وزیر اعظم جناب میاں نوازشریف صاحب نے ایک دو دن قبل
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ اردو کی طرف جو قدم اٹھا یا ہے،اس کی
تحسین کی جانی چاہیئے، بیوروکریسی اور اسٹبلیشمنٹ کے ذمہ داروں کی اب اس
میں کوئی کوتاہی مناسب نہیں ہوگی،کیونکہ یہ پوری قوم کا دیرینہ مطالبہ
ہے،خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے:’’وزیر اعظم نواز شریف نے تمام وزارتوں کو
ریکارڈ انگلش سے اردو میں تبدیل کرنےکے لئے بیس دن کا وقت دے دیا ہے،وزارت
اورسیز پاکستانیز وسمندر پار نے اپنے تمام ذیلی اداروں کو روزمرہ کے عام
کام چھوڑ کر ریکارڈ کو انگلش سے اردو میں تبدیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے
کہاہے کہ جلد ازجلد تمام ریکارڈ فوری طور پر اردو میں تبدیل کرکے پندرہ دن
میں رپورٹ وزارت کو دی جائے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے تمام وزارتوں کو
اپنے حکم میں کہاہے کہ اردو زبان کو نافذ کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی
کوتاہی یا سستی برداشت نہیں کی جائی گی‘‘۔
اسی طرح کی ایک اچھی خبر کچھ ماہ پہلے بھی نشر ہوئی تھی،جو وزارت مذہبی
امور اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے درمیان عربی زبان کے فروغ کے
حوالے سے تھی،عربی ہو یا اردو یہ دونوں ہم پاکستانیوں کے لئے اس لئے اہم
ہیں ،کہ ایک ہماری مذہبی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ہر فورم میں
منظور شدہ ہے، اوردوسری ہماری قومی زبان ہے ،کلمات اور جملوں کی ترکیب میں
یہ دونوںمتشابہ بھی ہیں ،اصطلاحات بھی بیشتر طورپر ایک جیسی ہیں، دونوں
دائیں سے بائیں کی طرف لکھی جاتی ہیں، حقیقت یہ کہ ان دونوں میں باہمی
تلازم کا مضبوط رشتہ ہے،صدر ممنون حسین صاحب کے حکم پر چونکہ یہ خوش گوار
اقدام کیا گیا تھا اس لئے وہ بذات خود اور موجودہ حکومت اس پر مبارکباد کے
مستحق ہیں، اس دوسری خبر کی تفصیل بھی ملاحظہ ہو:’’ بین الاقوامی اسلامی
یونیورسٹی کے شعبہ عربی نے وزارت مذہبی امور کے اشتراک سے پاکستان میں عربی
زبان کے فروغ کے واسطےاساتذہ کیلئے تربیتی پروگرام کا اجراکردیا، عربی زبان
کے فروغ کا یہ پروگرام صدر مملکت ممنون حسین کی تجویز پر شروع کیا گیاہے۔
اس اقدام کیلئے صدراسلامی یونیورسٹی ڈاکٹراحمد یوسف الدراویش اور وزیر
مذہبی امور سردار محمد یوسف نے ایک جامع پروگرام تشکیل دیا ہے،جس میں
یونیورسٹیز، کالجز، دینی مدارس اور سکولوں کے عربی اساتذہ کو عربی زبان کے
فروغ کیلئے تربیت دی جائیگی۔ اس کورس کے دوسرے ہفتے کے تربیتی سیشن کے
ریسورس پرسنز سعودی عرب کے ادارے \" عربی سب کے لئے \ العربیۃ للجمیع"سے
ہوں گے۔ کورس کی افتتاحی تقریب میں وزیر مذہبی امور کے مشیر سجاد قمر، نائب
صدر اعلی تعلیم و تحقیق اسلامی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر منصوری،
ڈین فیکلٹی آف عربی ڈاکٹر محمد بشیر،فیکلٹی ممبران اور کورس کے شرکاء بھی
موجود تھے .ڈاکٹر طاہر منصوری نے اپنے کلمات میں اس اقدام کو سراہتے ہوئے
کہا کہ یونیورسٹی پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ عربی زبان سیکھے اور یہ
اقدام عربی زبان کے فروغ میں نہایت معاون ثابت ہو گا۔ سجاد قمرنے اظہار
خیال کرتے ہوئے زور دیا کہ حکومت پاکستان عربی زبان کے معیار کو بہتر بنانے
اور کلاس اول سے میٹرک تک عربی کا لازم مضمون کے طور پر منصوبہ بندی کر رہی
ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے تجربہ کار اساتذہ کی مدد کو اس منصوبے کی تکمیل
میں اہم سنگ میل قرار دیا۔ ڈاکٹر محمد بشیر نے اس ضمن میں اپنے مکمل تعاون
کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالتواب، ڈاکٹر معید فادل، ڈاکٹر ظہیر
احمد نے بھی شرکا سے خطاب کیا‘‘۔اللہ کرے مذکورہ موقر ادارے اس منصوبے کو
فوری بنیادوں پربروئےکار بھی لائیں۔
یہاں اصطلاحات کے تذکرے سے یاد آیا، گذشتہ مہینے وزیر اعظم نواز شریف صاحب
کا ایک اور حکمنامہ بھی جاری ہواتھا،جس میں انہوں نے میڈیا اور سرکاری اہل
کاروں کو کہاتھا کہ وہ اسلامی اصطلاحات جب بھی اردو میں استعمال کریں تو اس
کا اردو یا انگلش ترجمہ نہیں اصل عربی لفظ بولا اور لکھا کریں،یہ حکم اُن
کا اللہ،رسول،توحید، شرک،ایمان، اسلام، قرآن،حدیث،فقہ،نور،بشر،حکمت،
علم،فن، ادب،صوم ، صلاۃ،رکوع، سجدہ، رمضان،مسجد،عید،کفر، فسق،
نفاق،ارتداد،جہاد،زکاۃ،جنازہ، وغیرہ جیسے الفاظ و اصطلاحات کے متعلق تھا،جو
ادبی اور علمی حلقوں میں بنظرِ استحسان دیکھا گیا۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بڑے بڑے محقق قسم کے لوگ بھی عربی الفاظ کے استعمال
میں غلطی کر جاتے ہیں،مثلاً: لفظ (اللہ) کا ترجمہ خدا سے کر دیتے ہیں،اس
میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہی خدا ہے،اور خدا کہلانے کا مستحق صرف اللہ ہی
ہے، لیکن اللہ کا ترجمہ خدا اور خداکاترجمہ اللہ نہیں ہے، اللہ ایک ذات ِ
واجب الوجودکانام ہے ،جو اسمِ عَلم ہے،یعنی ایک ہی فرد کا نام ہے،جبکہ
(خدا) الٰہ اور معبود کے معنی میں ہے،جس کو انگریزی میں (گاڈ )اور ہندی میں
(بھگوان)کہتے ہیں،اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ لفظِ(محمد) ایک شخص کا نام
ہے،اس کا ترجمہ انسان سے نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ منطق کی اصطلاح میں انسان
ایک نوع ہے، جس کے متعدد افراد کا خارج میں وجود ممکن ہے،جبکہ محمد رسول
اللہﷺ ایک ہی فرد (فصل)ہے،متعدد نہیں،ترجمہ چونکہ ایک مستقل فن ہے، جس کے
اپنے اصول و قواعد ہیں،لہذا ترجمے کی دنیا میں انسان کا لفظ جہاں آجائے
وہاںمحمدﷺ سے ترجمہ نہیں کیا جائےگا، اب آپ کلمۂ توحید کو لے لیں،
لااِلٰہ اِلا اللہ کا ترجمہ یہ ہے، اللہ کے سِوا کوئی خدا نہیں ہے،اگر لفظِ
اللہ کاترجمہ خدا سے کرینگے، تو یوں ہوگا، خدا کے سِوا کوئی خدا نہیں
ہے،مرادی معنی نہیں ، ترجمے کے اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے،اس میں بھی
کوئی شک نہیں ہے کہ حقیقی معبود اور خدا تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں، مگر اس سے
بھی انکار نہیں ہے کہ دنیا میں معبودانِ باطلہ بھی ہیں، لیکن اللہ ہونے کا
دعویٰ کسی نے نہیں کیا،یہان تک کہ فرعون نے بھی خدا اورب (پالنے والا)ہونے
کا اعلان کیاتھا،بہر کیف یہ بحثیں مشکل بھی ہیں، اخبارات کا موضوع بھی نہیں
ہیں، یہ خالص علمی اور تحقیقی و تدقیقی ابحاث ہیں،وزیر اعظم نے اچھا کیا اس
طرف توجہ کی،کہ یہ انتہائی ضروری تھا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فہم
وفراست نصیب فرمائے،تاکہ ہم اپنا اور اپنے ملک وملت کاقبلہ اعتدال ،تحمل
اور وسعتِ ظرفی کے ساتھ درست کر سکیں۔ |