تاتارستان سونے کی چڑیا
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
چنگیز خان کے مظالم تو آپ نے بہت پڑھے اور
سنے ہوں گے، لیکن کیا ان کی اولادوں کے عظیم الشان کارناموں سے بھی آپ
واقف ہیں،کیا یہی کوئی کم ہے کہ تاریخ میں ان پر کئے جانے المناک و
اندوہناک مظالم کے باوجود ان کی نسل آج بھی اسلام سے وابستہ و پیوستہ
ہیں،اس سے جہاں ان کی استقامت کا پتہ چلتا ہے، وہیں اسلام کی حقانیت اور
ابدیت کا بھی راز کھلتاہے،بہر حال تاتارستان روس کی ایک اندرونی خود مختار
جمہوریہ ہے ۔ اس کا رقبہ 68 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 38 لاکھ ہے ۔
تاتارستان کا دارالحکومت مشہور تاریخی شہر قازان دنیا کے حسین ترین شہروں
میں سے ایک ہے ،فیس بک
(https://www.facebook.com/urdu.sputnik/videos/535891259764540/) پر روسی
ری پبلک تاتارستان کے دارالحکومت کازان کے بارے میں ایک مختصر تعارفی ڈاکو
مینٹری پیش کی گئی ہے۔ یہ بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے، امید ہے کہ یہ فلم جو
انگریزی زبان میں ہے، دیکھنے والوںکو پسند آئے گی۔ ویسےسوویت اتحاد کے
خاتمے کے بعد ہی شہر ترقی کی راہ پر آ سکا۔ شہر کے تاریخی مرکز کو ازسر نو
تعمیر کیا گیا ،جن میں سب سے نمایاں قل شریف مسجد ہے، جو اب روس کی سب سے
بڑی اور مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی خوبصور ت مساجد میں سے ایک ہے۔
تاتارستان روس کےیورپی علاقے کے مرکز میں ماسکو سے 8 سو کلومیٹر دور مشرق
میں واقع ہے ۔ یہ دریائے وولگا اور دریائے کاما کے درمیان اور مشرق میں کوہ
یورال پہاڑی سلسلے تک پھیلا ہوا ہے ۔
بلاد ماورأ النہر میں واقع تاتارستان کے زیادہ تر لوگ تاتاری قومیت کے
ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ کل آبادی
کا 53 فیصد ہیں ۔ تقریبا 39 فیصد آبادی یعنی 10 لاکھ لوگ روسی قومیت کے
ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ساڑھے 3 فیصد چواش ،0.5 فیصد ماری اور
0.64فیصد ادمرت بھی تاتارستان میں رہتے ہیں اور تاتاری زبان بولتے ہیں ۔ اس
کے علاوہ قازاق، ازبک ، باشکیر ، لزگین ، یوکرینی اور آذربائيجانی بھی آباد
ہیں ۔تاتارستان کی تاتاری آبادی کا مذہب اسلام ہے اور زیادہ تر لوگ سنی ہیں
۔
آج کے تاتارستان کی سرحدوں میں سب سے پہلی معلوم ریاست وولگا بلغاریہ تھی ،
جو 700ء سے 1238ء تک قائم رہی ۔ وولگا بلغاروں کی ریاست ایک ترقی یافتہ
تاجر ریاست تھی ۔ جس کے تجارتی تعلقات اندرونی یوریشیا ، شرق اوسط اور
بحیرہ بالٹک کے علاقوں سے تھے ۔ اس ریاست نے اپنی آزادی کو کیویائی روس ،
قبچاق اور خزاری سلطنت کے دباؤ کے باوجود برقرار رکھا ۔ تاتارستان میں
اسلام ابن فضلان کے اس علاقے میں 922ء میں سفر کے دوران بغداد کے مبلغین کے
ذریعے پہنچا ۔ وولگا بلغاریہ کومنگول فوجوں نے 1230ء کی دہائی کے آخر میں
فتح کیا ۔ وولگا بلغاریہ کے باشندے منگول فاتح باتوخان کی قائم کی ہوئی
ریاست " اردوئے طلائی " کے ترک منگول سپاہیوں اور آبادکاروں کے ساتھ گھل مل
گئے ، جو قبچاق زبان بولتے تھے اور ولگا بلغار بھی قبچآق تاتار زبان بولنے
لگے اور وولگا تاتار کے نام سے پکارے جانے لگے ۔ ایک دوسرے نظریئے کے مطابق
اس عرصے میں کوئی نسلی تبدیلی نہیں ہوئی ،بلکہ بلغار صرف قبچاقی تاتار زبان
بولنے لگے ۔ 1430ء میں یہ علاقہ دوبارہ " خانان قازان یا خانیت ِ قازان" کی
شکل میں آزاد ریاست بن گیا اور اس کا صدرمقام قازان دریائے وولگا کے کنارے
بلغاروں کے پرانے دارالحکومت بلغار شہر کے کھنڈرات سے 170 کلومیٹر شمال میں
بنایا گیا ۔
تاتارستان کو 1550ء میں زار روس ایوان چہارم (روسی زبان میں ایوان گروزنی
یعنی ایوان خوفناک) کی فوجوں نے فتح کیا اور 1552ء میں قازان کا سقوط عمل
میں آیا ۔ اس کے ساتھ ہی روسیوں نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے ،
تاتاری مسلمانوں کی آبادی کے تیسرے حصے کو تہ تیغ کر دیا ، کچھ کو بزور
شمشیر عیسائی بنا لیا گیا ۔بچے ہؤوں کو سائیبیریا کے یخ بستہ صحراؤں کی طرف
ہجرت پر مجبور کیگیا، قازان شہر میں گرجے بنا ديے گئے ، اس علاقے کی تمام
مساجد کو گرا دیا گیا اور روسی حکومت نے مساجد کی تعمیر پر پابندی لگا دی ۔
زار روس ایوان چہارم نے تاتار مسلمانوں کے نشان ہلال کو گرجا گھروں میں
صلیب کے نیچے یا پیروں میں لگانے کا حکم دیا اور اس کو مسلمانوں پر
عیسائیوں کی فتح کا نشان قرار دیا ۔ آج بھی روس کے تمام پرانے اور بہت سے
نئے گرجا گھروں میں صلیب کے نیچے چاند دیکھا جاسکتا ہے ۔ اور یہاں کے رہنے
والے اکثر تاتاری مسلمانوں کو صلیب کے نیچے چاند لگانے کی وجہ معلوم نہیں،
کیونکہ روسیوں نے تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا ہے ۔ تاتارستان کے علاقے اور
سائبیریا میں 15ویں صدی کے وسط سے 20 ویں صدی کے وسط تک دسیوں لاکھوں
مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، لیکن تاریخ اس کے بارے میں خاموش ہے اور
مقامی مسلمان بھی اس سے بے خبر ہیں کیونکہ روسی سلطنت اور سویت اتحاد نے ان
حقاق کو دنیا کی نظروں سے چھپا کے رکھا ہے ۔ اب اس بارے میں یہاں کے مقامی
مسلمانوں میں شعور بے دار ہو رہا ہے اور یہاں سے چھپنے والے ان کے چند ایک
اخبارات میں اس بارے حقائق شائع ہو رہے ہیں ۔ تاتارستان کے کریملن میں قائم
قل شریف مسجد شہید کر کے یہاں گرجا قائم کر دیا گیاتھا اور تاتارستان میں
مساجد تعمیر کرنے پر پابندی 18ویں صدی تک رہی اور اس پابندی کو ملکہ
کیتھرائن دوم نے ختم کیا اور پہلی مسجد 1770ء -1766ء میں کیتھرائن دوم کی
سرپرستی میں بنائی گئی ۔ سویت اتحاد کے خاتمے کے بعد تاتارستان اک نیم
خودمختار جمہوریہ بنا تو قازان شہر کی کریملن میں ایک قابلِ دید اور شان
وشوکے والی یہ قل شریف مسجد دوبارہ تعمیر کر دی گئی ۔یہاں کا کریملین اور
یہاں کا قلعہ بھی بہت تاریخی اہمیت کا ہے،اسی لئے یونیسکو نے اس سے ثقافتی
ورثے میں سرِ فہرست رکھا ہوا ہے۔
تاتارستان 19ویں صدی میں صوفی اسلام کا مرکز بنا رہا اور تاتاری مقامی
مذہبی روایات کی وجہ سے پوری روسی سلطنت میں دوسرے لوگوں سے دوستانہ تعلقات
کی وجہ جانے جاتے تھے ۔تصوف زیادہ درآنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مذہبی
لوگوں نے زیر زمین پوشیدہ طور پر اپنے پاس بچی ہوئی محدود اسلامی تعلیمات
حالت اضطرار میں سینے سے لگائے رکھیں،کتب بھی ناپید تھیں اور محقق رجالِ
دین بھی۔ لیکن 1917ء کے انقلاب روس یا کیمونسٹ انقلاب کے بعدان مذہب پسندوں
کو پھر سے دبا دیا گیا ۔ 1918ء سے 1920ء کی روسی خانہ جنگی کے دوران تاتار
قوم پرستوں نے " ادیل یورال " کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی کوشش
کی ۔ جس میں انہیں عارضی کامیابی ملی ، مگر انقلاب میں کامیابی ملنے کے بعد
ظالم وجابربالشویکوں نے اس ریاست کو ختم کر دیا اور 27 مئی 1920 ء کو تاتار
خودمختار سویت جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا ، جب کہ وولگا تاتاروں کی
اکثریت اس ریاست کی حدود سے باہر تھی ۔
افغان جہاد کے بدولت سویت یونین کی شکست وریخت کے بعددیگر اندرونی ریاستوں
کی طرح 30 اگست 1990ء کو تاتارستان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کیا اور
1992ء ميں وفاق روس سے آزادی کے لئے ریفرینڈم کروایا گیا ، جس میں 62 فیصد
لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ۔مگر 15 فروری 1994ء میں تاتارستان کی
حکومت او روسی وفاقی حکومت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ، جس میں
تاتارستان کو فیڈریشن کا حصہ بنایا گیا، البتہ اس معاہدے کی رو سے
تاتارستان دوسرے ملکوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کر سکتا ہے ۔ یہ معاہدہ
وفاق روس کی طرف سے تاتارستان کی آزادی کو عارضی طور پر ماننے کے مترادف ہے
، کیونکہ اس معاہدے میں تاتارستان کے اقتدار اعلی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔
تاتارستان معدنی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ، اس کے قدرتی وسائل میں
تیل ، قدرتی گیس ، جسپم اور کئی دوسرے معدنیات شامل ہیں ۔ ایک اندازے کے
مطابق تاتارستان کے تیل کے ذخائر ایک ارب ٹن سے زیادہ ہیں ۔تاتارستان
چیچنیا کے مانند وفاق روس کے امیر ترین اور حسین ترین علاقوں میں سے ایک ہے
۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی تیل کی صنعت ہے ۔ 1960ء کی دہائی میں تاتارستان
،سویت اتحاد کا سب سے زیادہ تیل مہیا کرنے والاعلاقہ تھا ۔ صنعتی مصنوعات
تاتارستان کی جی ڈی پی کا 45 فیصد پیدا کرتی ہیں ۔ بہت زیادہ ترقی یافتہ
صنعتوں میں پیٹرو کیمیکل اور ہیوی ٹرک (کماز) بنانے کی صنعت ہے ۔ 2006ء
میں تاتارستان کی جی ڈی پی 24 ارب امریکی ڈالر تھی ۔ ریاست کا آمد ورفت کا
نظام بہت جدید ہے ، جس میں سڑکیں ، شاہراہیں ، ریلوے لائنیں ( راہ آہن) اور
جہازرانی کے قابل دریا ،دریائے کاما(تاتاری:چلمان) دریائے ویئاتکا(تاتاری:
نوفرت) اور دریائے بیلائیا ( تاتاری: آغ ادیل) اور تیل و گیس کی پائپ
لائنیں شامل ہیں ۔ تاتارستان کے علاقوں سے گیس کی بڑی بڑی پائپ لائنیں
گذرتی ہیں ، جن کے ذریعے گیس اورنگوئے اور یامبرگ سے مغربی روس اور یورپ کے
بہت سے علاقوں کو پہنچائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ بڑی بڑی پائپ لائنوں کے
ذریعے تیل بھی روس کے علاقوں اور یورپ کو مہیا کیا جاتا ہے ۔
گذشتہ دنوں تاتار صدر رستم مینی خانوف نے ترکی کا دور ہ کیا،جس کے بعد روسی
جمہوریہ تاتارستان میں ترک سرمایہ کاری میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت اضافہ
ہو رہا ہے،اس دورے میں تاتارستان کے صدر جناب رستم مینی خانوف ترکی کی ضلع
دینیزلی تشریف لائے ، جہاں انہوں نے صنعتی علاقے کا دورہ کیا اورٹیکسٹائل
ملوں کا جائزہ لیا،دورے کے دوران ترکی کے وزیر اقتصادیات نہات زیبک چی
مہمان صدر کے ہمراہ تھے ،دورے کے دوران انہیں دینیزلی کے کاروباری حضرات کی
تاتارستان میں سرمایہ کاریوں کے بارے میں مفصل معلومات فراہم کی گئیں،اس
موقع پر نہات زیبک چی نے دینیزلی کے سرمایہ کاروں سے بھی تاتارستان میں
سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی،زیبک چی نے کہا کہ خواہ روس کے ساتھ ہو یا روس
کے اندر کے اس (درخشاں ستارے )یعنی تاتارستان کے ساتھ ہو تجارت میں اضافہ
کیا جائے گا ، لگتاہے ترکی ، روس اور تاتارستان اب کے بعد باہم سب سے زیادہ
کمانے والے ممالک ہوں گے۔
اسی طرح ایک دو ماہ قبل سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جب روس
کا دورہ کیا، تو اس وقت انہوں نے تاتاری صدر رستم بھی ملاقات کی، دونوں
ملکوں کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور تعلیمی ودعوتی امور پر خاصا گفت وشنید
ہوئی،باہمی روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیاگیا۔اس سے پہلے ۱۷ جون کو قازان
میں او آئی سی اور تاتارستان کے اشتراک سےساتویں تجارتی سربراہی کانفرنس
منعقد ہوئی تھی،جس کا افتتاح صدر رستم اور اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ
ڈاکٹر احمد محمد علی نے کیا تھا،اس میں عالم اسلام بطورِ خاص خلیجی ممالک
اور مقامی حکومت کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے،عجیب بات یہ ہے
کہ اس وقت نہ صرف تاتاری حکومت بلکہ رشین فیڈریشن بھی چاہتاہے کہ مسلمان
ہمارے قریب ہوںاور ہم ایک دوسرے سے استفادہ کریں۔
گذشتہ مئی میں تاتارستان اور امارات کی حکومتوں کے درمیان کئی سائنسی اور
ٹیکنیکل معاہدے ہوئے،جس میں بنیادی کردار ایک طرف تاتاری کمپنی(tida )اور
دوسری طرف سے اماراتی کمپنی( tgic) کاتھا،اس موقع پر دونوں طرف سے مستقبل
میں ایک دوسرے کے مزید قریب آنے پر گفتگو ہوئی،حقیقت میں اس سب کا کریڈٹ
تاتاری صدر کو جاتاہے، جس نے چار سال قبل ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد
اپنے ملک کو نہ صرف روس میں بلکہ پوری دنیا میں ایک با عزت اور باوقار مقام
دلایا۔یہاں یہ نہایت قابل ذکر ہے کہ چنگیز خان مطلق العنان اور ایک بہت بڑا
حکمران تھا، مگر اس نے کوئی جائداد ودولت کبھی بھی جمع نہیں کی۔
کیا ہمارے حکمران، دانشور اور علمأ تاتاریوں سے کچھ سیکھنا چاہیں گے،کہ
ملک وملت کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے،اور اسے ترقی کی شاہراہوں پر کیسے گامزن
کیا جاتاہے، تاتاری مسلمان اور جمہوریہ تاتارستان اہل اسلام کی وہ گم گشتہ
متاع تھی،جو اب بازیافت ہوئی ہے،ان کا دار الحکومت سونے کی چڑیا اور ایک
انمول موتی ہے کیا ہے کوئی ،جو اس موتی کو حاصل کر سکے؟۔
|
|