میٹھا جھوٹ اور کڑوا سچ

جھوٹ سے وقتی طور پر راحت ملنے کے بعد سدا کا دکھ مقدر بنتا ہے۔ لیکن سچ ایک ایسی دولت ہے جس سے وقتی طور پر اگر کچھ تکلیف ہو بھی جائے تو سچ سدا کی خوشی اور اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ لیکن ہم۔۔۔۔۔ہم نے تو جھوٹ اپنی زندگیوں میں اس طرح نافذ کر رکھا ہے جیسے جھوٹ ایک سچ ہو اور سچ سے ہم اس طرح دور بھاگتے ہیں جیسے سچ کوئی زہر ہو جس کے کھانے سے ہم مر جائیں گے۔ لیکن کب تک۔ اب بہت ہو چکی۔ ہمیں اپنے اردگرد کے سچ اور جھوٹ کھلی آنکھوں سے بغور دیکھنے ہی ہوں گے۔۔

اگر کوئی فرد کسی عمارت کی بیسویں منزل پر چڑھ کر اپنے آپ کو چھت سے نیچے باار سڑک کی طرف گرا دے تو وہ نیچے گر کر مر جائے گا اور پاکستان بھی تو، عوام کی ہر شعبے میں، ہر قدم پر تنزلی کے باعث نیچے ہی جا رہا ہے اور نیچے گر کر تو بندہ مر جاتا ہے۔ زراعت، کاروبار، پانی، بجلی، کرپشن، ناانصافیاں، قرضے، اخلاقیات، دہشت گردی اور کتنا کچھ لیکن ہم روتے ہیں اور پھر کہتے ہیں اس ملک کو تو کچھ نہیں ہوگا یہ قائم رہے گا۔ کتنا میٹھا میٹھا جھوٹ ہے۔ سب، سب کچھ غلط کرتے جائیں(چند اچھے لوگوں کے علاوہ) اور سب، سب کو میٹھے جھوٹ بانٹتے جائیں۔ بڑی مشہور روایت ہے کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کا نہیں۔ کون سی ناانصافی ہے جو یہاں نہیں ہوتی۔ یہاں تو نظام ہی ناانصافی کا ہے۔ بے ایمانی کا بول بالا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گیے ملک میں 63 برس میں بھی اسلامی قوانین نافذ نہ ہو سکے۔ شراب، شباب، ڈاکہ زنی، جوا، حق تلفیاں، عورتوں کی تذلیل، بوڑھوں کی تذلیل، بچوں کی تذلیل، جانوروں پر ظلم کونسا برا کام ہے جو یہاں نہیں ہو رہا۔ کیا نظریہ پاکستان یہی تھا۔ نظریہ تو کتابوں تک محدود رہ گیا۔ اسلامی طریقوں سے اجنبی، انڈین فلموں، ڈراموں اور ہیروئنوں کے رسیا عام ہیں۔ پانچ منٹ کی نماز کی بجائے گھنٹوں فلمیں ڈرامے دیکھنا آسان ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ نظریہ کوئی نیا، کوئی دوسرا ہی اپنا لیا ہے۔ پاکستان کی بنیاد، اس کو بنانے والی قوت تو ایک نظریہ تھا۔ وہ ہی نہ رہا تو کیا یہ ملک رہے گا۔ کہتے ہیں اس کو سب کھا رہے ہیں اب تک ہے تو ہمیشہ رہے گا۔ وہی میٹھے جھوٹ۔جب ملک بنانا تھا تو اسلام اسلام کرتے کٹ گئے، مر گئے۔ مال جان سب کچھ لٹا دیا۔ اس وقت دعائیں مانگتے تھا۔ جب ملک بن گیا تو اب انڈین گانوں پر تھرکتے جسم دیکھتے ہیں بڑے شوق سے۔ شادیوں پر تو اپنے بچے بھی ناچتے ہیں۔ کالجوں میں بچیاں بھی۔ یہ ہم نے بچوں کو کیا بنا رہے ہیں کیا سکھا رہے ہیں۔ شادی پر ہندووانہ رسموں کی سختی سے، بڑی محبت سے پیروی۔ نتیجہ کیا ہے آدھا ملک چلا گیا۔ جو باقی بچا ہے اس سے نظریہ پاکستان رخصت ہو چکا ہے۔ ملک کا جانا باقی ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ایسے میں تو آواز لگانی تھی، شور مچنا چاہئے تھا، خبردار ،ہوشیار ملک خطرے میں ہے لیکن آواز لگ رہی ہے ملک کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بس وہی میٹھا میٹھا جھوٹ۔ اب جھوٹ کو سمجھنے کا وقت ہے۔ زلزلہ کیوں آیا پھر نہ آ جائے، کوئی سوچنے کو تیار نہیں۔ چودہ سو سال ہو گئے اسلام کو تشریف لائے ہوئے۔ کم و بیش ساڑھے نو سو سال تو دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کر چکے۔ جدھر قدم اٹھے تاریخ بنتی گئی۔ کل کے اندلس آج کے سپین میں کیا کرنے گئے تھے ایک غیر مسلم کی غیر مسلم بیٹی کو ایک غیر مسلم حکمران کے ظلم سے نجات دلانے۔ جو رعایا میں بھی نہ تھا۔ بس فریاد لے کر آیا تھا۔۔ لوگوں دنگ رہ گیے۔ اسلام کے جھنڈے اپنے گھروں پر، اپنے دلوں پر اپنی خوشی سے سجا لئے۔ اپنا ملک نہیں تھا لیکن اسلامی حکومت کی ابتدا ہو گئی۔ کیوں۔ کردار اسلامی تھا، سوچ اسلامی تھی۔ آج اندلس سپین ہے۔ عبرت ہے ہمارے لئے۔ اسلام کا نام وہاں موجود نہیں۔ غفلت کا شکار ہو کر کردار بدل گئے تھے شاعر مشرق بھی تو سچ بتا چکے۔ ---------
آ تجھ کو بتاؤں تقدیر امم کیا ہے
شمسیر و سناں اول طاوس و رباب آخر

آٓج ملک اپنا ہے اسلام کے نام پر بنا۔ لیکن ہم طاؤس و رباب کے سائے میں جی رہے ہیں۔ لیکن پھر کس امید پر کس سہارے پر کہتے ہیں اس ملک کو کچھ نہیں ہوگا۔ سوچنا ہوگا۔ بہت کچھ چھوڑنا ہوگا یا پھر تیار رہنا ہوگا جو کر رہے ہیں اس کے برے انجام کیلئے۔ یہ ہمارے ارد گرد کے جھوٹ کا جائزہ تھا بڑا مختصر لیکن سچ کو بھی تو دیکھنا ہوگا۔ کتنا ہے کہاں ہے۔ کہیں سے آواز آتی ہے یہ سب ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ لیکن ہم کان نہیں دھرتے۔ دھرتے ہوتے تو ویلنٹائن ڈے، بسنت بو کاٹا کی جگہ یوم توبہ مناتے۔ کچھ لوگ تو ہیں جو عمل کے سچے ہیں کردار کے کھرے ہیں۔ ہم ان کو دیکھتے اور اپنے آپ پر غور کرتے۔ لیکن یہ تو تب ہی ہو گا جب ہم کچھ محسوس کریں گے۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہم بےحس ہیں لیکن امید کی کرن بھی ہے فلم زدہ ذہنوں کے درمیان کچھ تڑپتے دعائیں کرتے لوگ- قتل وغارت، انسانیت کی تذلیل کیا کچھ نہیں ہو رہا لیکن سچ تو یہی ہے کہ مزاحمت بھی ہو رہی ہے دبی دبی سی۔ ویلنٹائن ڈے یا عیاشی ڈے پر پارک ہوٹل بھر جاتے ہیں، موبائل مصروف رہتے ہیں، لیکن مسجدوں میں بھی کچھ لوگ نظر آ ہی جاتے ہیں۔ ہماری شادیاں ہندوانہ رسموں کی تصویر ہیں لیکن ان سے بچ کر نکاح کرنے والے ابھی موجود ہیں۔ اس ملک کی بقا اور ترقی کا راز ہمارے کردار میں چھپا ہے اگر اسلامی ہو جائے۔۔ لیکن سارے لوگ فلم زدہ، رشوت خور، بے ایمان تو نہیں ۔ تھوڑے سے، چند، قلیل تعداد میں، مٹھی بھر مسلمان بھی تو ہیں عملی مسلمان۔ مزاحمت کر رہے ہیں دہشت گردی کو اسلام کا روپ دینے پر، ہمارے غیر اسلامی رویوں پر۔ غیروں کی غلامی پر۔ ملک ٹوٹتا نظر آ رہا تھا۔ ہماری فوج ڈٹ تو چکی ہے۔ مر بھی رہی ہے لیکن لڑتی جا رہی ہے کس کیلئے اس ملک کیلئے۔ یہ سب سچ ہی تو ہے۔ عدلیہ کی بحالی، کرپشن، معاف کیے گئے قرضے، بڑے بڑے غیر ملکی اکاؤنٹ، غیر ملکی دوروں کے خرچے، عوام کے ٹیکسوں پر عیاشی، فرینڈلی اپوزیشن، میڈیا نے سیاستدانوں کے چہرے سے نقاب اتارنے کی کوشش تو کی ہے۔ سب نے تو بےایمانی اور بدعنوانی کے چادر نہیں اوڑھ رکھی راتوں کو رو رو کر ملک کیلئے قوم کیلئے دعائیں کرنے والے بھی تو کچھ لوگ ابھی ہیں۔ حکمران بلکہ سیاستدان بمعہ اپوزیشن عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان چھیننے کی مہم بڑے زور وشور سے شروع کر چکے ہیں لیکن ہماری سانسوں پر تو ان کا کوئی زور نہیں چلتا، نہ چلے گا۔ سانسیں تو ہماری اپنے ہی ہیں۔ میدان لگ چکا ہے۔ میٹھے جھوٹوں کی بھرمار ہے۔۔ سچ بھی سر اٹھا رہا ہے۔

ہم نے، عوام نے جس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا ساتھ دیا وہ قائم رہ جائے گا۔ جھوٹ کی جیت اور سچ کی جیت، جھوٹ کی ہار اور سچ کی ہار ہمارے کردار کی محتاج ہے۔ ہمیں اب اپنا کردار ادا کرنا ہی پڑے گا۔ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ پاکستان کو قائم رکھنا ہے یا اسے مٹ جانا ہے۔ یہ فیصلہ اب ہمیں ہی کرنا ہے اپنے کردار سے۔ سچ اور جھوٹ میں کسی ایک کا انتخاب کر کے۔ یہی سچ ہے کڑوا سچ۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 116014 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More