دینی وعصری تعلیمی اداروں کی نظامِ تعلیم پر ایک طائرانہ نظر
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
ہرقوم وملّت کو تعلیم کی اشد ضرورت ہوتی
ہے،تعلیم کے بغیرانسان ،انسانی شکل میں حیوان ہوتا ہے کیونکہ تعلیم یافتہ
انسان ہرگوشۂ زندگی سے آگاہ ہوتاہے اورہرکام کاطریقہ اورڈھنگ جانتاہے لیکن
آج کل توتعلیم فقط نام کارہ چکاہے۔ سکولوں میں بھی زبانی جمع خرچ کی جاتی
ہے ،فقط فیس کو جمع کیاجاتاہے اور پھر امتحانات میں اپنے ہال ہوتے ہیں تو
اﷲ اﷲ خیر!حالانکہ حدیث شریف میں آیاہے کہ العلم فریضۃعلیٰ کلّ مسلمکہ علم
حاصل کرناہرانسان کافریضہ ہے خیراس سے تو مراد وہ علم ہے کہ جس کے
بغیرزندگی گزارناناممکن ہومثلاًان چیزوں کاعلم رکھناکہ جودن رات کاعام
معمول ہو،نماز سیکھناوغیرہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ ان ہستیوں کے بارے میں
جانناجن پرہم ایمان لائے ہیں،میرامراد آقائے نامدار، فخر موجودات، محمد
مصطفی، محمدمجتبیٰ،محمدعربی ﷺہیں کہ آدمی ان کی سیرت سے اپنے کوآگاہ رکھیں۔
مجھ پراس۲۵سالہ زندگی میں دوادوارتعلیم کے لحاظ سے گزرگئے ایک وہ دور تھاکہ
جب ہم پرائمری اورمڈل لیول میں پڑھتے تھے تو اس وقت جب ہم کتا ب کھولتے تھے
تو اول وھلہ میں نظر حمد ونعت پر پڑتی تھی او رپھر اس کے بعد ایک سبق محمد
ﷺ کی سیرت پر مشتمل ہوتا تھا مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ جب میں پانچویں
جماعت میں پڑھتاتھا تو اس وقت جب ہم ’’ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ‘‘والی سبق
پڑھتے تھے تو ہمارے استاذ محترم نے ہمیں سیرت کی پہلو پر ایک طویل لیکچر
دیا تھا تو ظاہر بات ہے کہ جب بچپن ہی سے آدمی کے ذہن میں آقائے نامدار ﷺ
کی سیرت کی ایک ایک پہلو کا تذکرہ ہو تو جو ں جوں آدمی بڑھتا جائیگا تو تب
تک اس کے ذہن میں وہ سارا نقشہ ہوتا ہے اورپھر اس کو بچپن کی وہ یادیں
ستاتی ہیں تو وہ اسی شوق اور ولولہ کو لیکر اپنے آقائے نامدارمحمد ﷺ کی
سیرت کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ سیرت النبی ﷺ
کو اپناتے اپناتے مکمل متبع سنت بن جاتا ہے ۔
اور دوسرا دور یہ ہے کہ جس سے ہم آج کل گزر رہے ہیں کہ ہماری ساری کتب ان
ہستیوں کی سیرت سے خالی پڑی ہیں آج ہی میں نے بارہویں جماعت کی اردو کتا ب
مطالعہ کے لیے اٹھائی تو بہت افسوس ہو ا کہ پہلے تو ہم جب کتاب کھولتے تھے
تو پہلی نظر نبی اکرم ﷺ کی سیرت والی سبق پر پڑتی تھی مگر افسوس کہ آج
ہمارے تعلیمی اداروں کے کتب ان سے خالی پڑی ہیں ۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم جب نصاب میں کوئی ایسی چیز داخل کرتے ہیں جو
ہمارے دین کی احیاء کے لیے ممد و معاون ہو تو اس پر غیر ممالک سے اعتراض
آجاتا ہے تو پھر ہم ڈر کی وجہ سے خارج نصاب کرتے ہیں تاکہ ہمارے غیر مسلم
بھائی ناراض نہ ہو اگر ہمارا آقا محمد ﷺ ناراض ہو جائے تو کوئی بات نہیں
لیکن ہمارے وہ بھائی ناراض نہ ہو کیو نکہ وہ پھر کچھ دینا چھوڑ دیں گے۔
تو یہی وجہ ہے کہ یہی بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہے تو جب یہ اپنے بچپن میں
یہ چیزیں پڑھیں گے تو پھر کل وہ بڑے ہو کر جب ہمارے مستقبل کے معمار بنیں
گے تو وہی کریں گے جو ان کو سکھایا گیا تھا۔ صرف یہی افسوس ناک بات نہیں
بلکہ جب بارہویں کی اردو کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو اس کی ابتداہی ایک
افسانے سے کی گئی تھی اور اس میں ایک خواب کا تذکرہ کیا ہے ، تو یہی وجہ ہے
کہ ہمارے حکمران خواب خرگوش میں سوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے تو ان کی تعلیم بھی
خوابوں سے شروع ہوتی رہی ہے اور پھر وہ خواب جو شرمندہ تعبیر بھی نہ ہو سکے
فقط ایک جھوٹا افسانہ کے اس کو پڑھا اور کچھ بھی حاصل نہ ہو،ا نہ کچھ آیا
نہ کچھ گیا ۔ اب ہماری ان غلطیوں کا ازالہ کیسے ہو ؟ تو اس کے لیے پشاوری
کے ذہن میں یہ ایک ترکیب آئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ علماء
، اردو ادیبوں اور مشہور نامور ہستیوں کو جمع کر کے ایک نصابی کمیٹی تشکیل
دی جائے اور پھر جب یہ کمیٹی ایک ہدف تک پہنچ جائے یا ایک نصاب تشکیل کر
دیں اور پھر یہی نصاب ہو نہ کے اس میں دن بدن تبدیلی لاتی رہے، اسی دن بدن
تبدیلی کی وجہ سے تو ہمارے نظام تعلیم کا یہ حال ہے ، اس کے برخلاف مدارس
کا نظام تعلیم ہے جب سے دارالعلوم دیو بند قائم ہوا ہے اور اسی وقت علماء
کرام نے مسائل جھیل کر کے ہر لیول کے طلبائے کرام کے لیے ایک نصاب مقرر
کررکھی ہے تو آج تک وہی نصاب الحمد ﷲ ایک منظم تنظیم وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے تحت قائم ہے لیکن بعض لوگوں نے مدارس کے نظام تعلیم کو بھی نہیں
چھوڑا ، اب اس میں تبدیلی لانے کیناکام کوشش کرتے ہیں، آجکل مدراس کے نصاب
و نظام پر یہ اعتراض بہت شد و مد کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ مدارس کا نصاب
وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس سے ملکی ضروریا ت پورے نہیں ہو رہے
ہیں۔ حالانکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ اعتراض بے جا ہے کیو نکہ
مدارس کا نصاب عصری تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور مدارس کے تعلیمی
ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور وہ وقتاً ًفوقتاًاس نصاب کا جائزہ
لیتی رہتی ہے اور جہاں پر ٹیڑھا پن ہو تو وہا ں سے وہ کمزوری دور کر کے
مکمل طور پر مفید آمیز بنا دیتی ہے ۔ غرض یہ کہ مدارس کے نصاب و نظام مکمل
طور پر متحرک اور جس مقصد کے لیے دینی نظام کو بنا یا تھا مدارس کے نصاب و
نظام سے وہ مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ آجکل ہمارے بعض بھائی مدارس پر یہ اعتراض
بھی کرتے ہیں کہ مدارس دنیا کی لب ولہجے سے ناآشنا ہے ۔ اگر اس اعتراض پر
ہم غور کریں تو یہ اعتراض بے محل ہے کیو نکہ مدارس دنیا کے ساتھ چلنے کی
سکت رکھتے ہیں اور ہمیشہ دنیا کے لوگوں کی خدمت کی ہے اور جب بھی اس قوم و
ملت پر کوئی آفت ٹوٹی ہے تو مدارس کے غیور اور مخلص حضرات نے اس قوم و ملت
کی ہر محاذ پر مدد و معاونت کی ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا
مدارس نے ہمیشہ قوم و ملک کے لیے خدمات پیش کیے ہے اور جب بھی وطن عزیز پر
کوئی سخت گھڑی آئی ہے تو مدارس نے کندھا دے کر ملک و قوم کو اس مصیبت سے
نکالی ہے ۔ جب ملک میں سیلاب ، زلزلے اور قدرتی آفات آئی ہے تو اہل مدارس
نے اس سخت آن میں مصیب زدہ لوگوں کی جانی و مالی خدمت کرکے اپنی ذمہ داریاں
نبھائی ہے لیکن پھر بھی بعض نام نہاد لوگ مدار س کے نصاب و نظام پر انگلی
اٹھاتے ہے اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے تصور کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات
غلط اور خلاف عقل ہے کیونکہ مدارس نے ہمیشہ معاشرے کو امن و آشتی ، اخوت و
بھائی چارے کا درس دیا ہے اور پورے معاشرے کو ایک نقطے پر جمع کرنے کے لیے
دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اگر پھر بھی مدارس کے فعال کردار پر کسی کو
اعتراض ہے تو یہ کم فہمی اسکی ذات تک محدود ہوگی جو اتنی بڑی نظام پر انگلی
اٹھاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار تھوڑا سوچھے کہ یہ مدارس تو ملی و
قومی و حدت کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کی دینی پیاس بجھانے کے لیے
سر گرم عمل ہیں ،اگر مدارس کا وجود ختم کردیا گیا تو پھر معاشرہ بہت سی
روحانی بیماریوں کا شکار ہو جائے گا۔
|
|