ہمارے ہاں تعلیم کا شعور بڑھ رہا ہے ، مگر آج نہ وہ استاد
ہیں اور نہ ہی وہ شاگرد نظر آتے ہیں۔استاد جن کے کردار کے حصار سے شاگرد
ساری زندگی نہ نکل سکتا تھا،جس کے اٹھنے،بیٹھنے ،باتیں کرنے ، پڑھنے اور
پڑھانے کے طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا فخر سمجھتا تھا،آج وہ نا
پید ہے۔اسی لئے تعلیم و تربیت اس نہج پر پہنچ چکی ہے، جہاں بڑی ڈگریاں لے
کر بھی جہالت سے باہر نہیں نکل سکے۔ہم انسانیت، محبّ الوطنی اور اقدار و
افکار سے بہت دو رہو چکے ہیں۔ہم ان کی نقل کر کے فخر محسوس کرتے ہیں جو
ایسی دلدل میں دھنس چکی ہیں جہاں سے انہیں باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل
رہا۔ہم اس مقام پر کیوں پہنچے……؟اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان میں سے سب
سے بڑی وجہ با کردار استاتذہ کا فقدان ہے۔طلبائکی تعلیم و تربیت میں اساتذہ
کا اہم کردار ہوتا ہے اور اگر استاد ہی با کردار نہ ہو تو تعلیم و تربیت
ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ بچے کی تعلیم وتربیت میں والدین کے بعد سب سے بڑا
کردار استاد کا ہوتا ہے۔
قدیم دنیا کا سب سے مشہور فاتح سکندر اعظم تاریخ کے غیر معمولی ترین افراد
میں سے ایک تھا، سکندر نے ایک ایسی سلطنت تشکیل دی ،جس کی مثال تاریخ میں
بہت کم ملتی ہے۔ اس وقت کی زیادہ تر معلوم دنیا اس کے زیرِنگیں ہوئی اور
30سال کی چھوٹی عمر میں وہ زبردست لیڈر بن کر سامنے آیا۔سکندر کی عظیم
فتوحات اور کامیابیوں کی بنیادی وجوہات میں دو بہت اہم تھی ۔اوّل وہ بنیادی
طور پر ایک بہادر اور بے خوف شخص تھا ۔ دوم ، علم کے لئے اس میں فطری تشنگی
اور طلب موجود تھی ،جو تمام عمر برقرار رہی ۔ وہ ایک دانشور اور فلسفی
بادشاہ تھا جس کے سر پر غیر معمولی حوصلہ مندی اور دلیری کا تاج تھا، ہر
جنگ میں فیصلہ کن حملے کی کمان وہ خود کیا کرتا تھا۔ یہ ایک نہایت پُر خطر
کام تھا اور ایسے حملوں کے دوران وہ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوا ،لیکن اس کے
فوجی دستے سکندر کو اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دیکھتے اور انہیں پتہ
چلتا کہ سکندر نے انہیں کوئی ایسا کام کرنے کے لئے نہیں کہا جو خود نہیں
کرنا چاہتا۔
یہ تمام سوچ اُسے اپنے اتالیق ارسطو سے ملی، وہ اپنے استاد کے لئے محبت اور
احترام کے گہرے جذبات رکھتا تھا اور علم حاصل کرنے کی راہ میں ہمیشہ اس کے
نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا رہا ۔ تعلیمی زمانے میں ایک ر وز ارسطو کے
ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ ان کا گزر ایک خطرناک پہاڑی ندی پر سے ہوا ۔ سکندر
نے پہلے خود اس ندی کو عبور کیا اور اس کے بعد ارسطو کے گزرنے کا راستہ
بنایا ،بعدازاں جب ارسطو نے پوچھا کہ اس نے پہلے اپنی جان خطرے میں کیوں
ڈالی توسکندر نے جواب دیا ’’اگر ارسطو زندہ رہے تو وہ سینکڑوں سکندر اور
بنا دے گا لیکن ہزاروں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے ‘‘۔یہ اصل
استاد کی حیثیت ہے۔
کسی بھی شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ،اگر
قسمت سے استاد اچھا مل جائے تو اس کی شخصیت کے اقدارو افکارسے اندازہ ہو
جاتا ہے۔تہذیب ،تمدن ، حبّ الوطنی اور انسانیت جیسی خصوصیات ہر فرد میں
ہونا ضروری ہیں مگر اگر ایسی خصوصیات رکھنے والوِں کی تعداد بڑھتی جائے تو
معاشرہ بہتر سے بہتر ہوتا جاتا ہے ۔ اس سے معاشرے میں بہت سی گھناؤنی
برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس جانب توجہ دینا نہایت ضروری ہے کہ
ہم ایسے اساتذہ تیار کریں جن کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ بچوں کی تربیت اور
انہیں با علم بنانا ہو۔ حکومت کو اساتذہ کے کردار کی خصوصی طور پر نگرانی
کرنا ضروری ہے۔اگر کوئی بھی استاد کسی طرح بھی غلط حرکت میں ملوث ہو تو اس
کے خلاف فوراً کارروائی کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کے لئے انتہائی سزا مقرر
کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں سر عام سزا دینا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی استاد
غلط حرکت کرنے کی جرات نہ کرے ۔
خاص طور پر سکول اساتذہ کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا کیونکہ بچوں کی بنیادی
تربیت وہیں سے شروع ہوتی ہے۔اچھے اساتذہ کو بہترین سہولیات دی جائیں ۔تمام
بچے ایک جیسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ،آنے والی نسلوں کو بچانے کے لئے
حکومتی اور سماجی سطح پر بہتر اقدامات اور دیر پا لائحہ عمل بنانا ہو گا۔
ورنہ والدین آئے دن سننے والی خبروں سے بچوں کے لئے فکر مند رہیں گے۔معصوم
بچوں،بچیوں کے ساتھ استاد کا لبادہ اوڑھے درندہ صفت لوگ کن گھناؤنی حرکات
میں ملوث پائے جاتے ہیں،دیکھ اور سن کر افسوس ہی نہیں شرمندگی ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کو ایسے با کردار ، با علم اساتذہ کی اشد ضرورت ہے جسے ہم
ارسطو کہہ سکیں ۔ پھر دیکھیں لاکھوں سکندر کیسے پیدا ہوتے ہیں اور اپ کا
ملک ترقی و کامرانی کی منازل کیسے عبور کرتا ہے۔یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ |