پاگل کون ہے

یہ ایک معمہ ہے جسے حل کرنے کیلئے مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے گھر سے کچھ دور ہی خرم کا گھر ہے۔ ساری عمر انگلینڈ میں گزار کر اب ادھر آ کر بس گئے۔ لگتا ہے عیاش قسم کے گوروں کا گھر ہے۔ لیکن یہ صرف مجھے ہی لگتا ہے کیونکہ میں ان تین میں سے ہوں جو خرم کا دوست ہونے کی وجہ سے اس کے گھر کے حالات سے واقف ہیں۔ خرم کے ابو کا خیال ہے کہ خرم پاگل ہو گیا ہے اور خرم کے پاگل پن کی وجہ اس کی اپنے گھر کے ماحول سے بغاوت ہے۔

کل پھر خرم کے گھر میں لڑائی ہوئی تھی اور خرم میرے سامنے بیٹھا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا میں پاگل ہوں۔ یار آج فیصلہ کر کے ہی اٹھیں گے۔ شروع سے ساری باتیں بتا۔ میرے کہنے پر خرم شروع ہو گیا۔ خرم کی شیو بڑھی ہوئی تھی کیونکہ خرم نے گھر میں اعلان کر دیا تھا کہ وہ داڑھی کی سنت ادا کرے گا۔ خرم نے یہ اعلان اپنی بہن کے سامنے کیا تھا جسے اس کی بڑھی شیو دیکھ کر بیمار ہونے کا شک پڑ گیا تھا۔ وہ تو اس بات کو مذاق سمجھ کر ہنس رہی تھی۔ اس وقت اس کے ابو اور بھائی ڈرائنگ روم میں بیٹھے چسکیاں لگا رہے تھے۔ خرم نے مجھے بتایا کہ پاپا کے گلاس میں سے تھوڑی سی شراب ان کے کپڑوں پر بھی گر گئی تھی اور ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ بس لڑائی شروع ہو گئی۔ بڑی بحث ہوئی۔ خرم کی ممی بھی آ گئیں۔ سب نے کہا کہ اس کی صحبت خراب ہو گئی ہے۔ کسی نے کہا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ پاپا کو وہسکی پسند ہے۔ وہ پیتے ہیں اور مجھے داڑھی پسند ہے کیا میں داڑھی نہیں رکھ سکتا۔ یہ بات سن کر میں بھی چونک گیا۔ یار تو داڑھی رکھے گا ۔ لمبی لمبی لٹکتی ہوئی۔ میں نے پوچھا۔ نہیں ۔ وہ لمبی لمبی لٹکنے والی خوفناک داڑھی نہیں رکھوں گا اور وہ سنت داڑھی ہے بھی نہیں۔ تو پھر۔ میں نے پوچھا۔ میں تو سنت داڑھی رکھوں گا صرف ایک مٹھی۔ صرف اتنی۔ خرم نے مجھے بتایا۔ تو پھر تو وہ بڑا سا رومال بھی باندھے گا سر پر۔ عجیب سا۔ میں نے پوچھا۔ اف نہیں یار۔ وہ رومال بھی سنت نہیں ہے۔ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے باندھے ہوئے۔ میں نے کہا۔ یار ان کا اپنا فیشن ہے۔ میں ٹوپی پہنوں گا اور بعد میں عمامہ۔ اور عمامہ سنت ہے۔ اور اتنی خوبصورت کہ تیرا دل بھی کرے گا باندھنے کو۔ خرم بولا۔ لیکن یہ رومال کیوں باندھتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ جو باندھتے ہیں ان کو پتہ ہو گا۔ خرم کے اس جواب پر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ خرم کی بتائی ہوئی باتوں پر اور اس پر کہ خرم کو یہ باتیں کیسے پتہ چلیں۔ اب بتا کیا میں پاگل ہوں۔ خرم نے سوال کیا۔ آخر میں بتاؤں گا۔ پہلے یہ بتا کہ تجھے یہ سب کیسے پتہ چلا۔ میں نے جواب دیا۔ میں بھی آخر میں بتاؤں گا۔ خرم بھی اڑ گیا۔ اگلی بات بتا۔ میں نے بات کو آگے بڑھایا۔ یار روزہ رکھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ کمزور ہو جائے گا۔ نماز پڑھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مولوی ہو گیا ہے۔ میں خرم کی اس بات پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ بات بہت سیریس ہو چکی تھی۔ کیا یہ لڑنے کی بات ہے۔ خرم نے پوچھا۔ جواب آخر میں۔ آگے چل۔ میرے کہنے پر خرم آگے چلا اور کہنے لگا۔ کہ ہمارے گھر میں کتا ہے۔ میں کہتا ہوں ذرا احتیاط کیا کریں کہ اس کا تھوک ناپاک ہے اور اس کو صحن تک محدود رکھیں یا پھر گھر سے نکال دیں۔ یار تو پروفیسر کب سے بن گیا اور وہ بھی اسلام کا۔ میں نے خرم کو ٹوکا۔

یار دین کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔ تو بھی مطالعہ کیا کر، میں بھی کرتا ہوں۔ خرم نے مجھے بتا ہی دیا تھا اور اگلی بات یہ ہے کہ میں اپنی بہن کو کہتا ہوں کہ مناسب کپڑے پہنا کرے۔ بے پردگی کا خیال رکھا کرے۔ اور اگر وہ نہیں رکھے گی تو کیا کرے گا اسے مارے گا۔ میں نے پوچھا۔ نہیں یار اسلام میں زبردستی کی اجازت نہیں۔ میں نے اچھے طریقے سے بتا دیا۔ بس میرا اتنا ہی فرض تھا۔ آگے اس کی مرضی- اوہ نو مار پیٹ۔ میں نے پوچھا۔ ہاں نو مار پیٹ ۔ کسی کو اپنی بیوی کو بھی مارنے کی اجازت نہیں۔ اسلام تو اچھے اخلاق کا نام ہے۔ پیار ہے بچوں سے، ماں باپ سے، بیوی سے، بہنوں سے، ہمسایوں سے، سب سے۔ یہ جو مار پیٹ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی اپنا ہی طریقہ ہے اسلام کے نام پر۔ ہمارا اسلام تو قرآن والا ہے۔ بہن سے تو اس بات پر لڑائی ہوئی نہیں۔ لیکن اسے میری بات سمجھ بھی نہیں آتی وہ آگے سے ہنستی رہتی ہے لیکن پاپا مجھ سے لڑ پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ پاگل ہو گیا ہے۔ اب بتا کیا میں پاگل ہوں۔ خرم نے پھر پوچھا۔ یار اور کوئی بات ہے میں نے پوچھا۔ امید ہے ہو جائے گی جو حالات ہیں۔ خرم نے جواب دیا۔ یار جو تو نے کہا ہے – یہ سب ٹھیک ہے تو غلط نہیں ہے۔ تو پھر پاگل تو پاپا خود ہی ہوئے نا۔ خرم بولا۔ یار وہ تو جو ہوئے سو ہوئے لیکن قصور سارا گوروں اور ہندوؤں کا ہے۔ وہ کیسے میری اس بات پر خرم نے حیرانگی سے پوچھا۔ یار ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت کہنے کو مسلمان اور عملی طور پر گوروں اور ہندوؤں کی پیروکار ہے۔ لہٰذا وہ قصور وار ہیں۔ لیکن کیسے۔ خرم نے پوچھا۔ وہ ایسے کہ شادیوں اور کاروبار دوسرے معاملات میں ہم ہندوؤں کی پیروی کرتے ہیں اور کچھ معاملات میں گوروں کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم بڑے تیزی سے ان کے رسم و رواج سیکھ رہے ہیں۔ اب چونکہ یہاں کہ لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں تو یہ سارے طریقے تو ان کے ہیں لہٰذا قصور بھی ان کا ہے۔ طریقے ان کے اور لڑائی تیرے گھر میں۔ خرم یہ سن کر ناراض ہو گیا اور مجھے کہنے لگا کہ غیروں کی تقلید کرنے والے اور اس کے ڈیڈی پاگل ہیں اور یہ کہ میں بھی پاگل ہوں۔ خرم نے مجھے بھی پاگل کہہ دیا ہے۔ پیارے قارئین معمہ یہ ہے کہ خرم کے پاپا خرم کو پاگل کہتے ہیں۔ خرم دوسروں کو پاگل کہہ رہا ہے۔ یہ پاگل ہے کون۔ خرم یا خرم کے پاپا اور مجھے پوری امید ہے کہ جو بھی پاگل ہے وہ تو ہو لیکن آپ پاگل بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ کیا خیال ہے۔؟
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112985 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More