وقت کا کھیل

’’کھانا شروع کرو‘‘ کی آواز سنتے ہی ایسے افراتفری پڑ گئی جیسے کسی دُشمن نے حملہ کر دیا ہو۔ لوگ آستینیں چڑھا کر گوشت والی ڈشوں کو راستے میں ہی ایسے دبوچ لیتے جیسے اُنہوں نے کوئی انعام جیتا ہو۔ انسان کی ازلی بھوک ننگی ہو گئی تھی۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ مجھے بھی کہیں سے کوئی موقع ملے تو میں بھی اپنی بھوک مٹانے کا جتن کر سکوں۔ میں نے بڑی بے بسی سے اپنے آس پاس نظر دوڑائی اور ایک کونے میں ایک بزرگ کو پلیٹ میں صرف سلاد رکھ کر تھوڑا تھوڑا کھاتے دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ میں ایک صحافی ہوں اور اِس جیسی خبر کی تلاش میں رہتا ہوں مجھے اپنا کھانا پینا تو بھول گیا تو میں آہستہ آہستہ اُس بزرگ کے قریب جا کھڑا ہوا۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر میں نے گفتگو کا آغاز کیا۔۔۔میاں جی! یہ کیا ہو رہا ہے، دیکھیں نا جی لوگ کیسے پاگل ہو رہے ہیں۔ بزرگ نے بڑی حسرت سے اُدھر دیکھا تو کہنے لگے۔ بس بیٹا وقت کی بات ہے نا، لوگ ذرا خیال نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے لیے کھانا لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں کھانا لانے کے لیے چلنے لگا تو بزرگ نے کہا۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔بیٹا! میں خود ہی نہیں کھا رہا ہوں۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔

مجھے اُس بزرگ پر بڑا ترس آیا ۔ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ایسے ہی کہا کہ میں نے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے لیکن یاد نہیں آ رہا۔ بزرگ نے کہا۔۔۔نہیں بیٹا۔۔۔میں تو بہت کم باہر نکلتا ہوں۔ یہ تو شیخ مختار نے کچھ زیادہ ہی آنے کے لیے مجبور کیا تو مجھے بادل نخواستہ یہاں آنا پڑا۔ ویسے میں فیصل ٹاؤن میں رہتا ہوں ۔۔۔تم کیا کرتے ہو؟

میں نے کہا۔۔۔جی میں ایک صحافی ہوں، مجھے آپ جیسے بزرگوں سے گفتگو کر کے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ بزرگ باتیں کرتے کرتے مجھے ایک طرف لے گئے لوگ کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے تو بزرگ نے بھی ٹینٹ سے باہر نکلتے وقت مجھے کہا۔۔۔کبھی ملنا، میں نے کہا جی ضرور حاضر ہوں گا تو پھر کوٹ کی جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر مجھے پکڑاتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔یہ میر ا پتہ ہے ۔ ضرور تشریف لانا۔ مجھے وہ بزرگ بڑا دلچسپ لگا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

کافی دنوں بعد میں اُس بزرگ کی رہائش کے قریب سے گزر رہا تھا۔ مجھے اُس بزرگ کا خیال آ گیا۔ سوچا کیوں نہ ملتا چلوں۔ ۔۔تھوڑی دیر بعد میں ایک بہت بڑی اور خوبصورت کوٹھی کے باہر لگی ہوئی گھنٹی کا بٹن دبا رہا تھا۔ چند لمحوں بعد ایک نو عمر لڑکے نے مجھے سِر سے پاؤں تک بغور دیکھا اور پھر پوچھنے لگا۔۔۔ہاں جی! کس سے ملنا ہے آپ کو، میں نے کہا میاں صاحب کو بتاؤ کہ ۔۔۔رحمان آیا ہے ۔۔۔صحافی، اخبار والا ، رحمان۔

وہ بات سُن کر اندر چلا گیا اور پھر انہی قدموں سے واپس آ کر مجھے ساتھ لے آیا۔ ایک سجے سجائے ڈرائینگ روم میں مجھے بٹھا کر وہ اندر چلا گیا ۔ کچھ منٹوں بعد میاں صاحب بھی آ گئے۔ مجھے بڑی گرم جوشی سے معانقہ کیا اور بیٹھنے کا کہہ کر خود بھی قریب ہی بیٹھ گئے۔ نوکر مشروب لے آیا، میاں صاحب کہنے لگے ۔۔۔ رحمان صاحب ! میں کچھ دنوں سے آپ کو یاد کر رہا تھا۔ تو پھر میں نے سوچا، شاید آپ بھول گئے ہوں۔ ہاں بھائی یہ اخبار والے لوگ بابابڑے آدمی ہوتے ہیں ناں۔۔۔

میں نے اتنی بڑی کوٹھی میں اس قدر خاموشی دیکھتے ہوئے کہا لگتا ہے اہل خانہ شاید کہیں گئے ہوئے ہیں۔ بزرگ نے اُداس سا قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔ بس بیٹا! یہ چُپ چان تو کئی سالوں سے میری زندگی کا حصہ ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا ، خیر ہے؟ بزرگ نے کہا۔ اب تو یہ دیواریں اور چھتیں ہی میری بات سننے کے لیے رہ گئے ہیں۔ تو پھر نظریں جھُکا کر کہنے لگے۔ یہ اتنی بڑی کوٹھی میرے لیے ایک پنجرہ ہے۔۔۔ایسا پنجرہ جس میں کسے ڈاروں بچھڑے ہوئے پرندے کی طرح میں اکیلا ہی پھڑ پھڑاتا رہتا ہوں۔

میں بڑی غور اور حیرت سے اُس کی بات سن رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ بیٹا میں نے بڑے مشکل دن دیکھے ہیں۔ سر پر کپڑے کی گٹھڑی اُٹھا کر پچاس پچاس میل پیدل ہی سفر کیا ہے۔ میرے اوپر بڑی غریبی تھی پھر رب نے سُن لی۔ ایک بیٹا باہر چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے دوسرے دونوں چھوٹوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ ایک بیٹی تھی۔ اُس کی شادی کی تو داماد ضدی پڑ گیا بھئی مجھے بھی باہر بھجواؤ۔ پھر اُس کے ساتھ بیٹی بھی وہیں چلی گئی لیکن میں اور میری بیوی ہم دونوں یہاں اکیلے رہ گئے۔ پہلے تو وہ دھڑا دھڑ پیسہ بھیجتے رہے اتنا پیسہ آنا شروع ہو گیا کہ مجھ سے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ گھر والی نے کہنا، بھلیا لوکا! اپنی خوشحالی میں بُرے وقت کو نہ بھُول ۔ پر مجھے دولت کے نشے نے اندھا کر دیا تھا۔ مجھے اﷲ کی مخلوق ایسے کیڑے مکوڑے جیسی لگتی جب مجھے کوئی کہتا، تمہارے رب نے حالات بدل دئیے ہیں اب تم کچھ اُس کی راہ میں بھی خرچ کر دیا کرو۔ آگے سے میں غصے سے کہتا ، رب تمہارے دن کیوں نہیں بدلتا۔ پتہ نہیں تم کون سا رب لیے پھرتے ہو۔

پھر ایسے ہویا کہ رب نے بخشی ہوئی اپنی ساری دولت آہستہ آہستہ دواؤں کے ذریعے واپس لینی شروع کر دی۔ ایسی بیماریوں نے گھیرا ڈال لیا ہے جو کسی کو بتا نہیں سکتا۔ ۔۔اﷲ مجھے معاف کر دے۔ پانچ چھ سال پہلے بڑا بیٹا آیا تھا تو یہ کوٹھی بنوا کر پھر چلا گیا سُنا ہے اُس کے ساتھ ساتھ چھوٹے دونوں نے بھی وہیں میمیں کی ہوئی ہیں۔ مہینے دو مہینے بعد خرچہ بھیج دیتے ہیں پچھلے سال میری گھر والی اﷲ کو پیاری ہو گئی۔ انہوں نے اپنی ماں کا ٹیلیفون پر ہی افسوس کا اظہار کر کے بات ختم کر دی۔

رحمان صاحب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں جب یہ کوٹھی کار نہیں تھے۔ میں بہت سُکھی تھا۔ خوشیوں سے میرے گھر کا آنگن کھِلا رہتا تھا۔ میرے بچوں سے گھر جنت سے کم نہ تھا۔ سارے بچے میری نظروں کے سامنے تھے۔ میں کتنا بد نصیب ہوں کہ میں نے اپنے پوتے، پوتیوں ، نواسے ، نواسیوں کی شکل تک نہیں دیکھی۔ سارے خیر سے جوان ہو گئے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ میری گھر والی کے انتقال کا انہوں نے فون پر ہی افسوس کا اظہار کیا تھا لیکن میرے مرنے پر کس سے فون پر افسوس کریں گے۔

اوپر سے بیماریاں ایسی لگ گئی ہیں۔ اپنی پسند کی کوئی چیز کھا پی نہیں سکتا۔ کھانا، پینا، چلنا، حتیٰ کہ سونا ہر طرف پرہیز پرہیز۔ زندگی بوجھ لگ رہی ہے۔ ۔۔جب پاس پیسہ نہیں تھا اُس وقت بڑا کچھ کھانے کو دل کرتا تھا اب اگر پیسہ ہے تو کچھ کھا نہیں سکتا۔ کوئی چیز پاس نہ ہو تو صبر آ جاتا ہے لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دل ہر وقت ترستا رہے تو اِس سے بڑھ کر عذاب اور کیا ہو سکتا ہے۔ نوکر نے میرے سامنے کھانے والی رنگ برنگی چیزیں رکھی ہوئی تھیں لیکن میرے ذہن میں ایک درویش کی۔۔۔ ’’خیرات نہ روکو نہیں تو تمہارا رزق روک لیا جائے گا‘‘ کی تشریح گونج رہی تھی۔

Dr Izhar Ahmed Gulzad
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzad Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzad: 46 Articles with 73460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.