اسکول بنا مقتل

کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ کے ایک اسکول میں افسوناک واقعی رونما ہوا میٹرک کے لڑکے نے اپنی ہی جماعت کی لڑکی کو گولی مارنے کے بعد خود کشی کرلی یہ سب کچھ کلاس روم میں ہوا جب تمام طلبہ طالبات اسمبلی ہال میں تھے اور نمروز صباء کے ساتھ کلاس روم میں

جو ہوا وہ ہونا تھا مرنے والے مر گئے والدین پر غم کے پہاڑ ٹوٹ گئے کچھ بیت گیا کچھ بیت جائے گا وقت کے ساتھ غم ہلکا ہوجائے گا

لیکن اسکول کالجز یونیورسٹیز جی ہاں تعلیمی اداروں میں یہ سب کیا ہورہا ہے کتنی آسانی سے دو چراغ گل ہوگئے یہ تو ایک وقعہ ہے جو میڈیا کا رونق بنا اس سے پہلے کیا کچھ ہوا اس ملک کے تعلیم گاہوں میں عزتیں لوٹ کر صنف نازک کو روڈ پر پھینکا گیا کتنے درندہ صفت لوگ طلبہ طالبات یہاں تک کہ اساتذہ کی شکل میں تعلیمی اداروں میں آئے اور درسگاہوں کی عزت کو پامال کر کے چلتے بنے مگر کیا ہو کچھ نہیں کچھ بھی نہیں

نمروز اور صباء قتل میں ایک خط ملا جو صباء بنام والدین ہے اس خط میں والدیں سے معافی کے ساتھ نمروز کے ساتھ محبت کا اظہار اور ناکامی پر خودکشی کی نوید بھی سنائی گئی-

اول تو اس کہانی پر بات ہوجائے نمروز نے صباء کو گولی مار کر خودکشی کی ہے اور خط میں صباء کہتی ہے میں خودکشی کر رہی ہوں اول تو خط کے ساتھ نمروز اور صباء کا ہینڈ رائٹنگ کا جائزہ لیا جائے-

یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ دونوں اسمبلی ٹائم میں کلاس روم کیسے گئے اور پسٹل اسکول کے کلاس روم تک کیسے لے جایا گیا کہیں لڑکی کو انکار محبت پر دھوکہ سے قتل تو نہیں کیا گیا یا پھر لڑکے کے ساتھ لڑکی نے کوئی ھاتھ تو نہیں کیا-

اب آتے ہیں اسکول کی طرف اسکول نام ہوتا ہے طالب علم اور استاد کا نہ کہ کسی عمارت یا بلڈنگ کا-

محبت کے نام پر بےحیائی کا گرم بازار ہر اس جگہ جہاں مخلوط نظام ہے لڑکے لڑکیاں ایک ہی کلاس روم میں اپنا وقت اور والدین کا پیسہ برباد کرتی نظر آتی ہیں-

خدا کے لئے اس مخلوط نظام تعلیم کو ختم کر کے لڑکے لڑکیوں کے لئے الگ الگ درسگاہ بنا کر ملک پاکستان کے ٹیلنٹ کو تباہ ہونے سے بچایا جائے-

کیا دیا اس مخلوط تعلیم نے یہی کہ عادل نے اسکول چھوڑ دیا اس وجہ سے کہ وہ ٹیچر کیا تعلیم دیگی ہمیں جو جیںز کے شرٹ پہن کے اسکول آتی ہو-

عبدالوحید اس لئے جامعہ کراچی سے واپس آیا کہ لڑکیوں نے اس پر آوازیں کسی اور جامعہ کراچی کی لڑکیاں کینٹین میں کھڑے ہو کر لڑکوں کی طرف فحش اشارے کریں-

ایک نجی اسکول کی ٹیچر انٹرویو کے لئے آنے والے استاد کا موبائل نمبر پرنسپل کے ڈائری سے نوٹ کرلے یہ تو چند چشم دیدہ واقعات ہیں نہ جانے اور کیا کیا ہوا میرے وطن کے تعلیم گاہوں میں-

اساتذہ کی ذمہ داری ہے طلبہ پر نظر رکھے نصابی غیر ںصابی معاملات میں افسوس کی بات ہے لڑکا لڑکی اسمبلی ٹائم میں کلاس روم میں ہیں اور کسی کو معلوم تک نہیں انجام کیا پھول نے پھول کو مسل ڈالا-

اگر ان پر نظر ہوتی سمجھا دئے جاتے تو یہ سب نہ ہوتا جی ہاں جب میتھ کی کلاس میں ٹیچر ندا نے طالب علم سے موبائل لیا اور کس کے دو تھپڑ رسید کئے بعد میں بلا کے سب نے اسکو سمجھایا بیٹا آپ کے بابا پیٹ پر پتھر باندھ کے آپ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہیں اور آپ کلاس کے دوران میسجز میں مصروف ہو خدا کے ہاں کیا جواب دو گے ڈانٹ ڈپٹ کے اس کی زندگی بدل گئی-

والدین کی کیا ذمہ داری ہے اولاد پر کنٹرول اور استاد کی ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کی شکایت پر اپنے بچے کو سمجھانا کہ استاد آپ کا دوست ہے سزا میں آپ کے لئے بہتری ہے اگر سزا کی شکایت پر اسکول جا کر استاد کی بیعزتی کریں گے تو انجام نمروز اور صباء ہوگا-

اس کے ساتھ پاکستان سے محبت سچی محبت اور اسلام اور پاکستان کے دشمن سے نفرت ضروری ہے ہم زبان سے تو انڈیا کو دشمن کہتے ہیں مگر انکی فلمیں ڈرامے دیکھ کر انکی اکانومی کو فائدہ رسائی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور کبھی اسکو سوچتے بھی نہیں ان فلموں ڈراموں کے دیکھنے کا ثمر کیا ملتا ہے اور کچھ نہیں بس انجام نمروز اور صباء ہوتا ہے-

مدارس دینیہ میں کیوں یہ سب ممکن نہیں ہوتا وپاں کیوں انسان بنا کرتے ہیں اس لئے کہ وہاں کا نظام محمد رسول اللہ کا رائج ہے اور یہاں کلاس بنتے ہیں مقتل کیوں کہ نظام لارڈ میکالے کا پروان چڑھا ہے-

اللہ کا واسطہ پاکستان کی حفاظت کرلو اس دھرتی کو پیار دو یہاں کے پھولوں کو اب اللہ کے لئے نمروز اور صباء والے راستے سے روک لو عوام اور حکمران سب سے دست بستہ گزارش ہے میری تعلیمی ادروں کو مقتل بننے سے بچاؤ-
M.ABID Ahsani
About the Author: M.ABID Ahsani Read More Articles by M.ABID Ahsani: 16 Articles with 15900 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.