جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے واقعات و حادثات رو
نما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ زندہ قومیں اور باشعور افراد ان واقعات سے سبق یا
عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اپنے مستقبل
کو سنوارتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ پیش آمدہ واقعات چند دن اخباروں کی شہ
سرخیاں بن کے ذہنوں اور آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور معاشرہ اپنی روش پہ
چلتا رہتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کے منفی اور بھیانک واقعات ہر روز
منظر عام پر آکر غائب ہو جاتے ہیں ۔ عوام الناس اور ارباب اختیا ان واقعات
کے محرکات کی تہ تک پہنچ کر آئندہ ان کے سد باب کی کوئی منصوبہ بندی نہیں
کرتے۔ نتیجہ یہ کہ آئے روز ہمیں بد سے بدتر حالات کامنا کرنا پڑ رہاہے۔
پچھلے ہفتے کے صرف دو واقعات کو ہی آج کے اس مختصر سے کالم میں جگہ مل پائے
گی کہ ان کا تجزیہ کرکے ہم کچھ سیکھ سکیں یا اصلاح معاشرہ کی کوئی تدبیر
بروئے کار لاسکیں۔ ان میں سے ایک واقعہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور
وڈیوز کا ہے جبکہ دوسر ا ایک سیاسی و سماجی شخصیت محترم راؤ اقبال کے اپنے
بیٹے کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کا ہے۔
لاہور کے مضافاتی علاقہ قصور میں پیش آنے والے دردناک اور شرمناک واقعات نے
دنیا بھر میں پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ہم ان واقعات کی تفصیل
میں نہیں جاتے کیونکہ کئی واسطوں سے بارہا دہرائے جاچکے ہیں ۔ سوال یہ ہے
کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان معاشرے میں کمزوریاں کہاں ہیں کہ جن
کے نتیجے میں ایسے مجرمانہ ذہنیت کے حامل نوجوان پروان چڑھتے ہیں جو غیرت
ملی اور قومی حمیت کا جنازہ نکال کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ لوگ آسمان سے براہ
راست گرے نہ درختوں سے جھڑے بلکہ کسی گھر میں پیدا ہوئے ہیں اور کسی معاشرے
میں پروان چڑھے ہیں ۔ کسی سکول میں پڑھے ہیں اور کسی مسجد سے بھی لازما
منسلک ہوں گے۔ کیا والدین نے تربیت اولاد کی وہ اپنی ذمہ داریاں نباہیں جو
ان کا فرض منصبی تھا؟ کیا سکول اور مدرسہ نے انہیں اخلاقی بالیدگی اور حسن
شخصیت کی تعلیم دی؟ کیا مسجد کے محراب و منبر سے خوف خدا اور فکر آخرت کی
تلقین ہوئی؟ ایسے واقعات کے وقوع پزیر ہونے پر جے آئی ٹی کے ساتھ ساتھ تھنک
ٹینک بھی ہونے چا ہییں جو اس تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں کہ آخر کمزوریاں
کہاں ہیں کہ جن کے نتیجے میں معاشرہ میں پلنے بڑھنے والے افراد کی شخصیت
سازی کا فقدان ہے۔ یہ تو چند واقعات ہیں جو کسی وجہ سے سالہا سال کے مکروہ
دھندے کے بعد منظر عام پر آگئے ورنہ ایسے کئی گینگ اور مجرمانہ روش کے
افراد موجود ہیں۔ پولیس کا بنیادی کردار قانون کو نافذ کرنا اور ممبران
پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ جب پولیس ہی مجرموں کی پشت پناہ
بن جائے اور ممبران پارلیمنٹ کے ڈورے بھی ایسے وحشی مجرموں سے ملنے لگ
جائیں تو پھر ایسے معاشرے کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ اگر صرف پولیس کا نظام سیاسی
دباؤ سے آزاد، رشوت و سفارش سے پاک اور شفاف ہو جائے تو ایسے کئی ایک جرائم
کا فوری خاتمہ ممکن ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارا نصاب تعلیم
حرف شناسی کے ساتھ ساتھ انسانیت سازی کے تقاضے بھی پورے کر رہا ہے کہ نہیں۔
اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو چند دو دنوں میں ان اندوہناک واقعات کی
سرخیاں بھی ٹی وی سکرین اور اخبار کے صفحات سے غائب ہو جائیں گی اور معاشرہ
اپنی پہلی سی ڈگر پہ چل کے مجرموں کو اسی طرح پروان چڑھاتارہے گا۔
دوسرا واقعہ راؤ اقبال کا قتل ہے۔ راؤ اقبال پیر محل ( کے گاؤں 670/11 گ ب
) کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت تھے۔ اﷲ تعالی نے انہیں چار بیٹے عطا کیے
جن میں سے ایک بیٹا اس سے قبل انتقال کرچکا تھا۔ زمینوں اور پٹرول پمپس کے
مالک تھے۔ نوے کی دہائی میں ممبر پنجاب اسمبلی بھی رہے اور ابھی ان کی عمر
اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق ان کے ایک بیٹے نے
اپنے والد اور بھائی کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بد قسمتی سے ان کا ایک بیٹا نشے
کی لت میں مبتلا ہو گیا۔ نشے کی عادت پوری کرنے کیلئے وہ جائداد میں سے
اپنا حصہ مانگتا تھا جبکہ اس کی بد عادات کی وجہ سے راؤ اقبال اپنی زندگی
میں دولت اس کے حوالے کرکے ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے انکار
کیا اور بعد ازاں اس کے بچوں یعنی اپنے پوتوں کے نام جائداد منتقل کرنے پر
تیار بھی ہو گئے لیکن بیٹا اس پر راضی نہ تھا۔ نتیجہ یہ کہ اس نے اپنے باپ
اور بھائی کو قتل کر دیا۔ گویااس قتل کے محرکات میں سے ایک دولت کے حصول کی
ہرممکن جائز و ناجائز خواہش ہے۔ اس سے ملتے جلتے کئی دردناک واقعات اس سے
قبل بھی پیش آچکے ہیں جو کے ہمارے معاشرے کیلئے بدنما داغ کی حیثیت رکھتے
ہیں۔ دولت کا حصول اور رزق حلال کی تلاش فرض عین کے درجے میں آتا ہے۔ لیکن
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ ہماری سب سے بڑی دولت ہماری
اولادیں ہے۔ تربیت اولاد والدین کا ایک بنیادی فریضہ ہے۔ کبھی کبھار ایسے
واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ نوح علیہ ا لسلام کے گھر کنعان اور امیر
معاویہؓ کے گھر یزید جیسے بیٹے پیدا ہوجائیں۔ لیکن عمومی طور پر قانون قدرت
یہی ہے کہ حسن تربیت سے انسانوں میں شائستگی اور وقار آتا ہے۔ وہ معاشرے کے
فعال رکن بن کر ملک و ملت کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں۔ آئندہ ایسے روح
فرسا واقعات کے سد باب کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ گہرائی میں جاکر اس بات
کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کون سی معاشرتی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے ایسے
ناسور جنم لیتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت اور سماج احساس ذمہ داری کے
ساتھ کس طرح کردار ادا کرکے آئندہ کیلئے معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
اگست کی چودہ تاریخ کو ہمارا ملک معرض وجود میں آیا ہے۔ اس کا نام ’’اسلامی
جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے ان کا خاصہ حصہ
تو ہے ہی اصلاح معاشرہ کے متعلق ۔ جملہ عبادات کا مقصود اک طرف رضائے الہی
کا حصول جب کہ دوسری طرف عمدہ معاشرہ کی تشکیل کی طرف ایک مثبت قدم بھی ہے۔
نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں غربت
اور افلاس کم ہوتی ہے جوکہ کئی سماجی برائیوں کا علاج ہے۔ اس سے مرجھائے
اور فرسٹریشن کا شکار چہروں پر مسکراہٹیں بکھرتی ہیں۔ روزہ کی حالت میں خود
عملی طور پر بھوک اور پیاس کا احساس کرکے غریبوں کی مدد کا جذبہ پروان
چڑھتا ہے۔ |