کاش کہ وہ اپنے کردار کی خوبصورتی کیلئے بھی اتنا ہی فکر مند ہو

میک اپ اور کاسمیٹک سرجری سے انسان اپنی ظاہری خوبصورتی تو بنا لیتا ہے
کاش کہ وہ اپنے کردار کی خوبصورتی کیلئے بھی اتنا ہی فکر مند ہو

خوبصورت نظر آنا ہر مرد اور عورت کا حق ہے اور جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے انسان نے مختلف طریقے اپنا کر اپنے آ پکو خوبصورت اور جازب نظر بنانے کیلئے کبھی مختلف انداز کے لباس کا سہارا لیا کبھی اپنے آپکو بنا سنوار کر اور میک کا سہارا لیکر اپنی اس خواہش کی تکمیل کی۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ انسانوں کی ضرورت بن گئی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ ہم کہیں بھی جائیں کسی بھی تقریب میں جائیں خواہ وہ عید کا تہوار ہو، چائے کی پارٹی ہو، کسی قسم کا دوستوں کا یا رشتے داروں کا کوئی فنکشن ہو اور اگر شادی بیاہ کی رسم ہو تو کم از کم عورتوں کا تو میک اپ کے بغیر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب جبکہ جگہ جگہ بیوٹی پارلرز معرض وجود میں آچکے ہیں عورتوں کیلئے بننے سنورنے میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ ان بیوٹی پارلرز میں بیوٹی فیکیشن کی ماہر خواتین اور مرد جو بیوٹی فیکیشن میں مہارت حاصل کرکے باقاعدہ سرٹیفیکیٹس حاصل کرنے کے بعد اس میدان میں عورتوں اور مردوں کو بننے سنورنے میں اپنی مہارت کے ذریعے انکی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتی ہیں خاص طور پران بیوٹی پارلرز میں دولہا اور دلہن کیلئے بننے سنورنے کے مکمل انتظامات ہوتے ہیں جہاں پر مختلف قسم کی کریمیں اور غازے استعمال کرکے عورتوں کو مذید جازب نظر بنایا جاتا ہے۔ اسمیں بالوں کو لباس کی میچنگ کیساتھ رنگنا، پلکوں کو لمبا کرنا، آنکھوں کو چہرے کی مناسبت سے بڑا یا پھر انہیں لمبا کرنا، ہاتھوں اور بازؤوں کے بالوں کی تھریڈنگ، ناخنوں کو صاف کرنے کیلئے ان پر مختلف قسم کے مرکبات کا استعمال کرکے انہیں صاف کرنا اور ان پر نیل پالش کا استعمال کرکے انہیں گلابی یا پھر سرخ بنانا ، چہرے کا فیشل کرکے اسے گورا بنانا، گالوں پر سرخی پیدا کرنا، ہونٹوں پر لپ اسٹک کا استعمال کرکے انہیں خوبصورت بنانا اور چہرے پر داغ دھبے اور پھنسیوں کو مختلف قسم کی ادویات کا استعمال کرکے انہیں ختم کرنا اور میک اپ کے ذریعے انہیں چھپانا وغیرہ شامل ہیں۔

قدیم مصر اور یونان کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر عورتوں کو بننے سنورنے کا بہت شوق ہوتا تھا اور عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کیلئے مختلف قسم کے مرکبات سے تیار کردہ غازے وغیرہ اپنے چہرے کی خوبصورتی کیلئے استعمال کرتی تھیں۔ قدیم مصر میں قرون وسطیٰ کے تاریخی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگ گھریلو چیزوں کے بناؤ سنگھار اور انہیں خوبصورت بنانے کیلئے بھی ان پر مختلف قسم کی گلکاریاں اور رنگ و روغن کا کام بڑی مہارت سے کرتے تھے جیسا کہ مصر میں پائے جانے والے قدیم جار نما برتنوں سے ظاہر ہوتا ہے اور مصر میں یہ کام اسوقت اپنے عروج پر تھا اور اس قسم کے برتن کھانے پینے کے علاوہ سجاوٹ کیلئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ میک اپ یا کاسمیٹکس کا استعمال نہ صرف مصر میں تھا بلکہ پوری دنیا میں کیا جاتا تھا۔ کاسمیٹکس کا اصل تصور مصر سے ہی لیا گیا تھا کیونکہ مصر وہ واحد قدیم ملک تھا جہاں پر نعشوں کو حنوط کرنے کیلئے مختلف اقسام کے کیمیکل سے تیار کردہ کاسمیٹکس کو استعمال کرکے انہیں محفوظ کیا جاتا تھا اور وہ حنوط شدہ لعشیں آج بھی حیرت انگیز حد تک اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں جنہیں ممی کا نام دیا گیا تھا ۔قدیم مصر کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 2920-2770 قبل از مسیح میں مصر میں کاسمیٹیکس کا استعمال اپنے عروج پر تھا اور مصر میں یہ رواج تھا کہ وہ نعش کو حنوط کرنے کے بعد چہرے پر اور جسم کے دوسرے حصے پر کاسمیٹکس کا استعمال کرتے تھے تاکہ اسکی جلد،رنگت، بال،آنکھیں، ہونٹ، ناخن اور چہرے کے دوسرے خدوخال محفوظ رہیں اور خراب نہ ہوں۔ اسی طرح سن عیسوی کے آغاز میں تمام رومن شہنشاہوں کے ادوار میں کاسمیٹکس کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا جاتا تھا۔لیمپ کے دھوئیں سے حاصل شدہ کالونس سے کاجل بنا کر اسے آنکھوں کی پلکوں کو لمبا کرنے کیلئے اور ابروؤں کو گھنا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔اسی طرح کھریا مٹی کا استعمال بھی اسمیں مختلف قسم کے مرکبات کو ملا کر چہرے کو گورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔چہرے کی تازگی کو برقرار رکھنے اوراسے سرد موسم سے بچانے کیلئے کولڈ کریم جسمیں مختلف قسم کے تیل اور چکناہٹ والے دوسرے مرکبات استعمال کئے جاتے تھے تاکہ گرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے جلد جھلس نہ جائے اور اسی طرح سرد ہواوں کے تھپیڑوں اور ٹھنڈ سے چہرے کی جلد میں خشکی پیدا نہ ور اور نہ ہی چہرے کی جلد اور ہونٹ پھٹنے نہ پائیں۔

پانچوں صدی عیسوی میں رومن شہنشائیت کا خاتمہ ہوتے ہی کاسمیٹک کا استعمال بھی بہت حد تک ختم ہو کر رہ گیا۔جیسے ہی صلیبی جنگیں ختم ہوئیں اور مشرق وسطیٰ سے جنگجو واپس آئے وہ اپنے ساتھ وہاں سے کاسمیٹک اور خوشبویات کا سامان لیکر آئے اور اسطرح بڑے پیمانے پر اسکا استعمال ایک بار پھر شروع ہو گیا۔پندرھویں اور سولہویں صدی میں اٹلی جبکہ سترھویں صدی میں فرانس پوری دنیا میں کاسمیٹک تیار کرنے والے بڑے ممالک تھے اسکے ساتھ ہی اٹھارویں صدی میں پوری دنیا میں کاسمیٹک کا استعمال شروع ہو گیا اور انیسویں صدی میں کاسمیٹک کا استعمال اپنے پورے عروج پر آگیا اور پوری دینا میں کاسمیٹک کا استعمال نہ صرف امراء کے طبقے میں عام تھا بلکہ متوسط طبقے میں بھی اسکا استعمال روز مرہ زندگیوں میں عام ہوتا گیا۔ اسوقت پوری دنیا میں فرانس کاسمیٹک تیار کرنے میں اپنی مثال آپ تھا ۔ویسے اب تو پورے یورپ اور امریکہ کا تیار کردہ میک اپ کا سامان بھی پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہی ممالک اب انیسویں صدی میں کاسمیٹک کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔الزبتھ آرڈن جو کینیڈا میں پیدا ہوئی اور بعد میں1908 میں امریکہ میں مقیم ہو گئی میک اپ کے میدان میں اپنے دور کی انتہائی تجربہ کار عورت تھی جو میک اپ کے سامان کی تجارت کرتی تھے اس نے 1910 ء میں امریکہ میں ایک بہت بڑا بیوٹی سیلون کھولا اور بعد میں 1914 میں الزبتھ آرڈن کے نام سے پورے امریکہ میں اسکی شاخیں کھولیں۔ اسنے کاسمیٹک کے میدان میں نئی نئی تیکنیک متعارف کروائیں اور اسی طرح اپنے میک اپ کے سامان کی تشہیر کیلئے عورتوں کو استعمال کیا۔اس طرح اس نے نہ صرف شہرت کمائی بلکہ پیسہ بھی کمایا۔ امریکہ اور یورپ میں کاسمیٹک کے پیشے کو ایک انڈسٹری کی حیثیت حاصل ہے اور اس سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کاسمیٹک میں استعمال ہونے والے میک اپ کے لوازمات میں کافی حد تک ترقی ہوئی اور اسکی پیکنگ پر خاص توجہ دیکر اسے خوبصورت بنایا گیااور اسکی تشہیر کیلئے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرکے عام لوگوں کو اسکی طرف متوجہ کروایا گیا اور اب میک اپ کے استعمال پر پوری دنیا میں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں آگ لگانے والے بموں کا استعمال کیا گیا جس سے بہت سے لوگوں کے نہ صرف جسم جل گئے بلکہ انکے چہرے بھی مکمل طور پر جھلس گئے اور انکے چہرے کے خدو خال اور انکی شکلیں خطرناک حد تک بگڑ گئیں کان ، ناک ، آنکھ ،ہونٹ،ٹھوڑی اور گال مکمل طور پر جل کر ایک عجیب سی کیفیت اختیار کر گئیں اور اسطرح انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اسطرح کاسٹیمکس اور پلاسٹک سرجری کی ابتدا ہوئی اور بگڑے ہوئے چہرے اور دوسرے جسمانی اعضاء کی سرجری کی ابتدا بھی شروع ہوگئی گو کہ اسوقت پلاسٹک اور کاسمیٹکس سرجری میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی مگر پھر بھی اس سے کافی حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے اور اسطرح پلاسٹک اور کاسمیٹکس سرجری کی ضرورت اور افادیت نے نہ صرف حادثاتی طور پر بگڑے ہوئے چہروں اور جسم کے مختلف اعضاء کو ٹھیک کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا بلکہ لوگ اسے اپنی جسمانی خوبصورتی اور چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ کاسمیٹک سرجری کا اصل مقصد متاثرہ شخص کو ظاہری طور پر اسکے چہرے کے خدو خال کو درست کرکے معاشرے میں اسکا اصل مقام لوٹانا ہے تاکہ وہ بھی نارمل اور عام لوگوں کی طرح بغیر کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوئے اپنے روز مرہ کے معمولات با احسن سر انجام دیتے ہوئے نہ گھبرائے۔

اسطرح پوری دنیا میں پلاسٹک سرجری اورکاسمیٹیکس سرجری کی اہمیت بڑھ گئی اور لوگوں میں یہ رواج عام ہوگیا کہ وہ اپنے ناک ، کان ، گال، ٹھوڑی اور چہرے کے خدو خال کو خوبصورت بنانے کیلئے اور لٹکی ہوئی کھال اور چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں کی جھریوں کو پلاسٹک سرجری اور کاسمیٹک سرجری کی مدد سے ختم کروا سکتے ہیں ۔ اسکے علاوہ جہاں عورتوں میں اپنے چہرے کو خوبصورت بنانے اور کم عمر نظر آنے کا عام رواج ہے خاص طور پر جازب نظر بنانے کیلئے بھی اپنے جسم کے مختلف حصوں کی پلاسٹک اور کاسمیٹکس سرجری کا رواج عام ہو چکا ہے اور وہ اپنے کولہوں کی بڑھی ہوئی چربی کو ختم کروانا ، بد نما کولہوں کے ابھار اور کولہوں ،پنڈلیوں اور جسم کے دوسرے عضلات کو خوبصورت بنانے کیلئے ان میں پلاسٹک سرجری کے ذریعے نقلی عضلات لگوا کر اپنے بدنما جسم کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے اسی طرح اپنی کمر کو پتلی کرنے اور اسی طرح اپنی چھاتیوں کی خوبصورتی اور انہیں سڈول بنانے یا پھر انکی فٹنس اور پائیداری کیلئے پلاسٹک اور کاسمیٹکس سرجری کرواتی ہیں یا پھر وہ عورتیں جو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں اور آپریشن کے ذریعے انکی چھاتی کاٹ دی جاتی ہے ان عورتوں کا پیوند کاری کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے جس سے انکی چھاتی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں آجاتی ہے جس کیلئے پلاسٹک سرجری کو استعمال میں لاکر کٹی ہوئی چھاتی کی گرافٹنگ کرکے اسے اپنی اصلی حالت میں لایا جاتا ہے جسکے لئے انتہائی مہارت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی طرح ناک کو ستواں کروانے کے علاوہ چہرے کے دوسرے اعضا کیلئے بھی اس سرجری کا سہارا لیا جاتا ہے خاص طور پر وہ عورتیں اور مرد جو شوبز کی دنیا سے منسلک ہیں وہ اپنی خوبصورتی اور جازبیت کیلئے میک اپ کا سہارا لینے کے علاوہ پلاسٹک اور کاسمیٹک سرجری کے ذریعے بھی اپنے چہرے اور جسم کے خدو خال کو خوبصورت بنواتے ہیں چہرے کی لٹکی ہوئی جلد اور اس پر پڑی ہوئی جھریوں کو کاسمیتک سرجری کے ذریعے ختم کرکے چہرے کو خوبصورت بنایا جاتا ہے تاکہ وہ جوان نظر آئیں۔1950 ء سے کاسمیٹکس سرجری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سرجری کو خوبصورتی کی سرجری کا نام دیکر اسے گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔حالانکہ صرف چند ایک پلاسٹک سرجن ہیں جو محدود طور پر کاسمیٹک آپریشن کرتے ہیں۔ پلاسٹک سرجری میں پیوندکاری بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں اعضاء کو جوڑا جاتا ہے اسمیں کسی دوسرے شخص یا پھر متاثرہ شخص کے جسم سے ہی زندہ بافتے لیکر انکی پیوند کاری کر دی جاتی ہے۔ جس سے وہ بافتہ یا اعضاء خون کی سپلائی سے ذندہ رہتا ہے اور وہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ عام طور پر پلاسٹک سرجری میں جلد کی پیوند کاری کیلئے بہت سی تیکنیک استعمال میں لائی جاتی ہیں جنمیں ایک تو یہ ہے کہ جسم کے ملحقہ حصے سے بافتہ لیکر اسکی پیوند کاری کر دی جاتی ہے جس سے اس میں خون کی گردش شروع ہو جاتی ہے ۔ ایک دوسری تیکنیک جسے چہرے کے نقائص کو دور کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اسے ضخیم پیوند کاری کا نام دیا گیا ہے۔ جسمیں ضخیم جلد کو مکمل طور پر الگ کر لیا جاتا ہے اور نقص زدہ حصے پر اسکی پیوند کاری کر دی جاتی ہے ایک اور تیسرا طریقہ جواس سرجری میں استعمال کیا جاتا ہے وہ جلد کو گہرائی تک چیر پھاڑ کرکے پیوند کاری کا ہے جو عام طور پر شدید جلے ہوئے جسم کے حصے کی پیوند کاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں جلد کا ایک خاصہ حصہ گہرائی تک جل گیا ہو۔ اس طریقہ کار میں جلد کا عطیہ دینے والے سے جلد کے حصے کو اتنا گہرائی تک کاٹا جاتا ہے کہ اسکے ڈرمل سیل جو جلد کی نشو ونما میں کام دیتے ہیں وہ ضائع نہ ہوں اسطرح یہ جلد دوبارہ بھر جاتی ہے اور جس مریض کو یہ جلد دی جاتی ہے اسکی پیوند کاری کر دی جاتی ہے۔ کان یا ناک کی ہڈی کی پلاسٹک سرجری کیلئے کولہے کی ہڈی یا پھر پسلی کی ہڈی سے زندہ ریشے حاصل کئے جاتے ہیں اور انکی پیوند کاری کر دی جاتی ہے۔ پلاسٹک سرجری، کاسمیٹک سرجری اور میک اپ سے انسان اپنی ظاہری شکل و صورت میں تو جازبیت پیدا کر لیتا ہے مگر کاش اپنی ظاہری شکل و صورت کی بناوٹ کیساتھ ساتھ وہ اپنے کردار اور اخلاق میں بھی خوبصورتی پیدا کرنے کیلئے اتنا ہی حساس ہو جتنا کہ وہ اپنی ظاہری شکل و صورت کیلئے ہے کہ انسان کا کرادار اور اخلاق ہی سب سے بڑی خوبصورتی ہے جس سے اسکے ارد گرد رہنے والے اس سے متاثر ہوکر اپنے کردار اور اخلاص کو خوبصورت بناکر معاشرے کیلئے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 140843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.