کرتوت

مسائل کا طوفان، نت نئے مسائل، بیچینیاں، خوف، مہنگائی کی آفت، نت نئی بیماریاں یہ سب انعام ہے ہمارے کرتوتوں کا۔ کافی لوگ ہیں ہمارے معاشرے میں جو کرتوتوں کا ادراک رکھتے ہیں لیکن بس زبان کی حر تک۔ تھوڑے سے ہیں جو ادراک بھی رکھتے ہیں اور کرتوتوں سے نالاں بھی ہیں۔ کچھ لوگ کرتوتوں سے لڑ بھی رہے ہیں لیکن عوام ان کا ساتھ ہی نہیں دیتی۔

ماضی کے کرتوت جاری ہیں۔ حال کے کرتوت ان میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور مستقبل کے کرتوتوں کی لاشعوری منصوبہ بندی بلکہ صف بندی بھی ہو چکی ہے۔ کرتوتوں کی بےشمار قسمیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں۔ چند کا رونا درج ذیل ہے۔

بےایمانی ایک نہایت ہی عام کرتوت ہے۔ اکثر خبریں چھپ چکی ہیں کہ چند منرل واٹر کی کمپنیوں کے علاوہ کسی کے پاس مطلوبہ پلانٹ ہی نہیں۔ بوتلیں دو نمبر عام ہیں۔ جوس کی تو بات ہی نہ کریں۔ سرسوں کے تیل میں اب سالن نہیں پک سکتا پہلے کبھی پکتا تھا ۔ تیل دو نمبر ملتا ہے۔ گھی میں پکاتے ہیں ۔ کوالٹی دو نمبر نہیں ہے بلکہ اس سے بھی نیچے مضر صحت۔ ایک تو سگریٹ اور وہ بھی دو نمبر یعنی کریلا نیم چڑھا۔ خالص دودھ ، خالص شہد بھی بےایمانی کی نظر ہو چکا ہے۔ لالہ موسیٰ مشہور ہے دو نمبر دوائیوں کیلئے۔ پھلوں میں انجکشن لگاتے ہیں لوگ میٹھا اور تازہ سمجھ کر لے جاتے ہیں۔ سفید رنگ والی مٹھائیوں میں سرف کا استعمال اب چھپا نہیں رہا۔ میں دوست کی دوکان میں بیٹھا تھا شیشے سے مشینری آتی نظر آئی۔ سوچا پورا ہفتہ ادھر نہیں آ سکتا۔ سڑک بنے گی۔ آدھ گھنٹے بعد باہر نکلا مشینری واپس جا رہی تھی۔ ایک لمبی سڑک بن بھی چکی تھی۔ بےایمانی کی اعلیٰ مثال دیکھنے میں آئی۔ سڑکیں دو نمبر ۔ بنے بنائے گھر بنی بنائی بلڈنگز ، گھر بھی اکثر دو نمبر ناقص میٹریل استعمال کرتےہھیں۔ میری ممانی نے پلاسٹک کی مشینیں دیکھیں۔ گھر کیلئے خرید لیں۔ ہزاروں روپے دئیے تھے۔ ایک دن بعد کوئی بھی نہ چلی ۔ دو نمبر تھیں ۔ اب عام بکتی ہیں۔ کیلکولیٹر بھی دو نمبر ۔ موبل آئل دو نمبر اور ڈبوں پر بڑی بڑی کمپنیوں کے نام لیکن ڈبے بھی دو نمبر۔ استعمال شدہ تیل میں کیمیکل ملا کر اس کا رنگ نئے جیسا کرتے ہیں۔ بیچ دیتے ہیں۔ لاہور میں بادامی باغ مرکز ہے۔ پٹرول پمپوں پر بھی یہی بکتا ہے دیدہ دلیری کے ساتھ ۔ اپنی بیوی گھر میں ہوتی ہے اور میاں صاحب دوسری لڑکیوں پر تانک جھانک کرتے نظر آتے ہیں۔ بےایمانی ہی کی ایک شاخ ہے لیکن اسے کسی دوسرے نام سے بلاتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے کہتے ہیں کہ غریب کو روٹی کپڑا اور مکان دیں گے اور الیکشن کے بعد لوگ روٹی، کپڑا، مکان کے ساتھ ساتھ بجلی، پانی، آٹا چینی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ بےایمانی نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک ٹن کے ائیر کنڈیشنز میں 13000 بی-ٹی-یو ہوتے ہیں اور مارکیٹ میں بکنے والے ایک ٹن کے اکثر ائیر کنڈیشنر تو 1100 بی-ٹی-یو کے بھی نہیں ہوتے۔ اس کو بےایمانی نہیں تو پھر کیا ایمانداری کہیں؟ سیاستدانوں کو قرضے ملتے ہیں اور معاف بھی ہو جاتے ہیں اور عوام کو کہیں بھی معافی نہیں ملتی۔ بےایمانی ہی بےایمانی ہے۔ اب تو انسان بھی بے ایمانی کی نزر ہو چکے ہیں۔ انسان لگتا ہے اور جب پستول نکال کر جیبیں خالی کراتا ہے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکو تھا۔ پرانی سرنجیں دھو کر نئی بنا کر بیچنا بھی تو ایک معمولی سی بےایمانی ہے۔

آگے چلتے ہیں۔ پولیس بھی اس معاشرے کا تھوڑا سا کردار اور زیادہ کرتوت بن گئی ہے۔ آخر معاشرے کا حصہ ہے۔ اکثر ڈاکوؤں، بدمعشوں کی سرپرست پولیس ہی نکلتی ہے۔ ساس اور ظالم خاوند معاشرے کے بڑے سیاہ قسم کے کرتوت ہیں۔ کسی کی بہن، بیٹی کا وہ حال کرتے ہیں جو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ لالچی ہونا بھی ایک عام کرتوت بنتا جا رہا ہے۔ نکاح سے پہلے لڑکی کو پسند کرتے ہیں اور نکاح کے بعد پتہ چلتا ہے نظر تو باپ کی دولت پر تھی لڑکی کو سیڑھی بنایا تھا۔ عجیب کرتوت ہیں۔ خاوند اور ساس اگر اچھے ہوں تو کئی بہوئیں ہی کرتوت کا فرض نبھا لیتی ہیں۔

جلاد نما باپ اور خاوند ایک عام کرتوت ہے۔ بچپن میں گھر میں سر اور سینے میں سریا گھسا کر رکھتا ہے اور جب بچے بڑے ہو جائیں تو وہ سریے کو موڑ دیتے ہیں۔ عمل کا ردعمل تو پھر ہو ہی جاتا ہے۔ باپ کا کرتوت، اولاد کے کرتوت کو جنم دیتا ہے۔

بے زبان جانوروں پر ظلم و ستم پاکستانی معاشرے کا ایک بھیانک کرتوت ہے۔ گلی گلی گدھوں، گھوڑوں کی شامت آئی رہتی ہے، پٹتے رہتے ہیں۔ ان بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دیکھنے والوں میں، حکومت میں، پولیس میں، نام نہاد مسلمانوں میں کوئی ان کا ہمدرد بننا گوارا نہیں کرتا۔ ظالم لوگ اپنے بچوں کو خوش کرنے کیلئے اور خود بھی خوش ہونے کیلئے طوطوں کو مستقل چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید رکھتے ہیں۔ کیا معلوم پرندوں، جانوروں پر ظلم ہی ہم پر نازل مصیبتوں کی اہم وجہ ہو۔

اور ایک خطرناک، گستاخانہ کرتوت یہ ہے کہ مقدس کاغذات میں چیزیں بیچتے ہیں۔ اکثر مقدس کاغذات زمین پر گرے ہوئے ملتے ہیں اور کبھی کوڑے اور گندے پانی میں بھی۔ اگر ہم روپے پیسے سنبھال کر رکھ سکتے ہیں تو پھر مقدس کاغذات کیوں نہیں۔ یہ کرتوت مصیبتوں اور پرشانیوں کی ایک یقینی وجہ ہے- ۔

غیر مسلموں کے تہوار منانا بھی عوام کے پسندیدہ کرتوت ہیں۔ جیسے ویلنٹائن ڈے، بسنت، اپریل فول، وغیرہ۔ موقع ملتے ہی ایک دوسرے کی جائیداد پر قبضہ کرنا ایک معروف کرتوت ہے۔ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے لیکن پھر بھی کچھ دے ہی دیتے ہیں۔ انڈین فلمیں ڈرامے تو ایسے رائج الوقت کرتوت ہیں کہ سارا معاشرہ ان کرتوتوں کی کرشمہ سازیوں سے متاثر نظر آتا ہے۔ خوبصورت چہروں والی لڑکیاں بن ٹھن کر سکرین پر نمو دار ہوتی ہیں اور ہمارے بھولے عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ مسلمان کہلانے والے لاشعوری طور پر، بڑے غیر محسوس طریقے سے فلموں ڈراموں میں لڑکیاں دیکھتے دیکھتے فیشن، گفتگو اور زندگی کے طور طریقوں میں غیر مسلموں کے پکے مقلد بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پردہ دل میں ہوتا ہے۔ ہزاروں کام اور ہیں۔ کوئی کام دل میں نہیں ہوتا تو یہ پردہ دل میں کیسے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو کچھ ایسے بھی پیدا ہو جائیں، کہیں ہم وضو بھی دل میں کر لیتے ہیں۔ نماز بھی دل میں پڑھ لیتے ہیں۔ بیوی خاوند سے پوچھے دو دن سے کوئی بات نہیں کی۔۔ خاوند بولے آجکل ساری باتیں دل میں ہی کر لیتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بےپردگی کی عادت چھوڑ نہیں سکتے اور ان باتوں سے اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کرتے ییں۔ تین گھنٹے کی فلم تو دیکھ لیں گے لیکن پانچ منٹ کی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ انہی لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے جو ہر غیر اسلامی تہوار منانے میں پیش پیش ہوتی ہے۔ فلمیں ڈراموں میں جو دیکھتے ہیں ذہنیت بھی ویسی ہی بن جاتی ہے۔ بیٹی چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر نمائش کرتی پھرے خوش رہتے ہیں۔ بیٹا داڑھی رکھ لے گھر میں بھونچال آ جاتا ھے۔ جس گھر میں کوئی داڑھی رکھ لے وہاں بھونچال ایک عام سا کرتوت ہے۔

شراب، شباب، جوا، ریس بھی کوئی ڈھکے چھپے کرتوت نہیں۔ اور وہ کرتوت جن کا تعلق سیاست سے ہے اس کے لئے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہے اور میں تو ایک تحریر لکھ رہا ہوں۔ یہ چند مثالیں ہیں ہمارے معاشرے میں رائج کرتوتوں کی۔ زلزلہ، بم دھماکے، مصیبتیں کرتوتوں کا انعام ہیں۔ ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے۔ نہ سمجھیں گے تو بھگتتے رہیں گے۔ لیکن کب تک۔ آخر کب تک۔ دفتر، گھر، سیاست، ووٹ کیلئے پارٹی اور امیدواروں کی سلیکشن ہر جگہ، ہر قدم پر ہمیں اپنے کرتوتوں کا جائزہ لینا ہی ہوگا اور ایک سفر کا آغاز کرنا ہی ہوگا۔ کرتوتوں سے کردار تک کا سفر شروع کرنا ہی ہوگا، آج اور ابھی سے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117136 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More