پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈرکے استعمال کو روکا نہ جاسکا

 پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈرکے استعمال کو روکا نہ جاسکا۔پاکستا ن کے شہروں میں متعدد مہلک حادثات میں سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں چلی گئیں ۔ پہلے سے موجود اور مزید بنائے گئے سخت قسم کے قوانین بھی کام نہ آئے اور آئے روز حادثات ہورہے ہیں ۔پچھلے دنوں پنجاب کے شہر ڈیرہ غازیخان، بہاولپوراور سند ھ کراچی ،حیدر آباد میں ایل پی جی سلنڈر کے پھٹ جانے سے گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔ اسی طرح سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کے سلنڈر پھٹنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ محض گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران مختلف شہروں میں درجنوں افراد ایسے واقعات میں جانیں گنوا چکے ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق یکم جون سے اگست کے آخر تک بیس سے زائد افراد گاڑیوں کے سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیںاور پچاس کے قریب آگ میں شدید جھلس جانے کی وجہ سے زخمی ہیں جن کا علاج جاری ہے۔

دنیامیں شایدپاکستان ایک واحد ایسا ملک ہے جہاں بغیر کسی روک ٹوک کے کسی بھی علاقے سے، کسی بھی طرح کا سلنڈر منگوا کر، کسی بھی شخص سے اپنی گاڑی میں لگوایا جا سکتا ہے۔اور اس کی ری فلنگ بھی کوئی مسئلہ نہیں جگہ جگہ اس مقصد کے لیے پوائنٹ(دکانیں )موجود ہیں۔ سلنڈر کے پھٹنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ استعمال میں لایا جانے والا سلنڈر باقاعدہ منظور شدہ کمپنی یاادارے کا نہیں بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر روس،جاپان،چین،اور انڈیا سے سکریپ کی شکل میں لایا جاتا ہے یا پھر اسمگلنگ سے پاکستان لایا گیاجس کو کسی بھی لیب سے یا متعلقہ ادارے سے اس کے معیاری ہونے کی تصدیق نہیں ہوتی۔مالکان گاڑیوں میں گلی محلے میں بیٹھے مستری سے یہ سلنڈر فٹ کراتے ہیں،ایسا عام طور پر گاڑی مالکان پیسے بچانے کے چکر میں کرتے ہیں ان کی ذاتی جیب پر زیادہ بوجھ نہ پڑے چاہیے کسی ایک یا بہت سے لوگوں کی جان چلی جائے ۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی لسٹ کے مطابق صرف پانچ کمپنیاں ایسی ہیںجنہیں ایل پی جی سلنڈر تیار کرنے کی اجازت ہے کچھ کو صرف ایل پی جی کے پارٹس آلات بنانے کی اجازت ہے۔ ان تمام مینوفیکچرز کی ایل پی جی سلنڈر کی تیاری کی استعداد کار کے بارے بھی معلومات لی گئی ہیں ۔وہ اس قدر نہیں کہ جو اس وقت پاکستان میں زیر استعمال سلنڈر ہیں۔ گیس کی قلت کے باعث اب حکومت نے سی این جی کٹس کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ مالکان نے ایل پی جی سلنڈر لگانا شروع کردیئے جو کہ غیر قانونی بھی ہے ۔ایل پی جی سلنڈر کی حامل گاڑیاں چلتے پھرتے بم ہیںاور جب یہ بم بلاسٹ ہوتا ہے تو پھرلوگ مرتے ہیں۔اس کے باوجودہماری حکومیتں اس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے تاحال موثر قسم کی قانون ساز ی نہیں کی۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے ایل پی جی کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے جس کے مطابق اب بس، ٹرک اور ویگن کے علاوہ رکشا اور موٹر سائیکل موٹر سائیکل رکشامیں یہ گیس استعمال نہیںہوسکتی۔ اوگرا، نے یہ پابندی انسانی جانوں کے ضیاع اور حادثات کو روکنے کے لئے عائد کی اس کے باوجود اس کے استعمال کو روکا نہیں جاسکا ۔

سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایل پی جی سلنڈر کا زیادہ استعمال طلبہ کے لئے اسکول ٹرانسپورٹ میں ہورہا ہے ۔ اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر مزدورں کے استعمال میں آنے والی گاڑیوں اوراسی طرح کھیت سے منڈی تک چلنے والی گاڑیوں کا نمبر ہے عام طور پر شہر اور گردونواح میں چلنے والی گاڑیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر سے بچ جاتی ہے ۔ اور زیادہ تر سلنڈر پھٹ جانے کے واقعات بھی سکول وین،فیکٹری وغیرہ کی شفٹ کی پک اپ ڈالا اور منڈی سے نکلنے والی گاڑیاں ویگن ،پک اپ وغیرہ شہر میں چلنے والے رکشازکے ہیں ۔ ان گاڑیوں میں لگے سلنڈر جو کہ کسی بم سے کم نہیںان کے پھٹنے کا ہر وقت خطرہ موجود ہے ۔

گیس سلنڈر کا پبلک گاڑیوں میں استعمال اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے حادثات کوئی نئی بات نہیں جیسا کہ اوپر اس ذکر کیا جاچکا ہے ۔سال 2013 میںاس پر پاکستان میں پہلی بار عدلیہ اور حکومت سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے نوٹس لیاجب 26 مئی کے دن گجرات میں ایک سکول وین دھماکہ سے اڑ گئی جس کے نتیجہ میں سکول ٹیچر اور معصوم طالب علموں 15 لوگوں کی جان چلی گئی۔پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کی رٹ پٹیشن پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار چوہدری نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت کاروائی کی حادثے کا ذمہ دار صرف ڈرائیور نہیں بلکہ گاڑی مالک،سکول مالک ،اور وزارت پیٹرولیم و گیس،آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی،سیکرٹری آر ٹی اے ،MVE ،ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور پولیس سمیت کئی اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھرایا گیا آئندہ کے لیے لائحہ عمل اور قانون سازی کرنے اور اس پر یقینی عملدآمد کے احکامات جاری ہوئے تھے۔فوری طور پر چند اقدامات کئے گئے جس کا مقصد شاید عدالتی حکم کے تحت اس تناظر میں تھے مطمئن کیا جاسکے۔ عدالت کو نظرکے سامنے سے گذرانے کی خاطر کچھ کرنا ،کسی کو مطمئن کیا جانا ایسا تو ایک عرصہ سے اس ملک میں ہورہا ہے۔ اگر اسی طرح کا سلسلہ جاری رہا تو حالت کے بدلنے کے بجائے مزید خراب ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کے لیے ایسے حادثات سے بچنے کی خاطر سنجیدہ اور فوری اقدامات کئے جائیں ۔وقتی اورعارضی کا رویہ ترک کیا جائے ۔ اس سلسلے میں (موضوع بالا) پہلے سے موجودقوانین پر سختی سے عمل اور مزید قوانین بنائے جائیں ۔ ایسے حادثات میں صرف گاڑی کے مالک اور ڈرائیور کے خلاف نہیں ان تمام اتھارٹیوں اور اداروں کے ذمہ داران کےخلاف بھی سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔

فوری کرنے کے کام یہ ہیں کہ سڑکوں پر دوڑنے والی تمام پبلک ٹرانسپورٹ سے ہمہ قسم کے سلنڈر اتارے جائیں ٹارگٹ مقرر کیا جائے اور اس ٹارگٹ کو پورا نہ کرنے والے افسران و اہلکاران کو نوکری سے برخاست کیاجائے۔تمام پبلک ٹرانسپورٹ کی فٹنس کو از سرے نو چیک کیا جائے اور دور حاضر کے تقاضے کے تحت اس کو رکھا جائے۔ گاڑی کے ڈرائیور اور دیگر عملہ کی ذہینی حالت کا بھی سرٹیفیکٹ از سرے نو جاری ہو۔ایل پی جی سلنڈر کی کھلے عام فروخت اور اس کی ری فلنگ کو ہر صورت ختم کیا جائے۔خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزاءاور جرمانہ عائد کیا جائے ۔ عام پبلک میں شعوری بیداری کی خاطر اس سلسلے میں ایک ملک گیر مہم شروع کی جائے۔
riaz jazib
About the Author: riaz jazib Read More Articles by riaz jazib: 53 Articles with 58665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.