خضرِ راہ

ایک دو تین چار پانچ۔۔!
میں سیڑھیاں گنتے گنتے چڑھتی چلی جاتی۔ ایک جیسا کسی بھی سیڑھی کا پائیدان نہ ملتا۔ ہر ایک دوسری سے منفرد۔۔ اپنی پہچان بناتے ہوئے مختلف زاویے سے بنی ہوئی گولائی میں گھومتی وہ دوسری منزل پہ پہنچ جاتیں۔ کبھی ان کی گنتی انیس ہوتی اور کبھی بیس۔۔۔۔ اورسیڑھیاں ختم ہوجاتیں۔ مسکراتے ہوئے چھت پہ پہلا قدم دھرا جاتا تو سب سے پہلے نیلا آسمان واضح ہوتا۔ جس پہ کہیں کہیں پتنگیں اڑتی دکھائی پڑتیں۔ کوئی پرندہ نظر آ جاتا۔ کبھی کوا کائیں کائیں کرتا سر سے گزر جاتا۔ پہلے منظر میں اردگرد کے گھرچھوٹی بڑی پہاڑیوں کی طرح نمودار ہوتے۔ چاروں اور ایک سرسری نگاہ ڈالتی۔ وہی روز والا نظارہ۔۔۔ ! پہلے تو جس کام کے لیے چھت پہ آتی وہ انجام دیتی۔ دھلے کپڑے پھیلانے ہیں یا کچھ اور۔۔اس کے بعد فوارہ اٹھا کر ٹینکی کا نل کھول کر اس میں پانی بھرتی، چھت پہ رکھے رنگ برنگے پھولوں والے پودوں کو پانی دیتی۔ فوارے سے پانی دینا مجھے بہت بھاتا تھا۔ کرشمہ سا لگتا جب وہی عام بے رنگ سا پانی فوارے کے ان گنت سوراخوں سے گزر کر اک نیا جھلملاتا خوبصورت منظر پیدا کر دیتا۔ میں اس میں اور بھی جدت پیدا کر دیتی اورفوارے کو جھلا جھلا کر پانی ڈالتی۔ میرے سامنے منظر در منظر پیدا ہوتے۔ ساتھ یہ بھی سوچتی کہ آنگن میں پھول کھلے تو سب دیکھتے ہیں پَر امی جان کو چھت پہ پھول کھلانے کی کیا سوجھی۔ نیچے آنگن میں کیاری در کیاری گلاب کھلے ہیں۔ لیکن عام گملوں سے ہٹ کر جب ایک بڑے ڈرم نما میں ایستادہ لیموں کے چھوٹے سے درخت کی طرف آتی تو اس پہ لگے ہرے ہرے لیموں مجھے کچھ اور ہی کہانی سناتے۔ کھٹے کھٹے لیموں، لیموں کا اچار، لیموں پانی۔۔ چھت کی دیوار کے پار گھر کے باغیچے میں لگے آم کے اونچے لمبےدرخت کی شاخیں، ڈالیاں نظر آتیں۔ جو چھت کے صحن پہ امڈتی آتیں۔ درخت پہ لگے بُور، ان میں جھلکتی کچی کچی امبیاں اور لیموں کے پودا نما درخت پہ چھوٹے چھوٹے لیموں مجھے قدرت کی صناعی اور امی جان کے شوقِ باغبانی کا نظارہ دیتے(انھیں دیکھ کر منہ میں پانی آنے لگتا) پھر میں اپنی جگہ پہ گھوم جاتی۔

ایک طرف وہی گھر ہوتے جن کے درمیان میں سے کبھی بادشاہی مسجد کا ایک مینار نظر آیا تھا اور اچانک خوشی کا منبع ثابت ہوا تھا۔ لوگوں کے گھروں کی چھتوں پہ ٹی وی انٹینا موجود تھےجو کسی کسی جگہ اب سیٹلائیٹ ڈش میں بدلنے لگے تھے۔ البتہ ساری چھتوں پہ ایک چیز باجماعت نظر آتی۔ پانی کی ٹینکی کے نیلے نیلے ڈرم ۔۔۔۔ بہت کم ہی کسی جگہ کالی ٹینکی نظر آتی۔ میں سوچتی دو رنگ ہی کیوں۔۔؟ یہ بھی ہر رنگ میں ہونی چاہیئے تھی یوں ہر گھر کی چھت پہ قوسِ قزح نظر آتی۔

ایک طرف کا منظر بہت پُررونق تھا۔ نیچے مارکیٹ تھی۔ سبزی، گوشت، دودھ دہی کی دکانیں، جنرل سٹور۔۔ ضرورت اور سامان عیش و عشرت کے سب لوازمات موجود۔ پیٹ پوجا سے لے کر میک اپ، ڈیکوریشن، ٹیلرز، کپڑوں کی دکانوں پہ ہمہ وقت گہما گہمی لگی رہتی تھی۔ اس لیے فضا کبھی خاموش محسوس نہ ہوئی۔ کانوں میں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ پڑتا رہتا۔ کبھی چڑیا کی آواز تو کبھی کوے کی، کبھی بچے کے رونے کی آواز، کبھی لوگوں کی آوازیں، کئی بار اچانک میاؤں میاؤں کی آواز کے ساتھ بلی نمودار ہو جاتی اور منظر بے سُرا لگنے لگتا۔ میں اسے بھگانے کی کوشش کرتی۔ اگرکبھی گھر کی منڈیر پہ کوا آ بیٹھتا تو میں فورا اپنا دوپٹہ لہرا کر کبھی ہاتھ میں پکڑی کتاب یا کسی چیز سے اسے ڈرا دھمکا کر اڑا دیتی۔ ادھر امی کا فقرہ منہ میں ہی رہ جاتا،
کوا بول رہا ہے آج ضرور کوئی مہمان آئے گا۔۔؟:
میں مسکا دیتی کہ اب تو آنے والا آدھے راستے سے لوٹ جائے گا۔۔!
ویسے بھی اگر آنے والے نے اپنے آنے کی اطلاع خط، تار، فون سے نہیں کرتی تو اسے پیغام رساں بنانے کو کوا ہی ملا تھا۔ اس کی جگہ بُلبل ہوتی جوسر پہ تاج اور پاؤں میں گھنگھرو باندھے، چھن چھن کرتی ، گاتے، مٹکتے ہوئے پیغام لے کر آتی، چھم سے آم کی ڈال پہ بیٹھتی، بُور کی خوشبو سونگھتی، کچے آم پہ چونچ مارتی۔ کوئل کی طرح کوہو ،کوہو کا راگ الاپ کر کہتی،
کہتی ہے جھکی جھکی نظر دی ہے دھڑکتے دل نے خبر
کوئی پیار لے کےآج آئے گا آج کوئی آئے گا
منظر رومانی ہو جاتا تو آنے والے کا انتظار جی جان سے شروع ہوسکتا تھا۔ واللہ،ہم اس کے رستے میں نظریں بچھا کر بیٹھ جاتے۔۔!
بھائی کو جتنا چھوٹے چھوٹےچوزوں، پرندوں، جانوروں سے لگاؤ تھا۔ مجھے اتنی ہی چڑ تھی۔ اس لیے میں کبھی ان کے شوق کو بڑھاوا نہ دیتی۔ نہ ہی اس معاملے میں اپنی خوامخواہ کی خدمات پیش کرتی۔ اس شوق میں امی اور بھائی کی پارٹی ایک تھی۔ میں اکیلی ایک طرف اور ابو درمیان میں ۔۔ ابو کبھی تو ان کا ساتھ دے دیتے لیکن زیادہ میری طرف ہوتے۔ اس لیے شکر ہے گھر ۔۔ پیارا گھر۔۔ چڑیا گھر نہیں بننے پایا۔ اُن دو فریقوں کا شوق مرغی، چوزوں تک ہی محدود رہا۔ مجھے بڑی چڑ اٹھتی جب مرغی کے نیچے انڈے رکھے جاتے اور دن گنے جاتے۔ انتظار اور انتظار کی کیفیت کیا ہوتی ہے یہ بچپن میں ہی اس دلِ ناداں نے جان لیا تھا۔ پہلا ہفتہ تو آرام سےگزر جاتا، دوسرے ہفتہ گھر میں کچھ جذباتیت سی محسوس ہونے لگتی۔ تیسرے ہفتے تو واقعی لگنے لگتا کہ گھر میں کوئی آنے والا ہے۔۔ گھر کے کسی کونے میں دھرنا مارے بیٹھی مرغی کی اہمیت سب کی نظروں میں بڑھ جاتی۔ کوئی قریب جا کر اس کا دیدار کرنے کی کوشش کرتا تو وہ کُٹ کُٹ کر کے کھانے کو پڑتی۔ مجھے وہ اسی وقت ایک غالب لگنے لگتی۔ اس کا موڈ دیکھ کر میں اور بھی منہ پھیر لیتی۔ ہونہہ ۔۔!
چھت پرایک طرف کے منظر میں آم کے درخت ہی درخت نظر آتے، جو سب گھروں کے آگے لگے تھے۔ آم پھلوں کا بادشاہ ہے اس بادشاہ کی اہمیت بچپن میں ہی دیکھ لی گئی۔ حیرانی کی بات تھی۔ تمام لوگوں کے گھر کے باغیچے میں آم کے درخت جلوہ افروز تھے اور آنگن میں امرود کے درخت ۔ موسم آنے پر کسی گھر لال لال امرود باجماعت اترتے اور کسی گھر سفید امرود۔۔ سفید امرودوں والے ہمیشہ ان سے شاکی رہتے۔۔ ان کی نظریں لال امرودوں پہ گڑی رہتیں۔ ادھر آم کے درخت ویسےبھی امردود کے درخت کوتڑیاں لگاتے نظر آتے۔۔
مقابلہ ہم سے نہ کرو ہم تمھیں اپنے رنگ میں رنگ ڈالیں گے ایک ہی پل میں
ہمارے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے ہمارے سامنے تو سورج بھی ہاتھ ملتا ہے
اس منظر کو ایک گھر میں لگا انار کا درخت اور دوسرے گھر میں لگی انگوروں کی بیل متوازن کرتی۔ سفید امردوں کے مالکان ترچھی نظروں سے انھیں دیکھتےرہتے۔۔۔
چھت پہ صبح کا وقت بڑانواں نکور پاکیزہ لگتا۔ جب سورج آہستہ آہستہ نکلتا، فضا میں اک نرمی ہوتی۔ دھندلے منظر میں بھی اِک مزہ ہوتا۔ جیسے ہولے ہولے کوئی پردے سے باہر آ رہا ہو۔ دھوپ کی تیزی، تندہی دوپہر کو ہوتی۔ جب پرندے درختوں کی شاخوں میں چھپ جاتے اور دکاندار، دکانوں کے شٹر گرا کر اس میں استراحت فرماتے۔ شام ہوتے ہی سب اپنی اپنی جائے امان سے نکل آتے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ دوبارہ شروع ہو جاتی اورلوگوں کی گہماگمی برقرار۔ اس ماحول میں موسیقی کبھی تانگےگھوڑے کی تھا تھیا تھیا سے پوری ہوتی، کبھی رکشہ پھٹ پھٹ کرتا گزر جاتا۔ موٹر سائیکل، سکوٹر تو سارا دن ہی سڑکوں پہ زون زون دندناتے پھرتے۔ بےچاری سڑک کو کبھی آرام نہ ملتا۔
چھت پہ ایک اور چیز خوب رنگ بھرتی، جب لوگ کپڑے دھو کر چھت پہ لا پھیلاتے۔ اور اتنے بے ڈھنگے انداز سے پھیلاتے کہ وہ پورے جہاں میں حشر نشر ہو جاتے۔ الگنی پہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ لوہے کی سیڑھی اور دیواریں بھی اس کام آنے لگتیں۔ ویسے تو ہر ایک کو اپنے گھر کی پرائیویسی اور بےپردگی کا بڑا خیال رہتا۔ لیکن یہ نہ سوچتے کہ وہ موٹے لطیف کی شلوار کی ایک ٹانگ دیوار پر ہے اور اس کی دوسری ٹانگ رشید صاحب کے گھر میں اتری جا رہی ہے۔ اور اس گھر کی عورتیں اگر لطیف صاحب سے پردہ کرتی ہیں تو اس کی اترتی ٹانگ دیکھ کر چہرہ چھپا کر دوپٹے کی اوٹ میں کھی کھی کھی کر سکتی ہیں۔ لوگ اس معاملے میں ذرا بھی احتیاط نہ برتتے۔ لہذا بیگم کی کمر سےچست فیشنی قمیض، صاحب کی شلوار، بچوں کے رنگ برنگے جوڑے دور سے ہی اپنا اپنا جلوہ دکھاتے۔ کپڑوں کو چٹکیاں بھی کم ہی لگائی جاتیں۔ دیوار پہ کپڑے پھیلا کر اس پہ اینٹ رکھ دی جاتی۔ کئی بار وہ اینٹیں بھی ختم ہو جاتیں۔ اس لیے ہماری گنہگار نظروں نے کئی بار کپڑے اڑتے اور انھیں دوسروں کے گھروں میں گرتے دیکھااور آندھی میں کپڑے گم ہوتے بھی۔۔!
بلندی پہ جا کے نیچے دیکھنا بھی کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔ بندہ پڑوسیوں کے گھروں کے بارے میں جان سکتا ہے۔ جن سے کئی روز سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ چھت سے ایک نظر ان کے گھر پہ ڈال کے حال احوال کاپتہ چلایا جا سکتاہے۔ سوایک طرف تو اپنے ہی گھر، باغیچے کا نظارہ ملتا، دو اطراف لوگوں کے گھروں کا اور چوتھی طرف کے سین کو ان نظاروں کی جانِ جاناں کہا جائے تو اچھا ہے۔ جب درمیان میں دو گھروں کے بعد ایک بڑا سا پیپل کا درخت نظر آتا۔ خوب اونچا، لمبا اور چوڑا بھی۔ جس کا بڑا رعب نظر آتا۔ آم اور امرود کے درخت اس کے آگے پانی بھرتے۔۔ پان کے پتوں کی طرح اس کےبھی چوڑے چوڑے دل کی ساخت کےپتے ہوتے۔ ہرے ہرے پتے۔۔ جو ذرا سی ہوا چلنے پر زرق برق لہرانے لگتے۔ کبھی یوں ساکت ہوتے جیسےکسی سے ناراض خاموش کھڑےہوں۔ آندھی میں تو یوں پھڑپھڑاتےجیسے طبلے پہ تھاپ دے دی ہو۔ ان کا شور علیحدہ دل کو دہلاتا۔ مٹی سے ان کا پیرہن مٹیالا ہو جاتا۔ آندھی کے بعد بارش برستی تو وہی پیپل کا درخت نہا دھو کر نیا سرسبز روپ لے لیتا۔ ویسے یہ اتنا مشہور تھا کہ لوگ اپنے مہمانوں کو گھر کاپتہ بتانے کے لیے اپنا نام کم اور پیپل کے درخت کا نشان زیادہ بتاتے۔ آنے والے بھی اسی کے سہارے پہنچ جاتے۔ مہمانوں سے جب پوچھا جاتا،
:بھئی، ٹھیک ٹھاک پہنچ گئے۔۔؟:
تو وہ اللہ کی مہربانی کے بعد پیپل کے مشکور ہوتے۔ جس نے اپنی اتنی بڑی پہچان دے کر ان کی آمد آسان فرما دی تھی۔ نیچے اس کے بہت سے تنے تھے جو آپس میں گڈمڈ ہو کر ایک جھمگٹا اختیار کر گئے تھے۔ اوپر جا کر ان کی شاخیں آپس میں یوں باہم گتھم گتھا تھیں کہ پتے بھی آپس میں پیوست ہو کر رہ گئے تھے۔ اس درخت کی چھاؤں بڑی گنجان تھی۔ پیپل نےخود ہی بہت سی جگہ گھیر لی تھی۔ پرجو تھی بھی اس میں بھی لوگ نہیں بیٹھتے تھے کہ اتنے بھاری درخت پہ کوئی سایہ نہ ہو۔ صد شکر کہ ایسا کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ پیپل نے ہمیشہ منظر میں رونق اور ہریالی کا احساس دیا، اسکی وجہ سے موٹر سائیکلوں، رکشوں کی پلوشن بھی کم ہوتی ہو گی۔ کاربن ڈائی آکسائڈ پی کر وہ آکسیجن چھوڑتا ہو گا۔ اس لیے اس کا وجود بےضرر لگتا۔ اسے کاٹنے کا خیال کبھی کسی کو نہیں آیا اور نہ کسی نے مشورہ دیا۔ورنہ اس کی جگہ بآسانی ایک گھر بن سکتا تھا۔
پیپل کے سامنے کشادہ، ہموار، کھلی، چوڑی ٹھنڈی سڑک تھی۔ جس پہ خوب گہماگہمی رہتی۔ زندگی کے ہر رنگ اس سڑک نے دیکھے۔ بہت سی باراتیں گھوڑی پہ سوار دلہا اور بینڈ باجے سے بجتی شہنائیوں کے ساتھ گزرتیں۔ بہت سے دولہا زرتارلڑیوں والے سہرے اور ہار پہن کر اس پر تفاخر سے گزرے۔ بہت سی دلہنیں ڈولی اورکار وں میں اس پہ خراماں خراماں وداع ہوئیں۔۔ بہت سے جوڑوں نے اس چمکتی، صاف شفاف سڑک سے گزر کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرزندگی کا نیا سفر شروع کیا۔ بس اب زیادہ دور نہیں۔ اس سڑک کو ہی پار کرنا ہے۔ جس کی دوسری اطراف بھی مختلف دکانیں ہیں۔ انھی کے ساتھ ہے وہ جس کے لیے اتنی مسافت طے کی ہے۔
سڑک کے پار انھی دوکانوں کے پیچھے ایک خوبصورت مسجد ہے۔۔ بہت بڑی خوبصورت مسجد، جس کا صرف ایک کونہ اس سڑک پہ نکلتا ہے۔ ویسے تو علاقے میں اور بھی کئی مساجد ہیں لیکن اس کی تو بات ہی اور ہے۔ یہ جامعہ مسجد ہے۔ پیپل کے درخت سے بھی بڑی نشانی۔ جب آنے والے مہمان سواری میں بیٹھے میزبان کے گھر کو کم اور جامعہ مسجد کو زیادہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور اللہ کے گھر کا نام لیتے لیتے منزلِ مقصود پہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ مسجد کچھ کچھ بادشاہی مسجد کی طرز پہ بنی ہے۔ کبھی کبھی مجھے اس کے طرزِ تعمیر میں تاج محل نظر آنے لگتا ہے۔ چار مینار اور ایک گنبد۔۔ ویسے ہے یہ سرخ اینٹوں سے بنی۔۔ اندر جانے کے لیے کئی کئی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ پھر کشادہ صحن، جس کے چاروں کونوں میں بلند و بالا مینار، جن میں ہر سمت کے لیے چار چار لاوڈ سپیکر نصب ہیں۔ وسیع برآمدہ اور برآمدے کے پیچھے بڑا ہال، جہاں نمازی نماز پڑھتے ہیں۔ جس میں خوبصورت قالین نما آرام دہ صفیں بچھی ہیں۔ جمعہ کے روز اور رمضان میں مسجد خوب بھری ہوتی ہے۔ عید کی نماز کے لیے یہ بھر جاتی ہے۔ مسجد کے باہر بھی لوگوں کی قطاریں لگ کر ہاؤس فل ہو جاتا ہے۔ نمازیوں کے لیے پانی کا بہترین انتظام ہے۔ آتے جاتے مسافر بھی اس میں گھڑی بھر رُک کر نماز و قیام کر لیتے ہیں۔ ایک طرف چند ایک چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہیں۔ روزانہ صبح فجر کی نمازکے بعد اور جمعہ کی نماز سے پہلے واعظ کلام ہوتا ہے۔ بچوں کو سپارہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔
مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہیں۔ چھت پہ مسجد کا ایک اور وسیع صحن نظر آتا ہے۔ جس پہ اکثر سپارہ پڑھنے والے بچے بھاگتے دوڑتے، کبھی پتنگیں لوٹتے نظر آتے ہیں۔۔ چھت پہ آ کر اردگرد کا منظر جیسے سب پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ نماز کے وقت مسجد کے سپیکر اذان کی آواز سے گونج اٹھتے ہیں۔ مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہمہ سمت فضا اذان کی آواز سے بھر جاتی ہے۔ اوپری صحن کے کونے میں وہ موجود ہے۔ جو کسی کو کسی سے ملاتا ہے۔ اس کی اور جانے کی راہ وضع کرتا ہے۔ راستے کی صعوبتوں کے بعد منزل کی نوید دیتا ہے۔
وہ کونے میں نظر آتی جھونپڑی نما کٹیا ۔۔
اسی کے اندر ہے وہ ہمارا تمھارا ۔۔ خضرِ راہ ۔۔!
جی ہاں، امام مسجد۔۔ مولوی صاحب، جو صرف اللہ اور اللہ والوں کی باتیں بتانے اپنی کٹیا سے باہر آتے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور شہادت کی انگلی سے اوپر تمام کائنات کے مالک، آسمانوں اور زمینوں کو بنانے والے کی لا مکاں، لا محدود، منظروں کے منظر بنانے والی ہستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئےصراط ِ مستقیم پہ چلنے اور اس کی ڈور تھامے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53270 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More