شکریہ، تھینک یو اور معاف کیجئے یا سوری کہنے کا اﷲ
اور اس کے رسول کا حکم ہے
یہ صرف مغربی آداب کا حصہ نہیں ہے۔
میرے خیال میں ہم نے اپنے نظریات غلط کر دئے ہیں ۔ مغربی ممالک کو جہاں سے
اچھی بات ملے، اپنا لیتے ہیں اور اور لائق آدمی مل جائے تو اپنی یہاں لے
جاتے ہیں حالانکہ یہ ہدایت ہمارے لئے تھی کہ الحکمہ متاع المومن فحبث و
جدھا فھو احق بھا ۔ علم و حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے اسے جس جگہ بھی پائے
وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ مگرہم مذہبی تعصب کی وجہ سے مغرب کی کوئی
اچھی چیز بھی اپنانا نہیں چاہتے، چاہے وہ معاشرتی لحاظ سے کتنی پسندیدہ ہو
اور خود بھی ریسرچ نہیں کرتے کہ اس بارے حکم کیا ہے۔ ہمیں آداب کی اہمیت کا
بھی احساس نہیں ہے جس سے زندگی خوشگوار بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
کہ مغرب کی اچھی چیزیں یہ سوچ کر اپنائیں کہ یہ آپ کی ہی چیزیں ہیں جو ترقی
یافتہ حالت میں واپس آرہی ہیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ اب اﷲ نے دی ہے۔ جو میں
آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اﷲ تعالی اور رسول کریم ﷺ کے فرمان دیکھیں؛
سورہ بقرہ؛ ۱۵۲۔میرا ذکر کرو میں تمہارا ذ کر کرونگا میرا شکر ادا کرو اور
کفران نعمت مت کرو،
سورہ ابراہیم۔آیت۷۔"اور جب تمہارے رب نے بتادیا کہ اگرمیری شکر گزاری کروگے
توتم کو زیادہ نعمتیں دونگا،اوراگرناشکری کروگے توبیشک میراعذاب بڑا سخت
ہے۔"سورہ انفال آیت ۵۳۔"یہ اس لئے کہ اﷲ نے ایک قوم کوجو نعمت دی ہے اس
کواسوقت تک بدلنے والا نہیں جب تک وہ نفس کی بات کو نہ بدل دیں،بیشک اﷲ
سننے اور جاننے والا ہے"
اﷲ تعالی سورہ لقمان،آیت ۱۴ ،میں فرماتے ہیں کہ میرا اور والدین کا شکریہ
ادا کرو اور میرے ہی پاس آؤگے
حدیث؛۔جو بندوں کا شکر یہ ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا بھی شکر نہیں کرتا ؛
کیونکہ بندے تو نظر آتے ہیں اﷲ نظر نہیں آتا۔ جب بندوں کو بار بات تھینک یو
کہے گا تو اﷲ کی نعمتوں پر بھی تھینک یو کہنے کی عادت پڑ جائے گی۔ بات عادت
کی ہوتی ہے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ عادت کی حدیث ۔کنز العمال
نمبر۔ 7349 ۔جب تم کسی پہاڑ کے بارے سنو کہ وہ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو اس
کی تصدیق کرو مگر جب یہ سنو کہ کسی شخص نے اپنی عادت چھوڑ دی ہے تواس کی
تصدیق نہ کرو ،اس واطے وہ وہی کرے گا جو اس کی عادت ہے۔مسند احمد۔عن ابو
الدردا ؓ
حدیث ؛دلوں کی خلقت ہی ایسے ہوئی ہے کہ اس میں بھلائی کرنے والے کے ساتھ
محبت ہو جاتی ہے۔اور برائی کرنے والے کے ساتھ دشمنی
حدیث ۔۔ دوسروں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو۔حضرت عبد اﷲ ابن عمر
رضی اﷲ عنہا روایت کرتے ہیں نبی محتشم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی آرزو ہو
کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے تو اس کی موت اس حالت میں
آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں
سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لئے چاہتا ہو‘‘۔( الطبرانی)حضرت انس بن مالک
ؓ روایت فرماتے ہیں۔ حضور نبی محتشم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات (والا تبار)
کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتایہاں
تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
(بخاری)ص۔"438۔ صرف اس ایک حدیث پر عمل ہی تمام اخلاق کی بنیاد بن سکتا ہے
۔تمام مذاہب اس اصول کو سنہرا اصول کہتے ہیں اور اس پر عمل کی تلقین کرتے
ہیں ۔
حدیث ؛۔بے شک اﷲ تعالیٰ نرمی اور خندہ روی کو پسند فرماتا ہے۔ (بہیقی)۔تم
لوگ اپنے اموال و وسائل کے ذریعے لوگوں کو وسعت و گنجائش نہیں دے سکتے،
البتہ تمہاری خندہ پیشانی اور تمہارے اچھے اخلاق ان کی گنجائش کا سبب بن
سکتے ہیں۔ (مستدرک بہیقی)
۵۲۔ان اﷲ رفیق و یحب الرفق۔ اﷲ تعالی لطیف و مہربان ہے لطف و مہربانی سے
محبت رکھتا ہے۔ حضرت عائشہ۔نرمی اور مہربانی کو اپنے اوپر لازم کر لو سختی
اور درشتی اور بے حیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ اس لئے کہ جس چیز میں رفق ہوتا
ہے وہ رفق کی زینت بنتا ہے۔ جس چیزسے رفق نکال لی جاتی ہے وہ عیب دار ہو
جاتی ہے۔
آپ وﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو نرمی اور سعادت سے محروم کر دیا گیا اسے نیکی
اور بھلائی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
دوسری حدیث۔ جس گھرانے میں اﷲ تعالی رفق یا نرمی کو پسند کرتا ہے اس کی
بدولت اسے فائیدہ پہنچاتا ہے بصورت دیگر اسے نقصان پہنچتا ہے -
ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں تھینک یو اور سوری نہ کہنے کی عادت
دراصل تکبر،غرور،انا پرستی، اکڑ،بڑائی،چودھراہٹ وغیرہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس
لئے کہ ہر آدمی دوسروں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ دوسرا ان کو پہلے سلام کرے
گا یا شکریہ ادا کرے گا یا معافی مانگے گا۔اور دوسرے یہ فرض یا حق کے طو ر
پر کر رہے ہونگے۔یعنی ان کا معاشرتی مقام یامرتبہ،مال و دولت،عزت، سرکاری
عہدہ ان کو یہ حق دیتا ہے اور وہ اس کی ڈیمانڈ کرنے میں حق بجانب ہیں اور
صحیح امید کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے سے کم تر لوگوں کو سلام نہ کریں یا
ان کا کوئی کام کرنے پر شکریہ ادا نہ کریں تو وہ درست عمل کر رہے کیونکہ
چھوٹے لوگوں کو یا دوسرے کو یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔چاہے وہ اسے پسند ہو یا
نہ ہو۔یہ سب کلاس سسٹم کی کی وجہ سے ہے۔
ہر فرعون یہی سوچتا ہے کہ کو کسی چھوٹے کو تھینک یو یا سوری کہنے سے اس کی
ہتک ہوتی ہے، اس سے اس میں چھوٹا پن آجاتا ہے جو اس کے برابر کے دوست
چوہدری پسند نہیں کریں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے۔ کہ وہ چھوٹے کا شکریہ
ادا کر کے اپنے آپ کو اپنے سٹیٹس سے گرا رہا تھا۔،
یہ صرف شکریہ کہنے یا معاف کیجئے کہنے تک ہی محدود نہیں۔اسلام و علیکم کہنے
میں بھی یہی اکڑ مانع ہوتی ہے۔یہ میں مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔
ہمارے سرکاری دفتروں میں یہی رواج ہے کہ چپڑاسی، لوئر سٹاف افسر کو سلام
کرے گا افسر ان کو نہیں۔جبکہ مغربی ممالک میں مساوات کی وجہ سے ایسا نہیں
ہوتا۔ 1976 میں امریکہ کورس کرنے گیا تو وہان تین شفٹیں تھیں۔ ہماری کلاس
کی شفٹ سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوتی تھی اور آفیسرز میس بند
ہوتا تھا اس لئے ہم کیفیٹیریا میں ناشتہ کرتے تھے۔اس وقت ایک کالا صفائی
والا بروم لے کر فرش صاف کر رہا ہوتا تھا۔ جو بھی آفیسر اندر داخل ہوتا تو
وہ ہمیشہ یہ کہتا مسٹر سمپسن گڈ مارننگ ہاؤ آر یو۔۔اور مسٹر سمپسن بھی جواب
دیتا ۔ یہ اس چیز کا ثبوت ہے کہ مغربی ممالک نے اسلام کے سارے اصول اپنا
لئے ہیں۔اور ہم نے چھوڑ دئے ہیں۔ کیا اب بھی سوچنے کا وقت نہیں آیا؟
عطاء الحق قاسمی نے ایک کالم میں لکھا تھاکہ یورپ میں ایک ماہ کے دوران
تھینک یو اور سوری کہتے کہتے جبڑے تھک گئے۔جب لاہور ائر پورٹ پر اترا اور
ایک آدمی کے پاؤں پر پاؤں رکھ کر سوری نہ کہا تو اس آدمی نے مڑ کر فورا
کہا۔․اندھے ہو۔دیکھ نہیں سکتے۔تو قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ بس مزہ آگیا۔کہ
اپنے ملک میں آگیا ہوں اور یہ ہے رہنے کا صحیح طریقہ۔
میں اپنی عادت کے مطابق گلی محلے میں سلام میں پہل کرتا ہوں۔اور کبھی کبھار
جان بوجھ کر نہیں کرتاتو آج تک کسی نے بھی پہلے سلام نہیں کہا۔
شکریہ ،تھینک یو اور سلام کہنے کی عادت کیسے ڈالی جائے
پہلامسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں میں عادات کو بچپن سے نہیں ڈالتے حالانکہ نبی
کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔ علم سیکھنے سے آتا ہے اور عادت ڈالنے سے ڈلتی ہے۔
عادات اور آداب بڑاہی وسیع مضمون ہے جو کہ ہر عمل ،سوچ پر محیط ہے۔ یعنی
مذہبی،روحانی، معاشرتی، اخلاقی، معیشت ، وقت کا استعمال، ،روز مرہ کے عمل
جیسے جاگنے،ذاتی ہائیجین، کھانے پینے کہڑے پہننے بات کرنے، ٹیلیفون استعمال
کرنے، سلام کرنے اس کا جواب دینے وغیرہ سے چھوٹے سے چھوٹے عمل کے لئے بھی
پہلے شعوری فیصلہ کر کے اور محنت کر کے عادت اپنانی پڑتی ہے جیسے کہ اوپر
دی گئی دو احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلا نماز کی بھی عادت ڈالنی پڑتی ہے
اسی لئے سات سال کی عمر سے بچے کو نماز پڑھتے ساتھ لگانے کا حکم ہے۔ بلکہ
چار پانچ سال سے شروع کریں تو تبھی جا کر عادت پڑتی ہے۔
ایک دفعہ غلط عادت بن جائے تو پھر اسے بدلنا بڑا مشکل کام بن جاتا ہے ۔اس
لئے یہ کام بچپن سے ہی ایک دو سال کی عمر سے سکھانا ضروری بن جاتا ہے جو کہ
والدین ،خصوصا ماں کو کرنا ہوتا ہے۔ اور بچے چونکہ جلدی بھول جاتے ہیں اس
لئے بار بار یاد دہانی کرانی پڑتی ہے۔ مغربی ممالک میں اس لئے چار سال کی
عمر میں بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تا کہ سب بچوں کو سٹیندرڈ عادات سکھائی
جائیں جس میں انسانی مساوات، سچ، صفائی، دوستی، شکریہ کہنا، سڑک کراس کرنے
وغیرہ کی عادات اور آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں ،پہلے
زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں ۔ یہی عادت پھر بڑے ہو کر نیشل
کریکٹر بناتے ہیں ۔ اس چیز کی عادت ڈالنے کے لئے گھر سے ہی شروع کرنا پڑے
گا۔ تاکہ ہر گھر میں والدین اور بچے اس عادت کو اپنائیں۔ اگر ہر گھر اس
عادت کو اپنا لے تو ہمارے معاشرے کے بہت سے دکھ کم ہو جائیں گے۔ناانصافیاں
کم ہو جائیں گی۔ زیادتیوں میں کمی آئے گی۔
دوسرا بڑا مسئلہ قومی تکبر کا ہے؛۔ تکبر کو ختم کرنا اس لئے ضروری ہے کہ
حدیث میں آتا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں
نہیں جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہمیں چاہئے کہ اس اکڑ کی عادت
کو ختم کریں تو تبھی ہم میں تھوڑیملائمت آئے گی ۔ تکبر ختم کرنے کے لئے
حدیث شریف میں آتا ہے کہ سلام میں پہل کرو تو تکبر ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح
ہر ایک کی چھوٹی مہربانی کی بات پر شکریہ کہنے کی عادت ڈالیں تو اکڑ، تکبر
میں کمی آئے گی-
ہمارا تیسرابڑا مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ جب تک ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ اس
کام میں کتنا ثواب ہے ہم کچھ نہی کرتے۔ اس لئے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں
کہ شکریہ یا سوری کہنا اور سلام کرنے کا مال صدقے کے برابر ثواب ہے اور
مالی صدقے کا ثواب سات سو گنا ملتا ہے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے سات سو
گنا اجرکا اصول. سورہ بقرہ ۔261۔جو اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کی
مثال ایک غلے یا مکئی کے دانے کی طرح ہے۔جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر
بال میں سو دانے ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ تعالی جس کو چاہتے ہیں بہت گنا اضافہ
کرتے ہیں۔اﷲ اپنے بندوں کی ضروریات کے لئے کافی ہے اور سب کچھ جانتا ہے-
جو مالی صدقہ نہیں دے سکتے ان کے لئے اخلاقی صدقہ دے کر اتنا ہی ثواب کما
نے کی سہولت میسر ہے۔
امام نووی ؒ کی منتخب کردہ چالیس ا حادیث میں سے حدیث نمبر ۲۵۔٭ حضرت ابوذر
غفاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ چند صحابہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ رسول اﷲ
امیر لوگ ہم سے ثواب میں سبقت لے گئے ہیں۔ وہ نماز پڑھتے ہیں اور ہم بھی
،وہ روزہ رکھتے ہیں اور ہم بھی، اور وہ صدقہ دیتے ہیں اپنی فالتو دولت سے
مگر وہ جو اپنی فالتو دولت سے پیسہ صدقہ کرتے ہیں اور ان کو اجر ملتا ہے تو
غریب پیسہ نہ خرچ کرنے سے پیچھے رہ جائیں گے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا اﷲ نے
تمہارے لئے ایک راستہ نہیں بتا دیا جس سے تم لوگ بھی صدقہ دے سکتے ہو۔ بے
شک ہر تسبیح ( سبھان اﷲ کہنا) میں صدقہ ہے۔ہر تکبیر میں صدقہ ہے۔ ہر تحمید
میں صدقہ ہے ہر تہلیل میں صدقہ ہے۔ نیکی کا کہنے میں صدقہ ہے۔ اچھے بول بھی
صدقہ ہے نیک کا م کہنا صدقہ ہے برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ بیوی سے ہمبستری
بھی صدقہ ہے تو صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یہ کیسے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ
یہی کام ناجائز طریقے سے کرے تو کیاگناہ نہیں ہوگا۔تو جائز طریقے سے کرنے
سے اجر ملتا ہے-
امام نووی ؒ کی چالیس احادیث میں سے حدیث نمبر۔26۔۔حضرت ابوذر ؓ ۔ رسول
کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر روز سورج نکلنے سے انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے۔ دو
انسانوں میں انصاف کرنا صدقہ ہے۔ کسی کو اونٹ پر بیٹھنے میں مدد کرنا صدقہ
ہے۔ یا اسکی چیزیں لادنا صدقہ ہے۔ اچھا بول بھی صدقہ ہے۔ نماز کی طرف ہر
قدم بھی صدقہ ہے۔ راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے.
بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سوال مکہ کے غریب
مہاجرین صحابہ نے پوچھا تھا جن کا خیال یہ تھا کہ صدقہ صرف روپے پیسے سے
دیا جا سکتا ہے جو ان کے پاس نہیں تھا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ
صحیح نہیں ہے بلکہ ہر نیکی اور مہربانی کا کام بھی صدقہ ہی گنا جاتاہے۔مسلم
کی ایک حدیث اس آئیڈیا اور اصول کی وضاحت کرتی ہے۔ کہ کسی کے ساتھ مسکرا کر
بات بھی صدقہ ہے۔ اندھے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر، ہڈی یا
گندگی اٹھا دینا بھی صدقہ ہے، بیوی بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔مختصرا یہ
کہ ہر مہربانی یاkindness کا کام جو دوسروں کی مدد کے جذبے کے تحت کیا جائے
صدقہ ہے۔ میں اسے اخلاقی صدقہ کہتا ہوں تو اس سے معلوم ہوا کہ عام اور غریب
مسلمانوں کے لئے صدقہ دینے کا طریقہ دراصل اخلاقی صدقہ ہی ہے۔ اس لئے ہم سب
کیذاتی سوشل ذمہ داری بنتی ہے کہ۔دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، احسان اور رحم
دلی کا اظہار کریں، ثواب بھی کمائیں آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی بہتر
بنائیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو بہتر معاشرہ بنانے کے لئے دوسروں کا
انتظار نہ کر یں۔ ہمیں آگے بڑھ کر خود یہ ذمہ داری اٹھانی لینی چاہئے۔ اس
لئے ہر مسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ یہ احساس کر لے کہ اس کے ہر عمل کا
دوسروں پر اثر پڑتا ہے ، اور اس لئے آج سے شکریہ ، سوری اور سلام کہنا شروع
کر دیں۔ ذرا دو بندوں کا موازنہ تو کریں ایک خوش اخلاق اور دوسرا بد تہذیب۔
تو آپ اس میں سے کون سا بننا چاہیں گے۔ ؟ چوائس آپ کی ہے ۔
اس مضمون کو وقت گزاری یا صرف انفارمیش کے لئے نہ پڑھیں۔ عمل کرنے کے لئے
پڑھیں بار بار سوچ کر،یاد رکھنے کے لئے پڑھین۔ اس کو save کریں ۔کاپی
بنائیں ۔ اور پورا مہینہ پریکٹس کریں۔ گھر والوں ، دوستوں سے شیئر کریں اور
اید دوسرے کے ساتھ پریکٹس کریں ۔ اﷲ تعالی آپ کو یہ عادات اپنانے میں
آسانیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
سوری کہنے پر علیحدہ مضمون آ رہا ہے کیونکہ سوری یا معاف کیجئے کہنا کسی کو
تکلیف دینے پر کہا جاتا ہے۔ جو حقوق العباد کا حصہ ہے ۔ |