محترم ڈائریکٹر جنرل نیب /احتساب کمیشن خیبر پختونخواہ
(musarrat ullah jan, peshawar, pakistan)
جناب عالی!
گزارش ہے کہ آپ لوگ کرپشن کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں اور اس کے خاتمے کے
دعوے بھی بہت کرتے ہیں - پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں غریب عوام
کیساتھ کیسا گھناونا کھیل کھیلا جارہا ہے اس بارے میں آپ کو معلومات ہی
نہیں - حالانکہ سرکاری ہسپتال ان غریب عوام کے پیسوں سے چلتے ہیں جواپنی
خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کی مد میں ریاستی حکام کو جمع کرتے ہیں تاکہ
انہیں صحت کی سہولت فراہم ہوں- لیکن کیا ریاست یہ سہولت فراہم کررہی ہیں یا
صحت کے نام پر ان کے پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں کیا فراڈ کیا
جارہا ہے یہ آپ کو اس خط سے مندرجات پڑھنے کے بعد ہی اندازہ لگ سکے گا-
محترم! ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبر پختونخواہ نے سال 2012 ء میں نئے
ایمرجنسی بلاک کیلئے مختلف سامان کی خریداری کیلئے اشتہار دیا تھا جو کہ
ایک مقامی اخبار میں شائع ہوا جس میں 27 اگست 2012 ء کو ٹینڈر کھولنے کی
تاریخ دی گئی تھی-ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لگائے جانیوالے سامان میں سی
ٹی سکین مشین بھی شامل تھا- ایمرجنسی وارڈ اس وقت زیر تعمیر تھا اور
کنٹریکٹر جو موجودہ حکومت میں عہدے پر فائز تھا اور آج کل زیر عتاب ہیں کے
زیر سایہ بننے والے ایمرجنسی وارڈ میں لگایا جانا تھا سی ٹی سکین مشین
کیلئے مخصوص کمرہ بھی تعمیر کیا جانا تھا -سی ٹی سکین مشین چار سلائس کی
مشین کیلئے دو کمپنیوں نے مقابلہ کیا دبئی کی ایک فرم نے ہسپتال انتظامیہ
کی چار سلائس مشین کے مقابلے میں سولہ سلائس والی مشین دکھائی جس کی قیمت
تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے تھی جبکہ دوسری کمپنی دو کروڑ ستر لاکھ روپے میں
چار سلائس والی مشین دے رہی تھی تاہم انتظامیہ کے اصرار پر مذاکرات کے بعد
سولہ سلائس کی مشین دو کروڑ ستر لاکھ روپے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو دیدی گئی
اکتیس اگست 2013 ء کو مشین ہسپتال کو فراہم کردی گئی جس وقت ہسپتال کی سی
ٹی سکین کیلئے سائٹ بھی تیار نہیں ہوئی تھی -ہسپتال کی ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ
نے کمپنی کی جانب سے دئیے جانیوالے سولہ سلائس کی مشین کو بہتر قرار دیا
تھااور اس بارے میں سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا گیا جبکہ پاکستان نیوکلیئر
ریگولیٹر اتھارٹی نے اس کیلئے باقاعدہ این او سی بھی جاری کیاتاہم ہسپتال
کے ایمرجنسی وارڈ میں لگائے جانیوالا سی ٹی سکین صرف ایک مرتبہ استعمال کیا
گیاجو کہ 18 فروری 2014ء جس کے بارے میں کمپنی نے بھی رپورٹ جاری کردی تاہم
مخصوص مفادات اور کمیشن کی لالچ میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی انتظامیہ نے آرمی
پبلک سکول میں زخمی ہونیوالے سکول کے بچوں اور یہاں پر ایمرجنسی میں لائے
جانیوالے افراد کیلئے اسے استعمال نہیں کیا- جو بذات خود ایک بہت بڑا سنگین
جرم ہے-
محترم !جس کمپنی نے سی ٹی سکین مشین ہسپتال کو فراہم کردی ہیں انہوں نے سی
ٹی سکین مشین گارنٹی بھی دی کہ اگر اس میں کوئی خرابی سامنے آئی تووہ اسے
ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہونگے -ہسپتال انتظامیہ نے ابھی تک نہ تو متعلقہ
کمپنی کو سی ٹی سکین مشین کی ادائیگی کی ہیں اور نہ ہی اس کی خرابی سے
متعلق کمپنی کو آگاہ کیا ہے تاکہ وہ آکر اسے دیکھ سکیں-
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی انتظامیہ نے ایک مخصوص
جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص کو جو کہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کی
اتحادی ہے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر سی ٹی سکین مشین کی سہولت
فراہم کرنے کیلئے معاہدہ کیا ہے جو کہ زائد المعیاد بھی ہو چکا ہے لیکن "
ہسپتال کی مخصوص" مافیااور محکمہ صحت خیبر پختونخواہ کے " مخصوص لوگ" جنہیں
کمیشن اور کرپشن کی عادت ہے نہ صرف زائد المعیاد معاہدہ کو مستقل دینے کی
کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پڑے ٹھیک سی ٹی
سکین مشین کو خراب کرنے کادعوی کررہی ہیں - اس بارے میں میڈیا کی ٹیموں نے
جب بھی وہاں پر جانے کی کوشش کی تو " معلومات تک رسائی" دعویدار حکومتی
عہدیداروں نے اس بارے میں بات کرنے سے بھی گریز کیا بلکہ ایمرجنسی میں پڑے
سی ٹی سکین مشین کو تالے لگا دئیے کہ ان کی " کارکردگی " کسی کے سامنے نہ
آئے - اور اب ہسپتال میں یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ سی ٹی سکین مشین کا رزلٹ
ٹھیک نہیں آتا- حالانکہ اسی ہسپتال کے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے انچارج نے
باقاعدہ رپورٹ بھی دی ہیں کہ سی ٹی سکین کی سولہ سلائس کی مشین چار سلائس
کی مشین کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں-
محترم جناب!کچھ سوالات ہیں جن میں
*اگر ایمرجنسی میں لگایا جانیوالا سی ٹی سکین مشین خراب تھا تو لیڈی ریڈنگ
ہسپتال کے انچارج نے کس پوزیشن میں کمپنی کو لیٹر جاری کیا کہ سی ٹی سکین
مشین ٹھیک حالت میں ہیں اور کام کررہا ہے
*پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی نے کیوں اور کس بنیاد پر این او سی
جاری کیا
*اگر مشین خراب ہوئی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہیں- اور کیا اس بارے میں
کمپنی کو کوئی تحریری لیٹر جاری کیا گیا کہ آیا اس میں متعلقہ فالٹ کو دور
کیا جائے-
*فروری 2014 ء میں انسٹال کئے جانیوالے ایمرجنسی کے سی ٹی سکین مشین فراہم
کرنے والے ادار ے کو کس بنیاد پر یہ کہا گیا کہ سابقہ کنٹریکٹر جو کہ اب
"تبدیلی والی سرکار"کا ساتھی ہے نے ایمرجنسی وارڈ میں سی ٹی سکین مشین
کیلئے جگہ نہیں بنائی اس لئے متعلقہ کمپنی ہی سی ٹی سکین مشین کیلئے کمرہ
تعمیر کرے-کیونکہ محکمہ صحت کے حکام اس بارے میں متعلقہ شخصیت سے بات کرتے
ہوئے ڈرتے تھے -
*سی ٹی سکین فراہم کرنے والی کمپنی کو ادائیگی اب تک کیوں نہیں کی گئی ‘
اور اگر کی گئی ہیں تو متعلقہ کمپنی کو پیسہ کیوں نہیں ملا- اور اگرپیسے
جاری ہوئے ہیں تو کونسے شخصیت نے بینک میں رکھے ہیں کہ ڈھائی سال سے سود کا
منافع اسے مل رہا ہے-
* کیا ہسپتال انتظامیہ نے اس وقت آنکھیں بند کر رکھی تھی جب سی ٹی سکین
مشین فراہم کرنے والے کمپنی نے ہسپتال انتظامیہ کو دئیے گئے بروشرز میں
لکھا تھا کہ یہ مشین امریکہ میں نہیں-
*کیا یہ ضروری ہے کہ جو حکومت کا اتحادی ہو اسے ہی ہسپتال کے اندر جگہ
فراہم کی جائے کہ وہ مریضوں کو ہسپتال میں لوٹ سکیں-
*ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود متعلقہ سی ٹی سکین مشین کو
کیوں بند رکھا جارہا ہے - کیا یہ عوامی پیسے کا ضیاع نہیں- اور اگر ہاں تو
اس کا ذمہ دار کون ہیں-
* جتنے اموات آرمی پبلک سکول سمیت دیگر ایمرجنسی میں لائے جانیوالے افراد
کی ایمرجنسی میں سی ٹی سکین نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں اس کے ذمہ داروں کا
تعین کون کریگا- اور کیا ان کو سزا ملے گی
* اور کیا یہ سب کچھ "کمیشن "کا چکر تو نہیں جس کی وجہ سے گذشتہ ڈھائی
سالوں سے لاکھوں افرادلیڈی ریڈنگ ہسپتال میں آکر خوار ہوئے-
یہ وہ سوالات ہیں- جن کا جانناصوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام جاننا چاہتی ہیں
اور اگریہ سب کچھ سچ ہیں تو پھر آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ذمہ داری پوری
کرتے ہوئے کرپٹ حکام کے خلاف کاروائی کرے - ثبوت اگر آپ کو چاہئیے تو بس
ذرا سی خواری کرنے پڑیگی - دوسری صورت میں " اللہ تعالی"کی عدالت میں جب آپ
حاضر ہونگے تو اسے " ثبوتوں " کی بھی ضرورت نہیں ہوتی -کیونکہ انسانی جسم
خود اپنے اوپر گواہی دیگا -
والسلام
ایک شہری |
|