14 اگست

قوموں کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا دن ضرور ہوتا ہے جب وہ اپنی تاریخ کو یاد کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیئے بھی ۱۴ اگست کا دن کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ ’پاکستان‘ ایک ایسا نام جو چودھری رحمت علی نے ۱۹۳۳ میں متعارف کرایا اور اس کے بعد مسلمانوں کو کوئی پیچھے نہ کرسکا۔ آزادی کے لیئے کوشاں مسلمانوں نے اپنا جان و مال سب کچھ وطنِ عزیز کے خاطر قربان کردیا۔ مسلمانوں کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر ایک بار پاکستان تشکیل ہوگیا تو پھر وہ خود مختار ہو جائیں گے اور انھیں غلامی کی بدترین زندگی سے نجات مل جائے گی۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷کا دن وہی دن تھا جب ایک پُرخلوص قیادت کے زیرِ اثر تمام مسلمانوں نے مل کر ایک کارنامہ سر انجام دیا اور مسلمانانِ ہند کو ایک نئی راہ دکھائی۔ وہ ایک قوم بن کر سامنے آئے اور پاکستان دنیا کے نقشے پہ ابھر آیا۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا آزادی قربانی مانگتی ہے، خون مانگتی ہے، لیکن مسلمانوں کے حوصلے بلند تھے انھوں نے بلاجھجک ا پنی جانوں کے نذرانے اپنے وطن کو پیش کردیئے اورلاکھوں لوگوں کی قربانی کے بعد پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

پاکستان کی تاریخ بہت سی عظیم ہستیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے اور ان سب کے ساتھ ناقابلِ فراموش واقعات جڑے ہیں۔ برِصغیر سے پاکستان جتنے بھی لوگ آئے وہ قربانیاں دے کر ہی آئے۔ مسلمانوں نے اپنے عزیز رشتے کھوئے ، اپنا مال قربان کرا لیکن پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارا نہ کرا۔ جب ہندوستان سے مسلمانوں کی آزادی کے سفرکا آغاز ہوا تو آسمان پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا، جیسے جیسے ٹرین آگے بڑھتی رہی جوش و جذبے میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن دشمنانِ پاک کو یہ برداشت نہ ہوا انھوں نے ٹرین پر حملہ کردیا اور زندگی کی طرف جاتے مسلمانوں کو اپنی سمجھ سے موت کے گھاٹ اتار دیا ،فضا میں لہلہاتے ہاتھ جو کچھ دیر پہلے پاک وطن کا پرچم لیے بلند تھے اب اپنے تن سے جدا اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے، گردنیں جسموں سے الگ کر دی گئی تھیں لیکن ان شہیدوں کی چمکتی آنکھیں اور دمکتا چہرہ دشمنوں کو مات دے گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے چار لوگوں میں ایک میں بھی تھا جس نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھا۔ اپنی جان بچانے کے لیئے ہم چلتی ٹرین سے کود گئے لیکن امتحان ابھی باقی تھا، ہاتھوں میں تلواریں لیئے وہ بھی ہمارے پیچھے آگئے،ہم زخمی حالت میں بھی دوڑتے رہے یہاں تک کہ راوی کے کنارے پہچ گئے اور وہاں ایک اوردردناک منظر ہمارا منتظر تھا۔ ایک لمحے کو تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا، لال رنگ کا خون آلود پانی اور اس میں تیرتی ڈھیروں ڈھیر لاشیں، کودنے کے لیئے جگہ دیکھنا چاہی لیکن لال رنگ کے سوا کچھ نہ دکھا۔ہمارے پیچھے وحشی درندے دوڑے چلے آرہے تھے ہم نے اﷲ کا نام لیا اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ ہم دریا میں بہتے رہے بہت کوشش کے بعد ایک بڑا پتھر ہاتھ آیا جس کا سہارا لے کر ہم کنارے تک پہچے، کودے چار تھے لیکن منزل تک دو ہی پہچ پائے۔ زمین پہ قدم پڑے تو خوشی سے جھوم اٹھے، سامنے سبز ہلالی لہلہاتا نظر آرہا تھا، دونوں خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے۔ ایک طرف غموں سے نڈھال دوسری طرف خوشی سے سرشار، آزادی کا احساس ایسا تھا جو سارے دکھوں اور غموں کو برداشت کرنے کی قوت دے رہا تھا۔ یہ یقین اور سکون کے ہم غلامی کی ذلّت بھری زندگی سے نجات حاصل کر چکے ہیں ہمارے زخموں پر مرہم سا اثر کر رہا تھا۔

یہ لاکھوں جاں نثاروں میں سے ایک کی داستان تھی، ایسے ہی نہ جانے کتنے لوگوں نے قیامت خیز منظر دیکھے اور سہے ہونگے۔آزادی کی قدر و قیمت وہی جان سکتے ہیں جنھوں نے غلامی کے اندھیرے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوں، جنھوں نے آزادی کی جستجو میں آگ و خون کے سمندر عبور کئے ہوں، جن کے جسموں و روح پر غلامی کے گہرے زخم ہوں، وہی جان سکتے ہیں وہی محسوس کر سکتے ہیں کہ آزادی کیا چیز ہے ؟ اور غلامی کی لعنت کیا ہوتی ہے؟ جو صرف سوچ کر ہی ہماری روح کانپتی ہے وہ لمحے انھوں نے محسوس کیے ہونگے ، لیکن اتنی قربانیوں کے بعد انھیں کیا صلہ ملا ؟اپنا سب کچھ گنوا کر انھوں نے مشکلات میں زندگی گزاری ، اپنی آنے والی نسلوں کے خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ نئی نسل کی آبیاری اپنے خون سے کی تاکہ وہ تباہی سے بچ جائیں، غلامی سے بچ جائیں،لیکن انکو کیا معلوم تھا کہ یہاں آزادی کی قدر کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ یہ قوم یا تو پاکستان سے بھاگ جانا چاہتی ہے اور وہ لوگ جو نہیں جا سکتے وہ یہ کہتے ذرا نہیں کتراتے کہ ’اچھا ہی ہے امریکا لے لے پاکستان کو پھر سکون ہو جائے گا ہمیں‘تو کیا اسلیئے بنایا گیا تھا پاکستان کہ ایک دن یہ بات کہی جائے؟ کیا یہ آزادی ہمیں اسلیئیے دی گئی تھی کہ ایک دن ہم اس سے محروم ہونا چاہیں۔ ذرا سوچ کے دیکھیئے پاکستانیوں کہ اپنی کوئی مرضی نہیں، دوسروں کے حکم کے تابعدارہونا کیسا ہوگا۔ جو مالک کہتا جائے وہ کرتے جاؤ، نہ گھر محفوظ نہ عزتیں۔ دور دور تک کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ایک دن بھی گزار سکوگے ایسے؟؟؟ہر وقت خوف، ہر لمحہ ڈر کبھی اپنی موت کا کبھی اپنوں کی جدائی کا۔ جب غلامی کا تصور ہی اتنا بھیانک ہے تو اسے جینا کتنا بڑا عذاب ہوگا، سوچو اور قدر کرو اپنی آزادی کی، اپنے وطن کی، اپنی مٹی کی۔ ان سارے ہیروز کا ہم پر احسان ہے جن کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا ورنہ ہمارا نام و نشان کہیں نہ ہوتا کیوں کہ یہ پاکستان ہی ہے جس نے ہمیں پہچان دی ہے۔

ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے، اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس پانا ہوگا، اس کے لیئے ہمیں انتھک محنت، قوتِ ارادی، جدوجہد کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ ہمیں مل کر مشکلات کا سامنا کرنا ہے، اور ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے، وقت آگیا ہے کہ اپنی طاقت دشمنوں کو دکھائی جائے اور اپنی پرواہ نہ کر کے پاکستان کی خدمت کی جائے۔
 
Nimra Aftab
About the Author: Nimra Aftab Read More Articles by Nimra Aftab: 2 Articles with 1891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.