۲۰؍ اگست۲۰۱۵ء کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی
خبرچھپی ہے۔ خبریہ ہے کہ ’سپریم کورٹ نے شہرقائد میں فٹ پاتھوں اورگرین
بلٹس پرلگائے ہوئے ہورڈنگزاورسائن بورڈزکو ۲۶؍اگست تک ہٹانے کا حکم دے دیا
ہے‘ جسٹس انورظہیرجمالی نے اپنے ریمارکس میں وجہ بیان کرتے ہوئے
کہاکہ’ہرسال بارشوں میں سیکڑوں ہورڈنگز گرجاتے ہیں جس سے درجنوں افراد
مرجاتے ہیں۔‘
اگرچہ سپریم کورٹ کا یہ حکم ہر لحاظ سے درست اور لائق تحسین قدم ہے لہٰذا
اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن ہم اس موقع پر یہ بات بھی واضح
کرتے ہیں کہ فٹ پاتھ کا مسئلہ صرف ہورڈنگزاور سائن بورڈوں تک محدودہے نہ
کراچی شہرتک۔ یہ دراصل پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور فٹ پاتھ کے ساتھ سائن
بورڈوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے مسائل وابستہ ہیں۔ بظاہریہ ایک چھوٹا سا،
غیراہم لیکن حقیقت میں انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔
فٹ پاتھ جہاں سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کی آسانی اور حفاظت کے لیے ضروری
ہیں وہاں سڑک پر ٹریفک کو رواں رکھنے اور حادثات سے بچنے کے لیے بھی اہم
ہیں۔ دیہاتوں میں کھلی جگہوں، آبادی اورٹریفک کی کمی وجہ سے فٹ پاتھ شاید
ضروری نہ ہو لیکن شہروں میں توسڑک کے دونوں طرف ناگزیرہیں۔
ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بھی اکثر مقامات پرسڑک کے ساتھ
فٹ پاتھ بنانے کاکوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔اس وقت افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ
ہمارے ہاں ہائی سٹریٹ میں بھی فٹ پاتھ نہیں ہوتا۔ ہائی سٹریٹ شہریاقصبے میں
اُس مقام کو کہتے ہیں جہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جن سڑکوں کے ساتھ فٹ
پاتھ ہیں بھی، وہ باقاعدہ فٹ پاتھ کا درجہ نہیں رکھتے۔ مطلب یہ کہ فٹ پاتھ
اور سڑک کے درمیان حدِ فاصل نہیں۔ جس کی وجہ سے موٹرسائیکل حتیٰ کہ چھوٹی
گاڑی بھی اس پرآسانی سے چڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازایں یہ فٹ پاتھ چوڑائی کے
لحاظ سے ناکافی، جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے اورکھلے مین ہول کے ساتھ پائے جاتے
ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اکثرمقامات پر دکانداروں نے فُٹ پاتھ تک اپنی دکانیں
بڑھالی ہیں، یاپھرچھابڑی والوں، ریڑھی والوں ، اتائیوں اور فال بتانے والوں
نے اس کو کرایے پرلے لیاہے۔ ہوٹلوں اورگاڑیوں کی ورکشاپوں کا کاروبار
توشاید فٹ پاتھ کے بغیر ’’ممکن ‘‘ہی نہیں ہوتا۔یہ لوگ صرف فٹ پاتھ پر ہی
اکتفا کرتے تو بھی خیر تھی لیکن یہ تو سڑک کے عین درمیان تک قبضہ جمائے
بیٹھے ہیں۔مانگنے والوں کا حق اس کے علاوہ ہے ۔رات کا معاملہ البتہ اورہے
جب یہی فٹ پاتھ بے چارے ،بے گھر اور بے در لوگوں کی قیام گاہ کا کام دیتے
ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں ہیں یا
اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتاہے ۔
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کے شہر
کورینتھ(Corinth)میں چوتھی صدی عیسوی میں فٹ پاتھ بنائے گئے تھے۔ رومن بھی
فٹ پاتھ بڑے اہتمام سے بنایاکرتے تھے۔ 1671ء میں عام شاہراہوں کی صفائی
اورفٹ پاتھ کے لیے قوانین بنائے گئے تھے۔ 1766ء میں لندن شہرمیں روشنی،
صفائی اور پیدل چلنے والوں کے فٹ پاتھ کے اہتمام کے لیے قانون سازی ہوئی۔
انیسویں صدی کے آغازمیں یورپی ممالک کے تقریباً تمام دارالخلافوں میں کھلے
فٹ پاتھوں کا اہتمام تھا۔
حادثات کی روک تھام میں بھی فٹ پاتھ کا واضح کردار ہے۔2005ء میں
فلوریڈاٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ایک
مخصوص علاقے اوروقت تک محدودتحقیق پر مبنی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ
خاطر خواہ فٹ پاتھ کی تعمیرکی بدولت حادثات میں 74فی صد کمی آئی۔
اسی طرح امریکی ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی کی
ایک تحقیق کے مطابق فٹ پاتھ کی تعمیر سے حادثات کا خطرہ88.2فی صدکم
ہوجاتاہے۔
ان اعدادوشمارسے اگر کلی طور پر اتفاق نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ بات تو
واضح ہے کہ فٹ پاتھ کی عدم موجودگی حادثات کے چندبڑے اسباب میں سے ایک ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک چین نے اپنے شہرچونگ میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں
کے لیے سڑک کے ساتھ علیحدہ فٹ پاتھ بنادیا ہے۔
فٹ پاتھ کے متعلق تاریخ وتحقیق کچھ لوگوں کوشائد بے محل معلوم ہوکیوں کہ
ہمارے حکمران اور سیاست دان پہلے تو غوروفکراورعلم وتحقیق کادماغ کب رکھتے
ہیں جو تھوڑا بہت دعوٰی رکھتے ہیں ان کی ڈگریاں آئے روزجعلی و اصلی کے چکر
میں عدالتوں میں زیر بحث رہتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ یہ ملک نہ امریکا ہے نہ
برطانیہ اور نہ چین ،جہاں سیاست دانوں کا کام قومی وملکی فلاح و بہبود ہوتا
ہے ،یہ پاکستان ہے جن کے سیاست دانوں کا کام ملکی وسائل کودونوں ہاتھوں سے
لوٹنا ہی ہے سو وہ کر رہے ہیں۔البتہ یورپی ممالک کے بارے میں ہمارے سیاست
دان بھی جانتے ہیں اس لیے وہ یہاں سے لوٹاگیا مال یورپی ممالک کی بنکوں ہی
میں رکھتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتاہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا عوام سے
تعلق ہی کیا ؟ان کی کلاس ہی الگ ہے ۔یہ اپنے آپ کو ایلیٹ کلاس کہلواتے ہیں۔
جن کی بستیاں عام لوگوں سے الگ تھلگ ہیں۔ ان کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں۔ عام
بازاروں اور شاہراہوں پر پیدل چلنا تو درکناران کی گاڑیوں کی گزرگاہیں بھی
الگ ہیں۔اگر کبھی عام آبادی کی طرف آنا بھی پڑے تب حفاظت کے نام پر ان کی
سہولت کے لیے ٹریفک روک دی جاتی ہے اور پیدل چلنے والوں پر دفعہ ۱۴۴ کا
نفاذ ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فٹ پاتھ نہ ان کی ضرورت ہے نہ مسئلہ ۔لہٰذافٹ
پاتھ کی تعمیر کے سلسلے میں خاطر خواہ قوانین موجود نہیں ہیں۔جب قانون ہی
موجود نہ ہوتو سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کامنصوبہ کیوں کربنایا جائے اوربجٹ کیسے
رکھا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سڑکوں، اوورہیڈبریج، انڈرپاس کی تعمیرکے لیے
خاصی شہرت رکھتے ہیں لیکن سڑک اور فٹ پاتھ کی حالت زار پرمبنی باہمی تعلق
پوری سنگینی کے ساتھ لاہور میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح کے پی کے کے نوجوان
مگر باصلاحیت وزیربلدیات عنایت اﷲ خان پشاور شہر کی شاہراہوں میں واضح
تبدیلی لائے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ،انھیں ابھی بہت کچھ مزیدکرنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکز اور چاروں صوبوں کے حکمران اس مسئلے پر توجہ
دیں ۔ شہروں اورقصبوں میں سڑکوں کی تعمیرکے ساتھ فٹ پاتھ کی تعمیر کولازمی
کردیاجائے۔ فٹ پاتھ بھی ایسے جو سڑک سے واضح طور پر الگ ہوں۔ اس کے لیے سڑک
اور فٹ پاتھ کے درمیان درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح آلودگی میں کمی ہوگی،
موسم پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے اورعلاقے کی خوب صورتی میں بھی اضافہ
ہوگا۔ یہ صرف حکومتوں اور اداروں ہی کا نہیں، تمام سیاسی وسماجی راہنماؤں
اور غیر سرکاری تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ اس انتہائی سنگین عوامی مسئلے کی
طرف حکومت کی توجہ دلائے بلکہ قانون ساز اداروں سے فٹ پاتھ کی تعمیر، مرمت،
صفائی اور عوام کے لیے قابل استعمال بنانے کے لیے قانون سازی کرائی جائے۔
|