نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

 نیند قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جو انسان کو دن بھر کی محنت مشقت اور تھکن سے پیدا ہونے والے اعصابی تناؤ سے چھٹکارہ دلاتی ہے ۔ معاشر ے میں رو ز مرہ رونما ہونے والے دلدوز مناظر یا پھر ایسے واقعات جو انسانی ذہن پر بہت زیادہ گہرے اثر ات چھوڑتے ہیں انسانی زندگی میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں جنکی وجہ سے نیند متاثر ہوتی ہے اور انسان بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دہشت گردی، بد امنی، بے سکونی، عدم تحفظ، عدم اطمینان، معاشی مسائل، گھریلو جھگڑے ،بے روزگاری، خاندانی چپقلش، فرقہ وارانہ فسادات، ڈاکہ زنی، عصمت دری، بد عنوانی، بلیک میلنگ، دھوکہ دہیِِِ، بے ایمانی، نا انصافی، حقوق کی پامالی اور مختلف قسم کے جرائم بڑھنے کی وجہ حساس لوگوں کیلئے سوہان روح بنتی جارہی ہے اور ایسے واقعات انکے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں جنکی شدت کو محسوس کرتے ہوئے بعض اوقات ایسے لوگ نیند جیسی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں یا پھر اگر وہ سو بھی جائیں تو نیند کی حالت میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور خوف کیوجہ سے انہیں نیند نہیں آتی اور وہ تمام فلم انکی آنکھوں کے سامنے چلنی شروع ہو جاتی ہے جس سے انکی نیند پوری نہیں ہوتی۔ اسکے علاوہ نیند نہ آنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے خاص طور پر ڈپریشن، خوف،خوشی، مایوسی ،ماحول اور ارد گرد کے حالات کا کافی حد تک تعلق ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ ہماری زندگیوں میں ٹی وی، اور کمپیوٹر نے جگہ لے لی ہے لوگ اپنے کمروں میں محدود ہوکر وہ گئے ہیں جس سے انکی بیرونی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں اور اسطرح اکثر لوگ کمپیوٹر اور ٹی وی پر رات گئے تک بیٹھے رہتے ہیں جس سے انکی نیند کا دورانیہ بہت کم ہو گیا ہے ۔ نیند نہ آنے کو کسی ایک کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا اسکی نفسیاتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور جسمانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جنکا تعلق انسانی دماغ سے ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو نیند کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور ا ن کے ذہن پر کسی قسم کا خوف سوار ہو یا پھر انہیں کسی کام میں ناکامی ہو گئی ہو مثلاً ملازمت کا نہ ملنایا پھر شادی کا چکر ہو تو وہ اس ناکامی اور خوف سے چھٹکارہ حاصل کرنے ذہنی سکون اور سونے کیلئے مختلف قسم کی نشہ آور اشیا ء مثلاً ہیروئن،شراب،افیون اور چرس وغیرہ اور مسکن ادویات کا سہارا لیتے ہیں اور نشے کے عادی ہو جاتے ہیں اور تمام عمر کیلئے اسکے شکار رہتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی نیند تقریباً 6-5 گھنٹے پر مشتمل ہوتی ہے اور اوسطاًنیند 7 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ جبکہ ایک نئے پیدا ہونے والے بچے کی نیند کا دورانیہ تقریباً 15-16 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب بچہ 2 سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسکی نیند کا دورانیہ 9-12 گھنٹے کا ہوجاتا ہے۔ جو حالات و واقعات کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا رہتاہے۔ ذیادہ عمر کے لوگ اکثر بچوں کیطرح دن میں بھی سوتے رہتے ہیں اور اسی طرح جب انسان بڑھاپے کی عمر میں پہنچتا ہے تو اسکی نیند میں رات کے وقت کافی حد تک کمی واقع ہو جاتی ہے اور اسطرح نیند کا دورانیہ کم ہو کر 4-3 گھنٹے یا پھر 5گھنٹے ر ہ جاتاہے۔ آگن اسرنیسکی اور نیتھا نیل کلیٹمین جو مشہور فزیالوجسٹ تھے اور نیند پر تحقیق کر رہے تھے انہوں نے 1953 ء میں نیند کے بارے میں انقلابی تحقیق کی اوروہ اس نتیجے پر پہنچے کہ نیند کا تعلق سونے کے دوران ہونے والی آنکھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔انکی تحقیق کے مطابق نیند کو چارمرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر ہم یہاں پر صرف چوتھے مرحلے کا ذکر کرینگے۔ تحقیق کے مطابق نیند کا چوتھا مرحلہ گہری نیند پر مشتمل ہوتا ہے اور اس مرحلے میں سونے والا اچھی طرح اپنی نیند کا دورانیہ پورا کر لیتا ہے ۔سونے کے دوران دماغ کے (EEG) Electroencephalogramٹیسٹ کے ذریعے دماغ میں پیدا ہونے والی برقی سرگرمیوں کاتجزیہ کیا جاتا ہے اور اسطرح برقی لہروں کے اتار چڑھاؤ سے سونے کے دوران دماغ میں رونما ہونے والی تحریک کا پتہ چلایا جاتا ہے کہ سونے کے دوران دماغ میں کس قسم کی تحریک ہو رہی ہوتی ہے۔ برقی لہروں سے پیدا ہونے والی تحریک گراف کی صورت میں ایک گرافک پیپر پر بن جاتی ہے جس سے ماہر دماغ ان بنے ہوئے گرافکس کے اتار چڑھاؤ سے دماغ میں پیدا ہونے والی سرگرمیوں کا پتہ چلاتے ہیں۔ اگر سونے والے کی نیند گہری نہ ہو تو اس کی جسمانی سرگرمی بڑھ جاتی ہے اور دماغ کیجانب دوران خون اور آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے سونے والا ایک اچھی اور گہری نیند نہیں سو سکتا۔ نیند کی کمی(insomnia) بعض اوقات نیند کا فقدان انسان میں جسمانی اور د ماغی بیماری کا باعث بنتا ہے۔ جس سے پٹھے، اعصابی نظام اور نظام انہضام متاثر ہوتا ہے اور اسطرح سستی ، کاہلی، اور بسا اوقات وہ بھولنے کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نیند کی کمی یا پھر اسکی محرومی سے خون میں بننے والے سفید ذرات میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور اسطرح ایسے لوگوں میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور ایسے لوگوں پر بیماریاں جلد اثر انداز ہوتی ہیں اور اکثر ایسے لوگوں کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور چھائیاں پڑ جاتی ہیں۔ انسانی دماغ کا وہ خاص حصہ جو نیند لانے میں معاون ہوتا ہے اس حصے میں ایک (Serotonin) نامی مادہ دماغ کے اس خاص حصے میں خون کے رقیق مادے میں پایا جاتا ہے جو انسان کی طبیعت ،جنسی میلان کی خواہش اور نیند وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ اگر یہ مادہ کسی وجہ سے بننا بند ہو جائے یا پھر اس میں کمی واقع ہو جائے تو اس سے بھی انسان کی نیند میں خلل پیدا ہو جا تاہے اور وہ بے خوابی اور تعطل کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس مادے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اسکے نعمل البدل کے طور پر مارکیٹ میں بہت سی مسکن ادویات دستیاب ہیں جو اس کمی کو پورا کرکے انسان کو نیند لانے میں معاون ہوتی ہیں ایسی صورت میں انسان ان ادویات کا عادی ہو جاتا ہے اور جب تک وہ ان ادویات کا استعمال نہ کرے اسے نیند نہیں آتی۔ بعض اوقات یہ مرض اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ مسکن ادویات لینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہوتی ہے ایسے مریضوں کا علاج دماغی جراحی کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔یہ علاج ہمارے یہاں فی الحال نہیں ہے۔اسکے علاوہ ،بے خوابی کی شکائت ،بسا اوقات بستر کا آرام دہ نہ ہونا، شور سے نیند کا اچاٹ ہوجانا، آنکھوں میں چبھتی ہوئی روشنی، جسم میں کسی بھی تکلیف سے بے کلی کی کیفیت کا ہونا، ذہن پر صبح جلد اٹھنے کادباؤ ، کسی بھی قسم کا خوف اور موسمی درجہ حرارت کا انسانی جسم کے مطابق موزوں نہ ہونا وغیرہ یہ وہ عوامل ہیں جو نیند کے افعال میں خلل ڈالتے ہیں۔ نیند نہ آنے کی صورت میں اپنے معالج سے مشورہ لینا بہت ضروری ہے جو آپکی بہتر مدد کرسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں self-medication سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ مذید کسی بھی الجھن یا پیچیدگی سے بچا جا سکے۔ اسکے علاوہ اگر کوئی نفسیاتی الجھن ہو تو کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ لینا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جو نفسیاتی تدابیر سے کام لیکرایسے مریض کیلئے ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے اسکے اسباب کا تلاش کیا جانا بہت ضروری ہے جب اسکے اسباب معلوم ہو جائیں تو ایسے لوگ اپنے روزمرہ کے معمول میں ذرا سی تبدیلی کرکے اور اپنے معالج کے مشورے پر عمل کرکے اسکو بہتر بنا سکتے ہیں اور اچھی نیند کا مزہ لے سکتے ہیں۔ غذائی ماہرین کیمطابق رات کا کھانا ہلکی کاربوہائیڈریٹ پر مشتمل غذاؤں کا ہونا چاہئے کیونکہ یہ دن بھر کی تھکن ختم کرکے اعصاب کو پر سکون کرتا ہے ۔ رات کا کھانا جلدی کھانا چاہئے تاکہ سونے کیوقت تک یہ ہضم ہو جائے اور پیٹ میں بھاری پن پیدا نہ کرے اسطرح معدے کے فعل میں خلل پیدا ہونے سے بھی بعض اوقات بے چینی کی کیفیت رہتی ہے اور اسطرح نیند نہیں آتی۔بہتر ہے کہ رات کا کھانا کاربوھائیڈریٹ والی خوراک پر مشتمل ہو کیونکہ یہ فوراً نیند دلاتا ہے ۔ اسی طرح سونے سے پہلے کافی یا چائے کا استعمال کرنے سے بھی نیند اڑ جاتی ہے کیونکہ اس سے خون کے بہاؤ میں تیزی آ جاتی ہے۔ سونے سے پہلے کسی بھی قسم کی ورزش کرنا نیند میں خلل کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ ورزش کرنے سے ایک تو دوران خون تیز ہوجاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی دماغ میں ایک مادہ بننا شروع ہوجاتا ہے جو نیند میں کمی کا باعث بنتا ہے ۔ اچھی نیند کیلئے بستر کا آرام دہ ہونا بہت ضروری ہے، سر کا تکیہ نہ تو بہت اونچا ہو اور نہ ہی بہت نیچا ہو جس سے نیند میں خلل پیدا ہو، سوتے وقت جسم پر موسم کیمطابق موزوں کپڑے ہونے چاہئیں، موسم کیمطابق سونے کی جگہ کے ٹمپریچر کا مناسب ہونا بھی بہت ضروری ہے ،سونے کی جگہ پر سکون ہو اور کسی قسم کا شور و غل نہ ہو، سونے سے پہلے اگر اپنے جسم کو ڈھیلا کرکے لمبے لمبے سانس لئے جائیں اور ذہن میں اچھے خیالات لانے کی کوشش کی جائے اور ذہن سے ایسے خیالات کو جھٹک دیا جائے جو ذہن میں تناؤ پیدا کرنے کا باعث بنیں تو ایک اچھی اور پر سکون نیند لانے میں یہ عوامل بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب تک معاشر ہ نا ہمواری اور مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہے اس میں بسنے والے لوگ ایسے گھمبیر مسائل میں گھرے رہینگے اور اسکے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کو ذہنی طور پر صحتمند رکھنے کیلئے انکے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ وہ ذہنی طور پر پرسکون رہیں اور ایک مکمل اور اچھی نیند سے لطف اندوذ ہو سکیں اور اپنے معاشرے کیلئے فعال کردار ادا کرکے اسکے لئے مفید ثابت ہو سکیں ورنہ ہمارا معاشرہ مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو کر زہنی طور پر اپاہج ہو جائیگا اور آنے والے وقت میں ایسے بیمار اور اپاہج لوگ ہمارے معاشرے کیلئے بوجھ ہونگے۔
 
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 140932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.