے باقاعدہ میرے ازلی دشمن سے مالی مددکے علاوہ اپنے کارکنوں کودہشتگردی کی تربیت بھی دلوارہاہے،دکھ تواس بات کاہے کہ میں تو تمہیں باوقاراندازمیں آزاد کروا کے گیاتھا،میری تصویر کو اپنی پشت پر لٹکا کر میرے سامنے میری غیرت کو سرِ عام نیلام کیا جائے اورتم سب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر کسی مصلحت کی بناء پر اف تک نہ کرو ،حتیٰ کہ اب باقاعدہ دنیاکے ٥٥ممالک کو بشمول بھارت کو مدد کیلئے پکاررہاہے؟؟؟؟؟

میں جب ایک سال اورکچھ دن کاتھا تو مجھ سے میرے بابا بچھڑ گئے،اس یتیم کو پالنے کیلئے میرے چچاؤں نے بھرپور کردار ادا کیا اور آہستہ آہستہ وہ لوگ بھی مجھ سے بچھڑ گئے۔ایک پھوپھی تھی جو میری غمخواراورہمدرد تھی'، باپ کی کمی جب مجھے محسوس ہوتی تو میں ان کی گود میں سر رکھ دیتا اور بے انتہا سکون پاتا۔افسوس وہ بھی مجھ سے جدا ہو گئیں،میں غیروں کے رحم و کرم پر آگیا،جو چچا اور رشتہ دار کروڑ پتی تھے ،نواب تھے،صاحبِ حیثیت تھے،انہوں نے اپنا تمام دھن مجھ پرلٹادیا اور مرتے وقت ان کی زبان سے میرے لئے دعائے خیر کے کلمات ہی نکلے کہ اے اللہ!پاکستان کی حفاظت کرنا (آمین)۔اب تم خود ہی بتاؤکیا وہ لوگ عظیم تھے جنہوں نے ایک یتیم کی پرورش کرنے کیلئے اپنی جان ومال داؤپرلگا دیئے یاوہ لوگ عظیم ہیں جومیری جائیداد ،میری دولت کولوٹتے رہے اوراپنے ناموں اوراپنی اولادوں کے نام منتقل کرتے رہے اورپھرڈھٹائی دیکھو کہ اس یتیم کوبجائے سنوارنے اور بنانے کے ایک بازو سے بھی محروم کر دیااور پھر بھی میری محبت کا جھوٹا دم بھرتے ہیں۔اب تم خود ہی بتاؤ کیا میں ان کی محفلوں میں شریک ہو سکتا ہوں؟

میں نے کہا دیکھو میرے ساتھ میرے بچے اور میرے پوتے بھی آئے ہیں اور میں بڑے فخرسے اپنی اورتمہاری دوستی کے متعلق بتاتاہوں تو یہ مانتے نہیں۔ پاکستان نے اپنے بازومیرے بچوں اورپوتوں پررکھے اورکہااے بچو! تمہارے اورتمہارے ابوجیسے لوگ مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں اورانہی جیسے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک مملکتِ خداداد ہوں ورنہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر کب کا ختم ہو گیا ہوتا۔مجھے آج بھی یاد ہے جب تمہارا باپ میرا ایک بازو کٹ جانے کی خبر سن کر زمین پر گرگیا تھا تو اس کے سر پر ایک چوٹ آئی تھی تو میرے ہی دوسرے سلامت مگر زخمی ہاتھ نے اس کو سہارا دیکر زمین سے اٹھایااور اس کے زخم پر اپنی محبت کا مرہم رکھااور یہ احساس اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی کیلئے زندگی جیسی قیمتی چیز بھی قربان کردی جائے۔وہ لوگ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جو ایمانداری، وفاداری اور خلوص کے ساتھ میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اورکسی قسم کا صلہ نہیں چاہتے۔

پاکستان نے ان کو مسرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ بچو !میری خدمت یامجھ سے محبت کے اور بھی بے شمار انداز ہیں جو میں تم کو بتاناچا ہتا ہوں۔لال بتی پر رکنا،قانون کی پاسداری کرنا،اپنے اختیارات کا ناجا ئز استعمال نہیں کرنااور مظلوموں کے حقوق دلانا ،یہ بھی مجھ سے محبت کے انداز ہیں۔اپنے کام کو تندہی سے کرنا،میرے بابا کے فرمان ''ایمان ، اتحاد،تنظیم'' کی پاسداری کرنااور جس منصب پرفائزہواس کو ایمانداری سے انجام دینابھی میری محبت ہے۔میری پوتی نے کہا کہ پاکستان !میں نے آج صبح اسکول میں آپ کے بابا کے احسانات پر تقریر کی تھی اور مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ میں جب تقریر کر رہی تھی تو اسٹیج پر بیٹھے بزرگ بجائے میری بات سننے کے باتوں میں مشغول ہوگئے اورمیری تقریر کے بعد جب یہ اعلان ہوا کہ اب ان کی خدمت میں ایک گانا اوررقص پیش کیا جائے گا تووہ خوشی کے مارے اپنی اپنی کر سیوں سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور مسلسل تالیوں کے ساتھ وہ زمین پر پاؤں مارنے لگے۔

پاکستان نے سردآہ بھری اورمیری پوتی کے سرپراپناکانپتاہاتھ رکھ کرکہا بیٹی! تم صحیح کہہ رہی ہو ،ہمارے بڑوں نے اپنے مقصدِ حیات کارخ صحیح راہ پر نہیں ڈالا جس کے نتیجے میں ہم اپنا تمدن اورثقافت،آداب و اطوارفراموش کر بیٹھے،پھر پاکستان نے کہابیٹا!یہ میرے بابا کی عظمت ہے کہ آزادی کی جنگ میں جہاں لاکھوں افرادقربان ہوتے ہیں انہوں نے ایک گولی چلائے بغیراور ایک قطرہ خوں بہائے بغیراتنی بڑی اسلامی مملکت وجودمیں لے آئے،یہ الگ بات ہے کہ فرنگی اورہندو بنئے کی سازشوں نے میرے ہزاروں بچوں کو ہجرت کرتے ہوئے کاٹ دیا لیکن اس کے باوجود وہ جب مجھ سے ملے تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔پھر پاکستان نے میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہابیٹا!تم استادہومگر تمہارا یہ علم اور پیشہ تمہارے لئے دولت کمانے کا ذریعہ نہ بنے بلکہ تمہارے ساتھیوں اور دوسرے شہریوں کیلئے باعثِ خدمت ہو،یہی تمہاری محبت کا اظہار ہوگا۔پھر ننھے معصوم پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ عمر معصومیت کی ہے اور اس کی معصومیت کو بچانااور اس کی حفاظت کرنا یہ تم بڑوں کاکام ہے ۔یہ ابن الوقت لوگ جو اس وقت میرے نام کی بیساکھی لیکر سیاسی میدان میں اونچا اڑناچاہتے ہیں،وہ زیادہ عرصے تک پنپ نہیں پائیں گے۔

بچو!میں تمہیں آج ایک راز کی بات بتاتا ہوں کہ تمہارے ابواورداداکی محبت جووہ مجھ سے کرتے ہیں،ایک عجیب سی محبت ہے۔یہ دنیا میں جہاں جہاں بھی گئے میرے نام کو بلندہی کرتے رہے! ایک بات اور بتا دوں کہ آج صبح تمہارے ابو نے اپنے تمام ساتھیوں کو کانفرنس روم میں جمع کیااور میرے بھائی اقبال کی لکھی ایک نظم''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' سب نے مل کرپڑھی ،پھر ہر ایک نے باری باری میری تاریخِ آزادی اور لوگوں کی مجھ سے عقیدت اور محبت کے اوپراپنے خیالات کا اظہار کیا ۔محبت کا یہ اظہار کسی کے زور،کسی زبردستی،کسی لالچ کے بغیر تھا،سب ساتھیوں کے چہروں پر جذبات کی حرارت 'آنکھوں میں فرطِ محبت سے امڈے ہوئے آنسو اور کپکپاتے ہوئے لب اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ یہ اور ان جیسے بے شمار لوگ اب بھی مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں تو بچو! تم بھی اپنے ابواور ان کے ساتھیوں جیسے بنوکیونکہ تم ہی سے ان کی کل اور میری نئی صبح وابستہ ہے۔ پاکستان کی آواز گلوگیر تھی اور وہ خاموش کھڑا اپنے باپ سے کہہ رہا تھا!

بابا!’’تم نے میراایک تشخص بنایا،آپ توجانتے ہیں کہ میرے وجودکویقین میں بدلنے کیلئے صدی کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی اوراس عمل میں ہزاروں جانیں قربان ہوگئیں،دس ہزارسے زائدبچیاں توصرف مشرقی پنجاب میں لاپتہ ہوگئیں،لاکھوں افراداپنے گھروں کوچھوڑ کر اس امیدپرمیرے دامن میں پناہ لینے کیلئے آئے کہ یہاں اپنے رب سے کئے گئے وعدے پرعمل پیراہوکرقرآن کو نافذکیاجائے گالیکن آج تک مجھ پرحکومت کرنے کیلئے کبھی جمہوریت کانام لیتے ہیں،کوئی ''جمہوریت کوسب سے بڑاانتقام قراردیکر میری مشکیں کس دیتا ہے،کوئی میرے نام کے ساتھ ''نیا''کالاحقہ لگاکرمجھ پرسواری کاخواہاں ہے اوراس میں شک نہیں کہ تمہارے چندساتھیوں نے اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کیا اورکچھ نادانوں نے اس رنگ کو اپنی حماقتوں سے مٹانے کی کوشش کی اوراب تومسلسل ڈھٹائی کے ساتھ میرے وجودکومٹانے کے درپے ہیں۔ متنازعہ کشمیر جس کو تم نے میری شہ رگ قرار دیا تھا اس کو خاموشی سے ہندو بنئے کے سپرد کردیاگیاہے،مجھ پرحکومت کرنے کیلئے اغیارکے احکام کے اس قدرتابعدار ہیں کہ دشمن کی دہشت گردی کے تمام شواہدکے باوجوداس سے ایسے مرعوب ہیں جس نے میری غیرت و حمیت کو تار تار کر دیا ہے۔بابا!مگر اب بھی بہت سے لوگ (سیدعلی گیلانی کی قیادت میں)میری محبت میں تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیار ہیں اورجنت نظیرمیں بیٹھ کر''ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے''کے فلک شگاف نعرے لگاکرمجھ سے پرخلوص محبت کانہ صرف اظہارکرتے ہیں بلکہ پیرانہ سالی میں صعوبتوں کامقابلہ بھی بڑی پامردی سے کررہے ہیں۔بابا!میری ایک بہادردخترآسیہ اندرابی بھی ہے جوہرسال میری سالگرہ بڑے پرعزم طریقے سے مناکرمیرے وجودکی گواہی دیتی ہے مجھے امید ہے میرا نام ، میری شناخت انشاء اللہ ختم نہیں ہو سکتی!
پھر پاکستان نے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھایا،میرا اور میرے بچوں کا ہاتھ پکڑا،ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان پائندہ باداور قائد اعظم زندہ باد کے پرجوش نعرے لگائے ، قومی ترانہ پڑھ کر مزار سے باہر آئے۔سب نے باری باری پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایااور تجدیدِ عہد کرکے ہم لوگ اپنے گھر کو واپس ہوئے۔ پاکستان پائندہ باد

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.