غزوہ خیبر
خیبر یہودیوں کی مضبوط ترین عسکری اساسگاہ تھی کہ جس میں دس ہزار سے زیادہ
جنگجو سپاہی مقیم تھے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ سب
سے پہلے اس جگہ کو ان کے وجود سے پاک کیا جائے۔ چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجری
میں سولہ سو جنگ آزما سپاہیوں کو ساتھ لے کر آپ مدینہ سے خیبر کی جانب
روانہ ہوئے اور راتوں رات ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ اس لشکر کے پرچم
دار بھی حضرت علی علیہ السلام ہی تھے۔
قلعہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اہل و عیال کو ایک قلعے میں اور ساز و سامان
و خوراک دوسرے قلعے میں جس کا نام ”امن“ تھا محفوظ کر دیں۔ اس اقدام کے بعد
انہوں نے ہر قلعے کے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ مسلم سپاہ کو قلعے کے اندر
داخل ہونے سے روکیں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس دشمن سے جو قلعے کے باہر
موجود ہے جنگ کریں۔ (مغازی ج۲ ص ۶۳۷)
سپاہ اسلام نے دشمن کے سات قلعوں میں سے پانچ قلعے فتح کرلیے جس میں تقریباً
پچاس مجاہدین اسلام زخمی ہوئے اور ایک کو شہادت نصیب ہوئی۔
باقی دو قلعوں کو فتح کرنے کے لئے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے
حضرت ابوبکر کو پرچم دیا مگر انہیں اس مقصد میں کامیابی نصیب نہ ہوئی اگلے
دن حضرت عمر کو سپاہ کی فرمانداری دی گئی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے۔
تیسرے دن حضرت علی علیہ السلام کو قلعہ فتح کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔ آپ
نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ کرنے کےلئے روانہ ہوگئے۔
یہود کے بہادروں میں ”مرحب“ کا نام شجاعت و دلیری میں شہرت یافتہ تھا وہ
زرہ و فولاد میں غرق قلعے سے نکل کر باہر آیا۔ دو جانبازوں کے درمیان نبرد
آزمائی شروع ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے پر وار کرتے اور کاری ضرب لگاتے رہے۔
حضرت علی کی شمشیر براں مرحب کے سر پر پڑی۔ جس کے باعث اس کے خود اور
استخوانِ سر کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ مرحب کے ساتھیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان
کے حوصلے پست ہوگئے چنانچہ فرار کر کے قلعے میں پناہ گزیں ہوئے۔ جہاں انہوں
نے اپنے اوپر اس کا دروازہ بھی بند کرلیا اور حضرت علی علیہ السلام نے اپنی
روحانی طاقت اور قدرت خدا کی مدد سے قلعے کے اس دروازے کو جسے کھولنے اور
بند کرنے پر بیس آدمی مقرر تھے اکھاڑ لیا اور اسے باہر بنی ہوئی خندق پر
رکھ دیا تاکہ سپاہی اس پر سے گزر کر قلعے میں داخل ہوسکیں۔
امیرالمومنین حضرت علی نے دشمن کے سب سے زیادہ محکم و مضبوط قلعہ کو فتح کر
کے فتنہ خیبر کا خاتمہ کر دیا اور یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس جنگ
میں پندرہ مسلمان اور ترانوے یہودی تہ تیغ ہوئے۔ (غازی ج۲ ص ۷۰۰)
یہودیوں پر فتح پانے کے بعد اگر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو
تمام خیانت کاروں کو سزائے قتل دے سکتے تھے، انہیں شہر بدر اور ان کے تمام
مال کو ضبط کیا جاسکتا تھا۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق
میں درگذشت اور فراخ دلی سے کام لیا چنانچہ انہی کی تجویز پر انہیں یہ
اجازت دے دی گئی کہ اگر چاہیں تو اپنے ہی وطن میں رہیں اور اپنے دینی احکام
کو پوری آزادی کے ساتھ انجام دیں۔ بشرطیکہ ہر سال اپنی آمدنی کا نصف حصہ
بطور جزیہ اسلامی حکومت کو ادا کریں اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب
بھی مصلحت سمجھیں گے انہیں خیبر سے نکال دیں گے۔ (تاریخ ابن کثیر ج۳ ص ۳۷۵)
غزوہ خیبر میں ”حی بن اخطب“ کی دختر صفیہ دوران جنگ مسلمانوں کی قید میں
آئی تھیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ”غزوہ خیبر“ سے فراغت پانے کے
بعد پہلے تو انہیں آزاد کیا اور ان سے نکاح کرلیا۔ اسی عرصے میں یہ اطلاع
ملی کہ حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ حبشہ سے واپس آگئے ہیں۔ جسے سن کر آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان دو خبروں میں سے کس پر اپنی مسرت کا
اظہار کروں۔ جعفر کی آمد پر یا خیبر کے فتح ہونے پر۔ (بحارالانوار ج۲۱ ص۲۵)
فدک
خیبر کے یہودیوں پر فتح پانے کے بعد مسلمانوں کا سیاسی، اقتصادی اور نظامی
مقام و مرتبہ بہت بلند ہوگیا۔ اس منطقے میں آباد یہودیوں پر کاری ضرب لگی
اور ان پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب خیبر کے یہودیوں کی طرف سے یکسوئی
ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو وفد کے
ہمراہ فدک کے یہودیوں کے پاس روانہ کیا اور فرمایا کہ یا تو وہ دین اسلام
قبول کریں یا جزیہ دیں اور یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
فدک کے یہودی اپنی آنکھوں سے خیبر کے یہودیوں کی شکست و ریخت دیکھ چکے تھے
اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ مصالحت کرلی ہے اسی لیے انہوں نے صلح کو قتل قید و بند پر ترجیح دی۔
اور اس بات کے لیے آمادہ ہوگئے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو
خیبر کے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے ان کی درخواست قبول کرلی۔
چونکہ فدک کسی جنگ و خون ریزی کے بغیر فتح ہوگیا تھا اسی لیے اسے خالص رسول
کی ذاتی ملکیت میں شامل کرلیا گیا۔ اس جگہ کے متعلق ایسی بہت سی روایات
موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کے حکم سے رسول خدا نے
فدک اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ علیہا السلام کو عطا کر دیا۔(تفسیر
البرہان)
غزوہ وادی القریٰ
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کی ”خیبر“ اور ”فدک“ جیسی پناہ
گاہوں کو نیست و نابود کرنے کے بعد ”وادی القریٰ“ کی تسخیر کا ارادہ کیا
اور یہودیوں کے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ قلعہ بند
رہنے سے کوئی فائدہ نہیں تو انہوں نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی۔ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ بھی وہی عہد و پیمان کیا جو اس سے قبل
خیبر کے یہودیوں کے ساتھ کیا جاچکا تھا۔(۱۷)
”تیماء“ کے یہودیوں نے جو کہ ’ہتیماءیہود‘ و کے نام سے مشہور تھا اور اس کے
باشندے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سخت دشمن تھے ۔ جب دوسرے بھائیوں
کی یہ حالت دیکھی تو ان سے درسِ عبرت حاصل کیا اور اس سے قبل کہ رسولِ
اسلام ان کی گوشمالی کے لیے ان کی جانب رخ کریں وہ خود ہی آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ وعدہ کر کے کہ ”جزیہ“ ادا
کریں گے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے معاہدہ صلح کرلیا اور اس طرح
حجاز میں جتنے بھی یہودی آباد تھے انہوں نے اپنی شکست قبول کرلی اور یہ
تسلیم کرلیا کہ اس منطقے کی اصل طاقت اسلام ہی ہے۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |