سوری یا معاف کیجئے کہنے کا اﷲ اور اس کے رسول کا حکم ہے

یہ صرف مغربی آداب کا حصہ نہیں ہے۔

جب بھی کسی انسان سے کسی دوسرے کو بلا ارادہ تکلیف پہنچ جائے یا اس کا کوئی چھوٹا موٹانقصان کر دے تو وہ یہ امید کرتا ہے کہ دوسرا اس کی غلطی کو معاف کر دے گا یا اس کاlenient view لے اور بڑا ایشو نہیں بنائے گا۔ جبکہ اس کے برعکس جس کو تکلیف پہنچتی ہے وہ یہ امید کرتا ہے تکلیف پہنچانے والا اپنی غلطی کو مان کر مناسب طریقے یا الفاظ میں افسوس کا اظہار کرے گا اور مالی نقصان کی تلافی کرے گا ۔اگر دونوں طرف سے یہ ہو جائے تو معاملہ امن سے رفع دفع ہو جاتا ہے ۔پولیس عدالت کچہری تک بات نہیں جاتی اور دلوں میں پھر دکھ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی غصہ آئے گا اور نہ ہی دل میں کینہ یا دشمنی رکھے گا بلکہ ایک دوسرے کی تعریف ہی کریں گے۔ ہمارے کلچر میں پہلے تو غلطی مانی ہی نہیں جاتی بلکہ غلطی کے باوجود دوسرے کو غلطی کا الزام لگایا جاتا ہے جس سے بہت لڑائی ،گالم گلوچ اور فساد پھیلتا ہے۔ حالانکہ اس پر اﷲ تعالی اور رسول کریم ﷺ کی واضح ہدایات ہیں کہ اﷲ کی غلطی کرو تو توبہ کرو، انسانوں کی غلطی کرو تو ان سے معافی مانگو۔ یہ آگے احادیث سے بتایا گیا ہے-

مغربی ممالک میں یہ رواج عام ہے اور ہر جگہ، چھوٹی سے چھوٹی بات پر سوری کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے رویوں کی عکاسی عطاء الحق قاسمی نے ایک کالم میں کی ہے ۔لکھتے ہیں یورپ ایک ماہ گزارنے کے دوران تھینک یو اور سوری کہتے کہتے جبڑے تھک گئے واپسی پر لاہور ائر پورٹ پر سامنے والے ایک آدمی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا اورمیں نے بھی سوری نہ کہا تو اس آدمی نے مڑ کر فورا کہا۔․اندھے ہو۔دیکھ نہیں سکتے۔تو قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ بس مزہ آگیا۔کہ اپنے ملک میں آگیا ہوں۔ مغربی ممالک سے ہم یہ ادب کی بات بھی سیکھنے کے لئے تیار نہیں ۔ مغربی ممالک کو جہاں سے جو اچھی بات ملے، اپنا لیتے ہیں اور اور لائق آدمی مل جائے تو اپنی یہاں لے جاتے ہیں حالانکہ یہ ہدایت ہمارے لئے تھی کہ الحکمہ متاع المومن فحبث و جدھا فھو احق بھا ۔ علم و حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے اسے جس جگہ بھی پائے وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ مگر میرے خیال میں ہم نے چونکہ اپنے نظریات غلط کر دئے ہیں اس لئے ہم مذہبی تعصب کی وجہ سے مغرب کی کوئی اچھی چیز بھی اپنانا نہیں چاہتے، چاہے وہ معاشرتی لحاظ سے کتنی پسندیدہ ہو۔ اور خود بھی ریسرچ نہیں کرتے کہ کیا ہمارے مذہب میں بھی اس بارے کوئی حکم ہے یا نہیں ۔ ہمیں اسلامی اور معاشرتی آداب کی اہمیت کا بھی احساس نہیں رہاہے حالانکہ ان سے زندگی خوشگوار بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مغرب کی اچھی چیزیں یہ سوچ کر اپنائیں کہ یہ آپ کی ہی چیزیں ہیں جو ترقی یافتہ حالت میں واپس آرہی ہیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ اب اﷲ نے دی ہے۔ جو میں آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے حقوق العباد کے اصول سمجھ لیں تو بات سمجھنی آسان ہو جائے گی۔تمام تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں ۔جب بھی یک طرفہ تعلق ہوگا تو اس میں ایک کمزور اور دوسرا طاقتور ہوتا ہے جو کمزور کا استحصال کرتا ہے۔حقوق اﷲ میں اﷲ اور بندے کا تعلق ہوتا ہے اس لئے جب بندہ غلطی کرتا ہے تو سوری کہنے یعنی توبہ سے اﷲ اسے اس لئے معاف کر دیتا ہے کیونکہ اﷲ کی حق تلفی ہوئی ہوتی ہے اور صرف وہی اس کے معاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مگر حقوق العباد میں دو بندوں کے آپس میں حقوق کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے ان کے درمیان فیصلے کے لئے اﷲ اس وقت جج ہوتا ہے اور ان کو اپنی طرف سے معاف نہیں کر سکتا جب تک جس کی حق تلفی ہوئی ہو وہ معاف نہ کردے ۔ کسی کے نماز ،روزے، حج یانفلی عبادات سے بھی دوسرے بندے کے حقوق خود بخودمعاف نہیں ہو جاتے کیونکہ اس کی عبادات سب اﷲ سے متعلق ہیں ۔ اور بندے کے حقوق کی ادائیگی نہیں ہو جاتی۔ وہ ہر صورت ادا کرنے ہونگے یا پھرسزا بھگتنی ہوگی۔ اﷲ تعالی چونکہ قادر مطلق ہے اس لئے اگر وہ کسی کو معاف بھی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ایسی صورت میں وہ اس شخص کی دوسروں کو دی گئی تکالیف پر متاثرہ پارٹی کو خود بھی اجر دے کرcompensate کر دے گا، مطلب یہ ہے کہ بندے کو تکلیف کا بدلہ ضرور مل جائے گا۔

اعمال آخرت میں تولے جائیں گے کیونکہ ہر عمل کیrelative weightage مختلف ہوتی ہے۔حقوق العباد کیweightage زیادہ ہوتی ہے جیسے کہ ایک طوائف کی زندگی کے تمام گناہوں کی نسبت اس کا پیاس سے ہلکان ہو جانے والے کتے کو کوشش کر کے پانی پلانے کے نیک عمل کا وزن اس کے گناہوں سے بڑھ گیا تھا اور وہ بخش دی گئی۔ یہ مثال سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ دوسری مخلوقات کے حقوق رکھنا اور حق تلفی کی سورت میں دنیا میں معاف کرا لینے کا خیال رکھنا کیوں اتنا اہم ہے اور ان کی ادائیگی کیوں اتنی ضروری ہے۔ یہ سب ہمارے فائدے کے لئے ہی ہے۔ اگر ہم بندوں کے حقوق کی پرواہ نہ کریں تو اﷲ تعالی اور اس کے رسول وﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف ہم اپنی دنیاوی زندگی بھی جہنم بنا لیں گے اور آخرت میں بھی کامیابی مشکل ہو جائے گی۔ ہم پاکستانی سب مل جل کر اپنے ملکی ماحول کو خراب کرنے میں مشغول ہیں ، ہمیں بڑی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے، اس بارے اﷲ تعالی اور رسول مقبول ﷺ کیا کہتے ہیں، سنئے۔

کسی کو تکلیف پہنچانا حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے؛۔ چاہے کتنی چھوٹی تکلیف ہو۔کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی چھوڑا نہیں جائے گا۔ ذرے کے برابر نیک یا برا عمل جو بھی کیا ہوگا تو بندہ دیکھ لے گا)اﷲ فرماتا ہے لقمان۔۶۔اعمال چاہے دانے کے برابر ہوں ، پتھر میں یا زمین میں یا آسمان میں چھپے ہوں اﷲ ان کو سامنے لے آئے گا۔اور قیامت کے دن اﷲ تعالی ان حقوق میں انصاف کرکے بدلہ دیگا۔
احادیث؛۔ "قیامت کے دن اﷲ تعالی فرمائیں گے کہ میں منصف ہوں ، قاضی ہوں۔ کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں نہیں جائے گا جب تک خود پر آنے والے حق کو ادا نہ کرے یہاں تک کہ ایک تھپرڑکا بدلہ بھی دینا ہو گا۔"

حقوق العباد میں لوگوں کی جان، مال،عزت دوسروں پر حرام ہے ؛۔اس کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے ان احادیث سے دیکھیں ؛

۔نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ مفلس کون ہے،؟ فرمایا کہ جس کے پاس درہم دینار یا سامان نہ ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس روزہ نماز سب کچھ ہوگا مگر کسی کو گالی دی ہوگی۔ تہمت لگائی ہوگی، مال کھایا ہوگا خون بہایا ہوگا، مارا ہوگا، چنانچہ اس کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کی نیکیاں اس سے پہلے ختم ہو جائیں کہ اس کا بدلہ پورا ہو تو اس کے گناہوں کو اس پر ڈال دیا جائے گا اور دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس کے ذمے کسی بھائی کا عزت آبرو، مال کا کوئی حق آتا ہو وہ اس سے اس دن کے آنے سے پہلے تلافی کرا لے جس دن نہ درہم دینار ہوگا نہ مال و دولت،اگر اس کے پاس نیک اعمال ہونگے تو ان میں سے اتنا لے لیا جائے گا جتنی اس نے زیادتی کی ہوگی۔ اھر اتنی نیکیاں نہ ہوئیں تو اتنی مقدار میں مظلوم کی برائیان اور گناہ اس پر ڈال دئے جائیں گے۔ترمذی(Reported by al-Bukhaari, 2296) ؛۔

لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ ایک عورت بہت نماز پڑھتی ہے روزے رکھتی ہے قرآن پڑھتی ہے مگر زبان دراز ہے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخی ہے۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ ایک دوسری عورت ہے جو فرض نماز روزہ کے علاوہ کچھ نہیں کرتی مگر زبان دراز نہیں پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی تو فرمایا کہ وہ جنت میں ہے۔

مالی حقوق؛۔ اسی طرح جس نے کسی کا مالی حق مارا ہو یا قرض ادا نہ کیا ہو تو آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ۔ قرض دار کی روح جنت میں نہیں جا سکتی معلق رہتی ہے جب تک قرض ادا نہ ہو۔ ایک دانگ یعنی تین پیسے کے عوض سات سو نمازیں بدلے میں دلائی جائیں گی۔؛اس سے اندازہ لگا کیں کہ پیسوں کے بارے کتنی احتیاط کی ضرورت ہے کہ کسی کا حق نہ مارا جائے۔

۔حدیث؛۔قیامت کے روز حق داروں کے حقوق ضرور ادا کرائے جایئں گے۔ یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ بکری کو بدلہ دلا یا جائے گا۔ ۔ حدیث ؛۔پورا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔

جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ؛،حدیث ؛۔جانور پر اسباب ذرا پیچھے ہٹا کر رکھو کیونکہ پاؤں بندھ جاتے ہیں جانور کے حقوق میں یہ ہے کہ جانور سے نرمی برتی جائے کیوں کہ سامان آگے کی طرف ہونے سے بیلنس نہیں رہتا۔

انسان غلطی کا پتلا ہے۔ یہ اس کی فطرت کے ڈیزائین میں ہے حدیث؛۔ ہر بنی آدم غلطیاں کرتا ہے۔ مگر ان میں سے بہترین وہ ہے جو پچھتائے اور توبہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم غلطیاں اور گناہ نہیں کرو تو اﷲتعالی تم کو دوسرے لوگوں سے تبدیل کر دے گا جو غلطیاں بھی کریں گے اور اﷲ سے معافیاں بھی مانگیں گے۔ اور اﷲ یقینا ان کو معاف بھی کر دے گا۔ (مسلم)

اس حدیث کا بیک گراؤند یہ ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم صرف نیک کام کریں اور ہم سے کوئی کوئی گناہ نہ ہو جس پر آپ ﷺ کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور تب آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا یعنی ہر انسان تو غلطی کا پتلا ہےto err is human
اسی لئے دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے کا حکم دیا گیاہے سبھی انسان ہیں، سبھی غلطیاں کرتے ہیں؛۔بعض لوگ بڑے عبادت گزار ہوتے ہیں مگر ان کے عمل یا بات سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے دوسروں کے دل پر چھری پھیر رہے ہوتے ہیں ذلیل کر رہے ہوتے ہین ۔ اس کے برعکس بعض لوگ بڑے خوش اخلاق ہوتے ہیں لوگوں کو ان سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر نماز کی طرف توجہ نہیں ہوتی، یعنی اعتدال نہیں اس لئے اﷲ سے توفیق مانگنی چاہئے کہ دونوں کے حقوق پورے کریں

کلام پاک؛۲۴۔۲۲ ۔ تمہیں چاہئے کہ معاف کر کے بھول جاؤ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اﷲ تمہیں معاف کر دے۔ اﷲ غفور رحیم ہے۔

کلام پاک؛۳۔۱۳۳۔ اور دوڑ اﷲ کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف جو کہ تیار کی گئی ہے مومنین کے لئے جو امیری اور غریبی دونوں میں خرچ کرتے ہیں، جو غصہ پر قابو پاتے ہیں اور معاف کرتے ہیں۔۷۔۱۹۹۔ معاف کرو، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے بچو۔ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ اﷲ کا حکم ہے کہ جو تکلیف دے اسے معاف کردو، ان کو دو جو تمہیں محروم رکھیں اور ان رشتوں تعلقات کو جوڑو جو قطع کریں ۔ مسند احمد۔ دوسروں پر رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا دوسروں کو معاف کرو تمہیں اﷲ معاف کر دے گا۔

غلطیاں کیوں ہوتی ہیں ۔؟ اﷲ تعالی کا بندوں کی اصلاح اورسکھانے کا ایک طریقہ ہے۔ ہر اچھا یا برا بندہ جو آپ کی لائف میں آپ کے راستے میں آتا ہے وہ اﷲ کی طرف سے صرف کچھ سکھانے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ ۔وہ یہ رول کر کے چلا جاتا ہے۔ یہ سب مستقبل میں کسی کام کے لئے آپ کو تیار کیا جارہا ہوتا ہے ۔ اس لئے جب کوئی تکلیف دے تو آپ کو معاف کرنا سکھا نے کے لئے آیا تھا جب آپ کسی کو تکلیف دیں گے تو اس سے آپ کو دوسروں سے معافی مانگنا سکھایا جائے گا۔۔ جو غلطیوں سے نہیں سیکھتا اس کے بارے نبی کریم کا ارشاد ہے کہ۔حدیث مبارک؛ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے دو دن ایک جیسے گزرے وہ خسارے میں ہے۔( زیلمی) یعنی وہ غلطیوں سے سیکھ کر ہر روز بہتر نہیں ہو رہا جو کہ اسے ہونا چاہئے۔
رسول کریم ﷺ کی حقوق ادا کرنے کی مثال؛۔ ہم رسول کریم ﷺ کے نام لیوا ہیں ۔ان کے اسوہ حسنہ کی نقل کرنے کا حکم اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طور پر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور پوچھا کہ کسی کا حق ان کے ذمے ہو تو بتائے تا کہ وہ ادا کر دیں ، یہی ہمیں کرنا چاہئے کہ پہلے تو روزانہ اپنا حساب سوری کہہ کہہ کر کلیئر کر لیں۔ پھر کبھی کبھار جن سے لین دین ہو ان سے نعاف کرا کیا کریں ۔

معافی مانگنے والے کے گناہ حذف ہو جاتے ہیں؛۔ حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ اس کا گناہ ہی نہیں تھا۔ بیہقی ( مگر حقوق العباد میں توبہ کی شرط یہ بھی ہے کہ حقوق معاف کروائے)
کوئی معافی مانگے تو معافی کو قبول کر لینا چاہئے اورمعاف کر دینا چاہئیہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ الہ تعالی نے ہی گناہ معاف فرما نے ہیں اور وہ رحمان اور رحیم ہے۔ جب بھی معافی مانگی جائے تو معاف کر دیتا ہے۔ اسی لئے بندوں کے لئے بھی اﷲ کا حکم بھی یہی ہے کہ کسی انسان کو تکلیف دو تو لوگوں کو معاف کر دو سورہ عمران۳، اایت ۱۳۳۔ اﷲ سے معافی مانگنے میں جلدی کرو اور لوگوں کو بھی معاف کردو۔ اﷲ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

۔ان ہدایات کی روشنی میں تکلیف پہنچانے پر معافی مانگ لینی چاہئے اور تکلیف پہنچانے والے کو معاف کر بھی دینا چاہئے۔

اگر کوئی معافی نہ بھی مانگے تب بھی معاف کر دینا چاہئے ۔ حدیث؛۔ تخلقو ابا اخلاق اﷲ ۔اﷲ تعالی کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر و۔ اور اﷲ کی سب سے اول صفت رحمان اور رحیم ہونا ہے تو پھر ہمیں بھی اﷲ کی مخلوق کے ساتھ رحمان بننا اسے پسند ہے۔

معاف کون کرتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں مگر معاف جلدی کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس بد ترین وہ لوگہیں جو غصہ جلدی ہوتے ہیں مگر معاف دیر سے کرتے ہیں.۔معاف وہ کرتے ہیں جن کا دل صاف اور نیک ہوتا ہے۔

معافی کون مانگ لیتا ہے ؛۔دنیا میں بہت کم انسان اتنے عالی ظرف ہوتے ہیں جو فورا غلطی تسلیم کر کے معافی مانگ لیتے ہیں اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ضرب المثل؛۔ سب سے پہلے معافی مانگنے والا بہادر ہوتا ہے، فورا معاف کر دینے والا طاقتور ترین بندہ ہوتا ہے۔ اور جو سب سے پہلے دل سے بھول بھی جائے وہ خوش ترین انسان ہوتا ہے۔ مغربی ممالک نے نیشنل لیول پر سور ی کہنے کی عادت اپنا کر یہ کام آسان کر لیا ہے۔ ہم کبھی غلطی نہیں مانتے۔ بلکہ تین سال کا بچہ بھی غلطی نہیں مانتا س لئے یہ ہماری فطرت بن گئی ہے۔

قطع تعلق منع ہے۔حدیث ؛،کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق جائز نہیں۔ کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک ایک طرف چلا جائے اور دوسرا دوسری طرف، ان میں سے بہتر وہ ہے جو ملنے میں پہل کرے،بخاری۔ یعنی تین دن کے اندر معاملات طے کر کے سوری کہہ کر تعلق بھال کر لینا چاہئے۔

جو معاف نہ کرے اس کے لئے وارننگ ؛۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی سے معافی مانگے اور وہ معاف نہ کرے تو اس کا گناہ اس کے برابر ہے جو کسی کی پراپرٹی پر نا انصافی سے قبضہ کرے ۔
معاف نہ کرنا ہمیشہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور اﷲ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ جس کے دل میں رائے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لوگ عموما سمجھتے ہیں کہ معاف کر دینا کمزوری کی علامت ہے اور بندے کو مضبوط اور طاقتور ہونا چاہئے مگر اﷲ کی نظر میں کون طاقتور ہے ۲۴۔۴۳۔ اگر وہ صبر اور معاف کردیں تو یہ بہت ہمت کا کام ہے اورمعاملات میں بہت پختہ ارادے والے کرتے ہیں
کسی کو تکلیف دینے کی غلطی ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے ۔

صرف زبانی اور ظاہرا سوری کہہ دنیا کافی نہیں اس میں خلوص ہونا چاہئے۔

۱۔ فورا معافی مانگ لیں ۔یہ عادتا ہونی چاہئے کہ میں سوری ہوں۔ معاف کیجئے مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اپنی غلطی ماننے میں جھجک نہیں ہونی چاہئے یہ دراصل انسان ہونے کی نشانی ہے کوئی بھی زیرو غلطی والا انسان نہیں ہے۔غلطیوں کی ذمہ دای قبول کرنا اچھے کریکٹر، دل کی مظبوطی کی نشانی ہے۔

معافی مانگنے کے․ تین حصے ؛۔فوری طور پر زبانی سوری یا معاف کیجئے کہنا ہوتا ہے جو خلوص سے ہو ، ۲۔ دوسرے نمبر پر پھر زبانی ہی مان لیں کہ یہ میری غلطی تھی۳۔ تیسرے نمبر پر پوچھیں کہ تلافی کے لئے میں کیا کر سکتا ہوں ۔لوگ تیسرا حصہ بھول جاتے ہیں۔ جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا مالی ازالہ ضروری ہے۔ شہید کے بھی تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں مگر قرض معاف نہیں ہوتا۔

۲۔ اگر آپ کی غلطی نہیں بھی ہے مگر دوسرے نے ایشو بنا لیا ہے تو آپ انا کی قربانی دین اور یک طرفہ معافی مانگ لیں اسی میں بڑائی ہے اور جھگڑا ختم کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔ کیونکہ دوسری حدیث ہے کہ جو جھگڑا ختم کرنے کے لئے اپنا حق چھوڑ دے اس کا گھر جنت کے وسط میں ہوگا،

۳۔۔ اس غلطی کو گھر جا کر سوچیں سب سے پہلے اﷲ سے معافی مانگنی چاہئے اور اس سے سبق سیکھ کر اپنے کو بہتر بنائیں۔ کیونکہ انسان ہمیشہ غلطیوں سے ہی سیکھ کر بہتر انسان بنتا ہے۔

۴۔ اگر ماضی میں کسی کی حق تلفی کی تھی اور اس مضمون کے پڑھنے کے بعد حقوق معاف کرانے کہ اہمیت کا احساس ہوا ہے تو اسے ڈھونڈ کر معافی مانگ لیں

۔ غلطیوں کی معافی مانگ لینے کا فائدہ اور طریقہ ؛۔سب سے فائیدہ یہ ہے کہ اس سے قیامت کے دن خواری سے بچ جائیں گے اور اﷲ تعالی تکلیف کے بدلے درجات بلند کرتا ہے۔حدیث؛۔جو تکلیف سہہ کر معاف کر دے تو اﷲ اس کے درجات بلند کرنے کے ساتھ اس کے ایک گناہ کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ترمذی۔ حدیث ؛دلوں کی خلقت ہی ایسے ہوئی ہے کہ اسے بھلائی کرنے والے کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے۔اور برائی کرنے والے کے ساتھ دشمنی۔ یعنی کسی کو معاف کردیں تو اس کے دل میں آپ کے لئے عزت اور محبت پیدا ہو جائے گی۔

ایک دوسرے کو معاف کرنے سے تعلق اور بھائی چارہ قائم رہنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر آپ نے کسی کو جان بوجھ کر یا بغیر ارادے کے غلطی سے کسی کو تکلیف پہنچائی ہے، مالی نقصان کیا ہے، شہرت کو نقصان پہنچایا ہے، بے عزتی کی ہے،غیبت کی ہے، تو اس سے معافی مانگ لیں تبھی قیامت کے دن بچ سکیں گے۔اگر ماضی میں کی ہے اور اب احساس ہوا ہے تو اسے ڈھوند کر معاف کرا لیں

عادت بنا لیں کہ دن کو سوری کہہ کر معاف کرا لیں ۔ہر رات سونے سے پہلے سب کو معاف کر دیں؛ اس کا کتنا فائیدہ ہے وہ اس ایک حدیث کے مفہوم سے کلئیر ہو جائے گا۔ ایک آدمی کو جاتے دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ جنتی آدمی ہے۔ جس کو یہ خطاب ملا وہ بالکل عام آدمی تھا تو لوگ حیران ہو گئے اور کھوج میں لگ گئے کہ پھر اس کی کون سی عادت یا عمل ہے جس سے یہ جنتی کہلایا ہے۔ جب لوگوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس میں کوئی خاص خوبی نہیں تھی سوائے ایک عمل کے کہ ہر رات وہ سب کو معاف کر کے سوتا تھا۔ معاف کرو اور بھول جاؤ کہنا تو آسان ہے کرنا مشکل۔مگر آپ اس طرح بھی سوچ لیں کہ تکلیف دینے والے اور غلطی نہ ماننے والے کو قیامت کے دن کو جواب دہ ہونا ہوگا تو آپ کے درجات بلند ہونے کا باعث بن جائیے گا تو یہ سودا برا نہیں۔پھر یک طرفہ معاف کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

غلطی نہ ماننے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے تعلقات خراب ہوتے ہیں خوشگوار نہیں رہتے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ تعلق معافی مانگنے اور معافی دینے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے ۔ اگر اس میں انا کا مسئلہ بنا لیں تو پھر مشکل بن جاتی ہے جو معافی مانگ لیتا ہے وہ دراصل اپنی انا کی بجائے تعلقات کو ترجیح دے رہا ہوتا ہے۔ قرآن میں حضرت یوسف کے بھائیوں نے باپ سے معافی مانگ لی تھی سورہ یوسف۱۲، آیت۹۷۔ انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب) سے کہا کہ اﷲ سے ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی مغفرت مانگ لیں ہم واقع بہت بڑے گناہ گار ہیں

دوسروں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو۔حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہا روایت کرتے ہیں نبی محتشم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی آرزو ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لئے چاہتا ہو‘‘۔( الطبرانی)حضرت انس بن مالک ؓ روایت فرماتے ہیں۔
حضور نبی محتشم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات (والا تبار) کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتایہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری)ص۔"438۔ صرف اس ایک حدیث پر عمل کر لیا جائے تو معاف کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے بلکہ یہ حدیث اخلاق کی بنیاد بن سکتی ہے۔

امید ہے کہ میں نے آپ کو دلائل سے قائل کر لیا ہے کہ روزانہ کے لین دین میں سوری کہہ کر چھوٹی موٹی تکلیف کے لئے فورا سوری یا معاف کیجئے کہنا دراصل اسلامی آداب کا حصہ بھی ہے اور اسلامی ضرورت بھی تا کہ ہر کسی کا حساب یہی ختم ہو جائے۔

سوری یا معاف کیجئے کہنے کی عادت کیسے ڈالی جائے

نبی کریم ﷺ کے دو فرمان ہے ۔ علم سیکھنے سے آتا ہے اور عادت ڈالنے سے ڈلتی ہے۔

کنز العمال نمبر7349۔جب تم کسی پہاڑ کے بارے سنو کہ وہ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو اس کی تصدیق کرو مگر جب یہ سنو کہ کسی شخص نے اپنی عادت چھوڑ دی ہے تواس کی تصدیق نہ کرو ،اس واسطے وہ وہی کرے گا جو اس کی عادت ہے۔مسند احمد۔عن ابو الدردا ؓ

پہلی حدیث کے مطابق عادت ڈالنے سے ڈلتی ہے مگر ہمارا قومی مسئلہ یہ بن گیاہے کہ ہم بچوں کو بچپن سے ہی آداب کی عادات کو نہیں ڈالتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ بڑے ہو کر خود ہی سیکھ لیں گے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی مروجہ عادات ہی سیکھتے ہیں اورجب ایک دفعہ غلط عادت بن جائے تو پھر اسے بدلنا بڑا مشکل کام بن جاتا ہے جیسے کہ حدیث نمبر دو سے ثابت ہوتا ہے۔اس لئے یہ کام بچپن سے ہی سکھانا ضروری بن جاتا ہے جو کہ والدین ،خصوصا ماں کو کرنا ہوتا ہے۔ اور بچے چونکہ جلدی بھول جاتے ہیں اس لئے بار بار یاد دہانی کرانی پڑتی ہے۔ اگر ہر گھر اس عادت کو اپنا لے تو ہمارے معاشرے کے بہت سے دکھ کم ہو جائیں گے۔ناانصافیاں کم ہو جائیں گی۔ زیادتیوں میں کمی آئے گی۔

مغربی ممالک میں چار سال کی عمر میں اس لئے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تا کہ سب بچوں کو سٹیندرڈ عادات سکھائی جائیں جس میں انسانی مساوات، سچ، صفائی، دوستی، شکریہ کہنا، سڑک کراس کرنے وغیرہ کی عادات اور آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں ،پہلے زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں ۔ یہی عادت پھر بڑے ہو کر نیشل کریکٹر بناتے ہیں ۔

بچوں کو ہر عادت کے اصول بھی سکھانے چاہئیں کہ یہ کیوں کیا جارہا ہے ۔ ہر چیز کسی وجہ سے کی جانی چاہئے اس کا انہیں پتہ ہونا چاہئے صرف تب وہ اے اپنانے میں قائل ہونگے۔ صرف حکم کی تعمیل کروانا نہیں چاہئے۔ یہ صحیھ طرقہ نہیں ہے۔

آرمد فورسز میں بھی نئے کیڈٹس کے ساتھ ایسا ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہر سینرکیڈٹ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جونئر کی فوجی اخلاقیات کی تربیت کرے اور جہاں سے اخلاقی قانون کی خلاف رزی کرتے دیکھے تو فورا چیک بھی کرے اور مناسب سمجھے تو سزا بھی دے کر عادت ڈلوائے۔اسی لئے فورسز میں ڈسپلن بھی ہوتا ہے اور ایک ہی جیسا طریقہ کار،اخلاق،رویہ۔ یعنی آپ فورسز میں ایک خاص حالت میں ایکpredictableb ehaviourدیکھیں گے۔ اسلام میں بھی نقل کے لئے مسلمانوں کے لئے اﷲ تعالی نے تو اسوہ رسول ﷺکو ہی سٹینڈرد مقرر فرمایا ہے جس پر عمل کرنے سے ایک ہی جیسا سٹینڈرڈ اخلاق اورpredictable behaviour pattern muslimپیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ گوروں نے اسلام پر عمل کر کے دنیا میں ترقی کر لی ہے اور ہم اپنی عقل یا باپ داد کی رسوم کو اپنانے اور استعمال کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔اور یوں پھر دور جاہلیت کو پسند کر لیا اور دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے۔ اور حقوق العباد اور معاملات کی خرابی سے دنیا کو بھی خراب کر لیا ہے

اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی بن گیاہے کہ ہمارے یہاں عقیدت اور تعظیم کے سلسلے میں بھی کلاس سسٹم بن گیا ہے اور ہر اسلامی اصول صحیح پریکٹس نہیں ہو رہا۔جبکہ سنت طریقے میں کہیں بھی کلاس سسٹم نظر نہیں آتا اگر صحابہ کرام ؓ رسول کریم ﷺ کی ت ایک حد سے زیادہ تعظیم کی کوشش بھی کرتے تھے توحضور اکرم ﷺ منع فرما دیتے تھے کہ میں نمایاں نہیں ہونا چاہتا۔ چونکہ گھروں ، خاندانوں میں بھی بزرگ اور دفتروں میں افسران یہ پریکٹس نہیں کرتے ورنہ چھوٹے خود ہی سیکھ جاتے

ایک اوربڑا مسئلہ ہمارا عمومی کلاس سسٹم اور قومی تکبر کا ہے؛۔ تکبر کو ختم کرنا اس لئے ضروری ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ سب سے پہلے ہمیں چاہئے کہ اس اکڑ کی عادت کو ختم کریں تو تبھی ہم میں تھوڑی ملائمت آئے گی ۔ تکبر ختم کرنے کے لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ سلام میں پہل کرو تو تکبر ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح ہر ایک کی چھوٹی مہربانی کی بات پر شکریہ اور غلطی پر سوری کہنے کی عادت ڈالیں تو اکڑ، تکبر میں کمی آئے گی
بد قسمتی سیسکولوں اور مدارس میں بھی آداب کا مضمون اور تربیت غائب ہے۔ گھروں میں بھی احساس نہیں رہا۔ اس لئے آداب کی محرومی نے ہماری شخصیت ہی نہیں قومی پہچان بھی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسے حالات میں وقت آگیا ہے اور ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنی اسلامی تہذیبی بربادی کے تدارک کیلئے اورپاکستان کو بہتر معاشرہ بنانے کے لئے دوسروں کا انتظار نہ کر یں ۔اس لئے ہم سب کیذاتی سوشل ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اپنی جگہ ممکنہ تدبیر یں اور طریقے سوچیں اور آداب کو اپنے فکرو عمل میں خصوصی مقام دے کر پریکٹس کریں۔ اس لئے ہر پاکستانی کا یہ فرض بنتا ہے کہ یہ احساس کر لے کہ اس کے ہر عمل کا دوسروں دیکھنے والوں پر بھی اثر پڑتا ہے اوروہ آپ کو دیکھ کر سوری کہنا شروع کردیں گے ۔ یہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ بھی بن جائیگا اور رسم بھی ، اور اس لئے آج سے سوری کہنا، اور سلام کرنا شروع کر دیں ۔

نیت یا ارادہ کرنے کی اہمیت؛۔ انما الاعمال بالنیات ۔ اس کے دو معنی ہیں کہ اعمال کا اجر نیت پر ہے۔ یعنی اﷲ کی خوشنودی کے لئے آپ سوری کہنا شروع کریں گے تو تبھی ثواب ملے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت یا ارادہ کرنے پر ہے۔ جب تک ااپ پکا ارادہ نہیں باندھیں کہ میں میں نے سوری کہنے کی عادت اپنانی ہے تب تک یہ عادت نہیں بن سکتی۔ اس لئے یہ نیت کریں کہ میں آج سے صرف اﷲ کو خوش کرنے کے پکا ارادہ کر رہا ہوں کہ میں آئیندہ ہر چھوٹی موٹی تکلیف دینے پر سوری کہا کرونگا ۔ اور جب تک عادت نہیں بن جاتی تب تک روزانہ یاد دہانی کے لئے یہ نیت اور ارادہ کرتا رہونگا۔

اب آپ ذرا خود دو بندوں کا موازنہ تو کریں، ایک خوش اخلاق مسلمان اور پاکستانی اور دوسرا بد تہذیب۔ تو آپ ان میں سے کون سا بننا چاہیں گے۔ ؟ چوائس آپ کی ہے ۔

اگر خوش اخلاق بننا ہے تو پھر اس مضمون کو وقت گزاری یا صرف انفارمیش کے لئے نہ پڑھیں۔ صرف جان لینے سے عمل شروع نہیں ہوتا۔ عمل کرنے کے لئے پڑھیں بار بار سوچ کر،یاد رکھنے کے لئے پڑھیں۔ اس کو save کریں ۔کاپی بنائیں ۔ اور پھر عمل کے لئے اﷲ تعالی کے حکم پر عمل کی نیت اور ارادہ کریں کہ ۔ اور پورا مہینہ پریکٹس کریں۔ گھر والوں ، دوستوں سے شیئر کرونگا اور اسے دوسروں کے ساتھ پریکٹس کریں ۔ اﷲ تعالی آپ کو یہ عادات اپنانے میں آسانیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
 
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 39361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.