عید کی خوشیاں۔۔۔ اور عید مبارک

آج اس افراتفری کے دور میں خوشی کا میسر آنا کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔،ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے کوئی تو بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کے جن سے خوفزدہ ہے تو کوئی گیس کی بندش کی وجہ سے پریشان حال ہے، کوئی اپنے روزگار کی وجہ سے پریشان ہے تو کوئی ملک کو درپیش ان گنت مسائل کی وجہ سے پریشان ہے ان حالات میں انسان کے لئے چھوٹی سی خوشی کسی نعمت سے کم نہیں۔

خوشیاں بانٹنے سے کبھی کم نہیں ہوتیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے عید نام ہے خوشیوں کا مگر اس خوشی کا مزہ تب دوبالا ہوگاجب اس میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو خوشی کا چاند اپنے آنگن میں بہت کم دیکھتے ہیں میری مراد ایسے سفید پوش طبقے سے ہے جو عید کے خاص موقع پر اپنے بچوں کے لئے عید کی خوشیاں منانے کے لئے تحفے تحائف یا مخص ضرورت کا لباس تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یقین مانئیے ایسا سفید پوش طبقہ کبھی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے حتیٰ کہ اپنی زبان سے بھی کسی چیز کا اظہار نہیں کرتے تو اس صورت حال میں ان کی ضروریات کا اندازہ اُنکی زبان سے نہیں بلکہ ان کی آنکھوں سے لگانا چاہئے جو کپڑے یا تحفے تحائف آپ اپنے لئے پسند کریں اس میں سے کچھ اپنے سفید پوش دوستوں اور عزیز واقارب کے لئے بھی پسند کریں اور یہ تحفے تحائف انکی خدمت میں انتہائی محبت اور عاجزی کے ساتھ پیش کریں تاکہ آپ کے دوست بھائی عزیز و اقارب خوش بھی ہوجائیں اور انکو کسی قسم کی کوئی بات محسوس بھی نہ ہو اس کے علاوہ عید کے روز اپنے قریبی دوستوں و رشتہ داروں سمیت اُن تمام اپنے سفید پوش دوستوں اور عزیزوں کے گھر جا کر دل کی گہرائیوں سے عید مبارک کہیں اور ان کے لئے حسب توفیق تحائف لیکر ضرور جائیں خاص طور وہاں موجود چھوٹے چھوٹے پیارے معصوم بچوں کو سو دو سو روپے عیدی ضرور دیں یہ سب کچھ کر لینے کے بعد آپکو احساس ہوگا کہ آپ نے عید کتنے اچھے طریقے سے منائی۔

یہاں پر ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو آج سے تقریبا چار سال پہلے میرے کزن نے مجھے سنایا اور آج بھی جب یہ واقع میرے ذہن میں آتا ہے تو کچھ لمحوں کے لئے دل اداس ہو جا تا ہے میرا کزن اپنی فیملی سمیت اپنے ایک انتہائی سفید پوش دوست کے گھر عید ملنے گئے ۔ کزن کے بچے اور دوست کے بچے کھیلنے میں مصروف ہوگئے اسی دوران کزن اپنے دوست اور اسکی فیملی کو عام روز مرہ کے پرانے کپڑوں میں دیکھ کر غمگین ہوگیا او ر کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے دوست سے اجازت لینی چاہی تو دوست کا سب سے چھوٹا بیٹا فوراََ بھاگ کر سامنے آکر رک گیا اور اونچی آواز سے کہنے لگا، انکل ! میری عید ی دیجئے نا! جونہی کزن اپنی جیب سے کچھ روپے نکالنے لگا تو دوست نے کزن کا ہاتھ پکڑ لیا اور کزن کی بڑی کوششوں کے باوجود دوست نے اپنی عزت نفس کا مسئلہ جانتے ہوئے بچے کو عیدی نہ دینے دی اور بچے کو ڈانٹ کر بھگا دیا بچہ انتہائی مایوس نگاہوں کے ساتھ سہم کر کمرے کے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ کزن معصوم بچے کی نگاہوں میں سجی ہوئی ادھوری خوشیوں کو دیکھ کر انتہائی افسردہ ہوا اور راستے میں گھر واپسی پر رو پڑا اور جب یہ واقع کزن نے مجھے سنایا تو میں بھی غمگین ہوا اور آج بھی جب کبھی یہ واقع مجھے یاد آتا ہے تو دل اداس ہوجاتا ہے۔

قارئین ! آپ پوری کوشش کیا کریں کہ اپنی استطاعت کے مطابق خاص موقعو ں پر اپنے سفید پوش دوست احباب رشتہ داروں کی ضروریات زندگی کا خیال رکھا کریں اور اپنے حصے میں سے ان افراد کے لئے حصہ ضرور نکالیں لہذا اب دیر نہ کیجئے اور جائیے ۔ اس عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کرکے اپنی خوشیوں میں مزید اضافہ کریں اور سب سے پہلے بچوں کو عیدی دیں اور پھر سب کو بولیں ۔
عید مبارک عید مبارک!
ندیم حسین رضوی
About the Author: ندیم حسین رضوی Read More Articles by ندیم حسین رضوی: 2 Articles with 2006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.