دانش وبینش کے جس زاویئے سے بھی دیکھاجائے ،اور جہانِ ذکر
وفکر کی جتنی بھی راہ نور دی کی جائے ،دوسرے ادیان سماویہ کے مقابلے میں
کچھ زیادہ ہی امت ِاسلام کی اول و آخر کا میابی عبادت گاہ یعنی مسجد سے جڑی
ہوئی معلوم ہوگی ، اسلام کی تبلیغ وترویج اور مسلمانوں کی فلاح ،بہبودکے
علمبردار ہمیشہ سے یہ کہتے اور سمجھتے بتلاتے اور سمجھاتے چلے آرہے ہیں، کہ
جب اہلِ اسلام کی مسجد یں ویران ہوں گی اور ان کے گھر آباد ہوں گے ،عیش
وآرام روزافزوں اور محفلیں پر رونق ہوں گی، تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا ،کہ
تباہی ان کی بستی کو چاروں طرف گھیر چکی ہے اور بہت جلد کسی ناگہانی حادثے
کے نتیجے میں وہ اپنا سارا کچھ کھودیں گے، ایسے مسلمان یوںتقدیر کے قاضی کے
ہاتھوں بے دست وپاہوکر تباہی کے سیلاب ِبلاخیزکی بے رحم موجوں کی نذر
ہوجائیں گے۔
اس نظریئے کا عنوان ،کبھی یہ ہوتاہے مسجد اقصی پر یہودیوں کے دھاوا بولنے
اور ھندؤں کی بابری مسجد پر چڑھائی دراصل اسلام کی روح اور مسلمانوں کے
اجتماعی ضمیر کو پاؤں تلے روندنے کے مترادف ہے اور مسلمان اگر اس کیلئے
کھڑے نہیں ہوں گے، تو گویاوہ اپنی تاریخی اور ملی موت کے پروانے پر دستخط
کررہے ہیں۔
کبھی اس قضیے کا سرنامہ یہ ہوتاہے ،کہ مسلم معاشرے میں اور غیر مسلم ملکوں
کی مسلم کمیونیٹیوں میں مساجد کے قیام سے غفلت یاان کی شایانِ شان تعمیر
وانتظام سے پہلو تہی فکری ، اخلاقی اور ثقافتی وتہذیبی لحاظ سے ہی نہیں
بلکہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے حیاتِ اجتماعی سے اسلام کا جنازہ نکالنے کے
مترادف ہے ۔
کبھی اس نظریئے کی شہ سرخی یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی صبح اور جمعے
کےنمازیوں کی تعداد جب تک برابری کی سطح پر نہیں آئے گی اسلام اور مسلمانوں
کیلئے فتح اور عروج کا خواب نِرا خواب ہی رہے گا۔
بہرحال قضیہ ایک ،اور اس کے عنوانات درجنوں ہیں۔
معاملہ اہم بھی ہے اور نہایت پیچیدہ بھی ۔دیہاتوں اور گوٹھوں کو چھوڑ ئیے،
پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کے اس بہت بڑے شہر کراچی کی مسجدیں چھان
ماریں،ہماری تواس گلستاں سے بڑی پرانی یاری ہے اور تاحیات ہم استواری سے
اسے نبھانے کے متمنی ہیں سو اسکے ہر شجر، ہرسمت پھیلی بیل بوٹیوں کے سوکھے
اور تازہ پتوں سے ہمیں کسی حدتک شناسائی ہے ۔
یقین جانیئے کہیں بھی صورت حال قابل رشک نہیں، بہت ہی اگر کہیں بہتری ہے تو
گزارے کی حدتک ہی ہے ۔
سرکار کو تو ایسی مسجدوں سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے جہاں آمدنی کا معقول
اور پائیدار بندوبست نہ ہو ۔اوقاف نامی نکمے اوربے قدر محکمے کے پاس تو صرف
مزارات اور ان کی مساجد ہیں جہاں فواحش، خرافات ، منشیات اور دنیا جہاں کے
اخلاق باختہ دھندوں کی بھر مارہے ،اور ارباب ِاختیار مال بنانے کیلئے ان کی
تزئین وآرائش اور تنظیم وترقی کیلئے کوشاں ہیں ،جس کا مطلب یہ ہے کہ اوقاف
کے زیر اثر مزارات ومساجد اب رشدوہدایت نہیں معاذاللہ گمراہی کے اڈے بنے
ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ عمومی طور پر مسجدیں یا توفکری وعملی میدانوں میںانتہائی
فرسودہ قسم کے افراد پر مشتمل کمیٹیوں کے پاس ہیں ،یا علمأ نہیں مولوی
صاحبان کے ہاتھوں اسیر ہیں، یاجائز وناجائز اموال کےذخیرہ اندوزکسی متمول
سیٹھ صاحب کے انڈر میں ہیں ،یا پھر مختلف جماعتوں اور فرقوں کے زیرِ اثر
ہیں، ان سب کے ہاں بھی اپنے منظور ِنظر یاسفارش اور تعلقات کی بنیاد پر
اکثرایسے پردیسی امام بھرتی کئے جاتے ہیں ،جوان مسجدوں کو محض کمائی کے
ذریعے کے طور پر اختیار کرتے ہیں ،بہت سےعلمی اعتبار سے کورے ہوتے ہیں
،امامت بطورِ پیشہ اختیار کئے ہوتے ہیں،اخلاق اور کردار بھی ان کا نہایت
شرمناک حدتک گراوٹ کا شکار ہوتاہے ۔
یہاں امام کے تقرّر وانتخاب کے اصول میں سرفہرست اس کی‘‘ کوالٹی’’ ہے۔
اگروہ ذرا فربہ جسم کاہے، شکل سے اللہ میاں کی گائے لگتاہے ،چاپلوس
ہو،دوٹکے کی کمیٹی کی ہتک آمیز شرطوں اور جہل وحماقت کی عکاس من مانیوں پر
دل وجاں سے راضی ہے اور ہرحال میں طاعت کے جذبے سے سرشارہے ،تو وہی اہل
ٹہرے گا قوموں کی امامت کا۔ ایسوں کو پھر امامت،خطابت اور درس قرآن ،تربیت
واصلاحِ عوام کا ڈہنگ تو کیا آئے گا، قرأت بھی اس کی خانہ ساز طرز کی اور
بالکل دیسی ٹائپ کی ہوتی ہے۔ عموماً کسی‘ کنویں کے مینڈک’ طرز کے استاد کے
عجمی لَے میں پڑھنے کو ٹھیک اور حرمین شریفین کے ائمہ کی قرائت کو غلط قرار
دینے کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں،مؤذنین کا حال ان سے بھی ابتر ہے،جب وہ
اِللے ےےے ہو آگبِر جیسے غلط ادائیگی کے ساتھ اذان کی صدا لگا تے ہیں تو
بجائے سننے کےآپ کانوں میں انگلیاں دے لینگے ۔
سوحقیقت یہ ہےکہ مسجد کا معاملہ اچھا نہیں ہے اور دور دور تک اسکے لئے کوئی
فکر مند او راس کی اہلیت سے بہر ہ ور شخص یا ادارہ بھی نظر نہیں آرہا،امامت
قوموں کی ہو یا نمازیوں کی، ہے توبہرحال ایک عظیم منصب اور صلاح و فسادِ
امت کامحوری نقطہ۔ اس کو ذاتی مفادات اورنفسانی اغراض کی بھینٹ چڑھا
نا،اپنے گھروں کا خوب خیال رکھنا اوراللہ تعالیٰ کے گھر کونا اہلوں کے
ہاتھوں ایک بے وقعت پیشہ بنانا ہمارا المیہ ہے اور اس المیے کے سارے کردار
ہمارے قومی اور ملی مجرم ہیں ، وہ ہماری اجتماعی اور انفرادی تباہی کے ذمے
دار ہیں اور اس منصبِ عظیم کی بازیابی اور درست استعمال ہم سب کا اجتماعی
فریضہ ہے۔
کیا ہم اس حوالے سے سوچنے کو تیار ہیں ؟ مسلماں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ
وہ نمازی ہو ،بے نماز ہونا بہت بڑی کوتاہی ہے،پھر بظاہرنمازی ہوکر حقیقی
معنوں میں نمازیوں کے اوصافِ حمیدہ سے بہرہ ور نہ ہونا اس سے بھی بڑی
کوتاہی ہے،علامہ اقبال نے بہت پہلے امت کی اس بیماری کی تشخیص کی تھی، کہا
تھا:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
جی ہاں حجازی اوصاف والے اہلِ مساجد ،آج بھی ہمارے مسائل میں نماز اور
مسجد کا مسئلہ سب سے اہم اور ہنوز لا ینحل ہے۔ اس کا پائدار اورقابلِ قبول
حل سوچنے کی ضروت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے،حکومتیں یا تو صلاۃ کمیٹیاں بناتی
ہیں،یا پھر سب جگہ بیک وقت جماعت کرانے کے لئے اسکیمیں بناتی ہیں،نماز اور
اہلِ نماز کے اوصاف وصفات کیاہوں،اس پر کوئی نہیں سوچتا، لہذامسلمانوں کی
حقیقی بہی خواہ خود سے آ گے آئیں اور اپنا تعمیری کردار ادا کریں۔
اگرگمراہی اورتباہی کے اسباب بڑھ رہے ہیں، تو خیر وصلاح کے اس مرکزی وسیلے
کے حوالے سے مجرمانہ غفلت برتنے کی بھی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ |