میرے حضورﷺ کا بچوں سے پیار

بچے کبھی کافر اور ظالم نہیں ہوتے، صرف معصوم اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ کسی کافر اور ظالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی سن شعور تک پہنچنے سے پہلے پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے۔

رحمۃ لّلعالمین ﷺنے فرمایا: ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اصلی فطرت تو وہی ہے جس پر اﷲ انسانوں کو پیدا فرماتا ہے (بخاری شریف، باب الجنائز)

دوران جنگ میدان کارزار میں لڑنے والوں کی ذہنی و قلبی اور مزاجی کیفیت نارمل نہیں ہوتی، جیسا کہ امن و امان کے پرسکون ماحول میں انسانی مزاج سرد اور معتدل ہوتا ہے۔ لیکن حالت جنگ میں بھی رحمۃ لّلعالمین ﷺ کا حکم ہے کہ بچوں، بزرگوں، خواتین، کم زوروں، بیماروں، امن کے خواہاں اور عبادت گاہوں کے اندر موجود لوگوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ پھل دار درختوں، فصلوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچانا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسانی نقطہ نظر سے بھی جنگی جرم ہے۔ کیا کسی صحیح کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک غلط راستہ اور طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟ قطعاً نہیں، بلکہ قرآن حکیم کے مطابق سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ:کسی قوم کی دشمنی اور عداوت تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو بلکہ عدل کو لازم پکڑو۔ یہی تقویٰ اور خوف خدا کے قریب تر ہے۔حدیث نبویﷺ کے مطابق خوف خدا حکمت کی جڑ ہے۔خوف خدا رکھنے کا دعویٰ کرکے حکمت سے عاری افعال و اعمال پروان چڑھا کر معاشرے میں فساد اور انارکی پیدا کرنا دراصل تقویٰ نہیں، بلکہ تقویٰ کی حد درجہ پامالی ہے۔ جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

بچے سب کے سانجھے، یک ساں شفقت و پیار کے مستحق اور قومی و ملی اثاثہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی و تربیتی مقاصد کے لیے بھی بچوں پر تشدد کرنا قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ کے منافی ہے۔ چہ جائیکہ حصول علم میں مصروف بچوں کو شہید کرکے اس ظالمانہ و بزدلانہ فعل کی تائید میں قرآن و سنت سے استدلال اور جواز کی مذموم اور ناپاک جسارت کی جائے۔ البتہ اسلام سے صدیوں پہلے فرعونی لشکروں نے ضرور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلایا تھا تاکہ فرعونیت کو چیلنج کرنے کے لیے موسیٰ ؑ سر نہ اٹھا سکے۔ لیکن مشیت ایزدی اور قانون فطرت سے ٹکرانے والے خود تو غرقاب نیل ہوسکتے ہیں مگر موسیٰ ؑ جیسے معصوم کو سرکش موجوں پر بھی تیرنے سے نہیں روک سکتے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جس نبی اکرم رحمۃ لّلعالمین ﷺکی شفقت و رحمت تمام مخلوقات اور جہانوں کے لیے عام ہو اس کے سایہ رحمت سے معصوم بچے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔

برّاق جیسی اعلیٰ ترین سواری پر عرش بریں تک سوار ہونے والے رحمۃ لّلعالمین ﷺ بچوں کے لیے خود سواری بنے۔ یہاں تک کہ حالت نماز میں جب آپﷺ دنیائے رنگ و بُو سے بے نیاز اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے تو اس وقت بھی پشت مبارک پر بچوں کی موجودگی محسوس فرما کر اپنے سجدے کو طویل فرما دیتے تھے۔

نبی اکرم ﷺ کا عمر بھر یہ معمول رہا کہ مردوں اور خواتین سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ عہد بھی لیا کرتے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔ قرآن حکیم نے بھی اس حلف برداری کو ماؤں کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا ہے۔
اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی (سورۃ الممتحنہ)
رحمۃ لّلعالمین ﷺ نے فرمایا:خبردار! بچے کسی کے بھی ہوں، انہیں قتل مت کرو
(بحوالہ: سیرت نبویﷺ کے منہاج)
 
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542099 views i am scholar.serve the humainbeing... View More