بھارت مسلسل پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کررہا ہے کبھی
لائن آف کنٹرول کے اوپر فائرنگ کرتا ہے کبھی ورکنگ باؤنڈری کے اوپر۔ ریت تو
یہ بہت پرانی ہے اور خاص کر ہمارے مذہبی تہواروں اور قومی دنوں پر وہ بزدلی
اور بر بریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتی عام سول آبادی کے اوپر فائرنگ کرتا
ہے اور خود کو بڑاسورما سمجھتا ہے۔ اب کی بار بھی اگست کے مہینے میں مسلسل
وہ یہ کاروائی کررہا ہے۔ اٹھائیس اگست کو جمعہ کے روزاس نے پھر اسی کمینگی
کا مظاہرہ کیا اور سیالکوٹ میں ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس
میںآٹھ افراد شہید اور تقریباًساٹھ زخمی ہوگئے جن میں سے گیارہ شدید زخمی
ہیں کئی مکانات کو نقصان پہنچا مال مویشی ہلاک ہوگئے اور بھارت نے بہادری
کا تمغہ سجا لیا۔ اس نے صرف اگست کے مہینے میں پچیس بار یہ خلاف ورزی
کی۔اکثر اوقات وہ یہ کاروائی سول آبادی پر کرتاہے اورپاکستانی فوج کا
بھرپور جواب بھارتی بندوقیں اور توپیں خاموش کرادیتا ہے اگر چہ پاکستانی
سیاسی اور فوجی قیادت اس پر سنجیدگی اورتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات
کو پرامن طور پر سلجھانے کی کوشش کرتی ہے لیکن لگتا ایسا ہے کہ بھارت نے
امن کی خواہش کو کمزوری سمجھناشروع کردیا ہے اور اسی لیے وہ اپنی کاروائیوں
کی شدت میں اضافہ کردیتا ہے۔ بہرحال اس بار فوجی اور سول دونوں قیادتیں
بولیں اور خوب بولیں وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا اگر بھارت نے مجبور کیا تو
وہ اپنے تمام پرانے نقصانات بھول جائے گا۔ سپہ سالار راحیل شریف کاتو صرف
اشارہ ابروہی کافی ہے فوج تو فوج پوری قوم ان کے ایک اشارے پر اٹھ کھڑی
ہوگی۔ بھارت نے اپنی بزدلانہ حرکات کے لیے چنا تو اگست کا مہینہ ہے جس میں
اس نے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن ستمبر شروع ہو چکاہے وہی ستمبر
جس میں اس نے آج سے پچاس سال پہلے لاہور پر حملہ کیا تھا، چور چوری کے لیے
رات کا وقت پسندکرتا ہے لہٰذا اس نے بھی ایسا ہی کیا اور چند قدم اندرآنے
پر ا سوچا کہ بس لاہور تو اس کے قبضے میں آگیا لیکن پاکستانی فوجی سونے سے
بیدار ہوئے تو چند لمحے آنکھیں مسلنے میں لگائے اور پھر قہر خدا بن کر ٹوٹے
تو نہ ہندو اس کے سامنے ٹھہرسکا نہ ہندوستان۔ لاہور کا محاذتو خیر وہ کیا
یادکریں گے سیالکوٹ سیکٹرمیں حملے کے وقت اگر وہ ادھر ہی آس پاس کہیں چونڈہ
یاد کرلیتا تو اچھا ہوتا جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی
لڑائی لڑی گئی اور بھارت نے اپنے کم ازکم ایک سو بیس ٹینک د ودن کی لڑائی
میں کھودیئے ۔ بھارت جنگ ستمبر میں بھی اسی زعم میں مبتلا ء تھا کہ پاکستان
اس کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگا لیکن پاک فوج نے صرف بھارت ہی نہیں پوری دنیا
کو حیرت میں ڈال دیا کہ اپنے سے کئی گنا بڑے ملک اور بڑی فوج کا مقابلہ
کیسے کیا جاتا ہے بلکہ کیسے اسے ہزیمت سے دوچار کیا جاتا ہے ۔1965 میں
دوسرے محاذوں پر بشمول سیالکوٹ شدید چوٹ کھانے کے بعد بھارت اقوام متحدہ
اور امریکا کے پاس پہنچ گیا کہ جنگ بندی کروائی جائے اب بھی اقوام متحدہ کے
مبصر پاکستان آئے امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس بھی پاکستان
آئیں ان سب نے دیکھا کہ بھارت نے کس طرح جارحیت کرکے نہتے شہریوں کو نشانہ
بنایاہے۔ پاکستان نے مبصرین کو یہ تباہی دکھاکر دراصل بھارت کو یہ پیغام
بھی دیا ہے کہ دنیا کو یہ سب کچھ دکھانے کے بعد اب پاکستان ہر قسم کی جوابی
کاروائی کا اپنا حق کسی بھی وقت استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تو مروجہ
اصولوں کے مطابق با لکل درست طریقہ اختیار کیااور بھارت کو بتا بھی دیا کہ
اُس کی مزید مہم جوئی برداشت نہیں کی جائے گی اور یہ بھی کہ پاکستان جواب
دینے کی مکمل صلاحیت اور وسائل رکھتا ہے لیکن کیا بھارت اپنے رویے میں کوئی
تبدیلی لانے کو تیار ہوگا یا ستمبر 1965کی غلطی پھر دہرائے گا۔کہنے کو تو
دنیا بہت آگے نکل چکی ہے جہاں سرحدوں کا تبدیل کرنا مشکل نہیں نا ممکن ہے
ہاں اگر کوئی خطہ کسی ملک کے ناجائز تسلط سے آزادی حاصل کر لے اور ایک نیا
ملک بن جائے تو اور بات ہے یا کشمیر جیسی کوئی ریاست بھارت جیسے غاصب سے
آزادی حاصل کر لے تو تب ہی دنیا اور ملکوں کے نقشے تبدیل ہوتے ہیں پھر
بھارت آخر کیا سوچ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے ۔ اسے اب اپنا رویہ
تبدیل کرنا ہو گا اور اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان ایک اٹل حقیقت
ہے اور ایک مضبوط ایٹمی قوت بھی جو بھارت کی ہر جارحیت کا جواب دے سکتا ہے
اور اگر اس نے ایک بار پہلے بھی کم جنگی وسائل اور کم افرادی قوت کے ساتھ
بھارت کو مجبور کردیا تھا کہ وہ صلح کروانے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ
کے پاس دوڑا گیا تھا تو اب وہ ایک مستحکم ایٹمی قوت ہے لہٰذا نہ صرف اپنے
وجود کی حفاظت کرسکتا ہے بلکہ دوسرے کو زیادہ سخت سبق سکھانے کی بھر پور
صلاحیت بھی رکھتا ہے- |