تحریک تحفظ ختم نبوت ﷺ

برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد طاغوتی قوتیں مسلسل سوچنے پر مجبور تھیں کہ کس طرح مسلمانوں کی قوت کو توڑاجائے ۔ اور برطانوی اقتدار کو کسی نہ کسی طرح طول دینے کا جواز پیدا کیا جائے۔ لہذا اس پر بہت غور و فکر کے بعد انگریز سرکار نے جہاں اور بہت سی چالیں تیار کیں وہیں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کی محبت کے محور اور مرکز حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارکہ پر حملہ کیا جائے۔
چنانچہ 1868ء میں ایک وفد ہندوستان بھیجا گیا جوکہ برٹش پارلیمنٹ کے ممبران بعض برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل تھا۔ اس وفد نے واپس جاکر حکومت کو رپورٹ پیش کی جس میں لکھا تھا کہ اگر کوئی ایسا آدمی مل جائے جو حواری نبی ہو نے کا دعوی کرے ۔ اور اس شخص کو حکومتی سر پرستی میں پروان چڑھا یا جائے ۔ تو اس سے برطانوی مفادات کے لیے کام لیا جاسکتا ہے۔ لہذا پھر وہ برا وقت بھی آیا جب مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹی نبوت کا دعوی کیا ۔ اور اس طرح مسلمانوں کے جذ بات کو سخت ٹھیس پہنچائی گئی۔ نبی کریم ﷺ سے محبت تو ہر مسلمان کے ایمان کا جز ہے اور اسی طرح ہر مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اُنکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ایک مسلمان اور عشق رسول ختمی المرتبت لازم و ملزوم ہیں اور آج سے ہی نہیں بلکہ چودہ سوسال سے ہیں۔

مشرکین مکہ جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر لے گئے تو انہیں سولی پر لٹکتا دیکھنے کےلئے ابو سفیان ( جو اس وقت اسلام نہ لائے تھے ) کے ساتھ ساتھ بہت سےلوگ بھی جمع ہوگئے۔ ابو سفیان نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا ۔ "اے زید ! میں تم کو خدا کی قسم دےکر پوچھتا ہوں۔ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری بجائے تمہارے محمدہوں جن کو ہم قتل کردیں اور تم آرام سےگھر میں بیٹھو ۔توحضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! میں قطعا پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ اس وقت جس مکان میں تشریف رکھتے ہوں اُن کو ایک بھی کانٹا لگنے کی تکلیف ہو، اور میں آرام سے گھر بیٹھا رہوں ۔ یہ سن کر ابو سفیان نے کہا "میں نے لوگوں میں کبھی نہیں دیکھا کہ وہ دوسروں سے ایسی محبت رکھتےہوں جیسی کہ محمد کے اصحاب محمد سے رکھتے ہیں"۔
یہی وہ عشق تھا جو 14سو سال سے آج تک مسلمانان برصغیر کی رگوں میں دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس عشق کی ہی بدولت وارثان علوم نبویؐ ، مرزا غلام احمد قادیانی کےذریعے پیدا کیے جانے والے فتنے کے شر کو بھانپ چکے تھے ۔اور انہوں نے امت محمدیہ ﷺ کے دامن کو اس فتنے سے بچانے کے لئے نہایت خلوص اور للٰہیت کے ساتھ فکری محاذ پر جدوجہد کا آغاز کردیا۔

گلی گلی کوچہ کوچہ جاکر لوگوں کو آگاہ کیا کہ اللہ رب العزت نے اپنا دین اپنے آخری نبی ورسول حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس پر مکمل کردیا ہے اور کائنات کی آسانی کے لئے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا ہے اب تا قیامت نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول آئے گا اور نہ ہی اللہ تعالی کی آسمانی کتاب قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب یا صحیفہ نازل ہوگا۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک کے انسانوں کےلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ بس پھر کیا تھا ادھر یہ پیغام عام ہوا، ادھر اقبال جیسا عظیم مدبر بول پڑا۔
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بررسول مارسالت ختم کرد
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم وما اقوام را

(ترجمہ ) اللہ تعالی نے ہم پر اپنی شریعت ختم کردی اور ہمارے رسول ﷺ کی ذات اقدس پر نبوت و رسالت کا سلسہ منقطع کردیا۔ اس کائنات کی حیثیت ایک محفل کی سی ہے، اس لئے اللہ تعالی نے حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس پر رسولوں کی بعثت کا سلسلہ ختم کرکے ہمیں آخری امت کا اعزاز ،اور اقوام عالم میں ایک قوم کی حیثیت عطاء کردی۔

چنانچہ ایک طرف جھوٹی نبوت کو کھڑا کیا جارہا تھا۔ دوسری طرف امت محمدیہ ﷺ کے عظیم سپوت آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ختم نبوت کے چوکیدار بن کر کھڑے تھے ۔ادھر قادیان کے قصبے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا ۔ادھر گنگوہ شہر سےمولانا رشید احمد گنگوہی ؒاور لدھیانہ سے علماء لدھیانہ نے تحفظ ختم نبوت کا علم تھام لیا۔اس طرح تحفظ ختم نبوت کی یہ تحریک بڑھتی چلی گئ اور تاریخ میں ایسے ان گنت نقوش چھوڑے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔

1926ٰء میں بہاولپور کی عدالت میں مسلمان عورت نے اپنےخاوند کے مرزائی ہو جانے پر فسخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا ۔اس مقدمہ میں تمام مشاہیر علماء کوشہادت کے لئے عدالت بلایا گیا۔

جب یہ مقدمہ آخری مراحل میں پہنچا تومقامی علماء نے فیصلہ کیا کہ ایک علمی بیان عدالت میں ایسا ہونا چاہیے جس سے ہمارے موقف کو مزید تقویت ملے۔ لہذا حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیریؒ کو بلانے کا فیصلہ کیاگیا ۔ آپ کی بیماری انتہائی زوروں پر تھی ۔ کمزوری کے باعث سفر کی ہمت نہ تھی لیکن جب آقا علیہ الصلوۃ واسلام کی ختم نبوت کے دفاع کی صداکانوں تک پہنچی تو مرد قلندر انور شاہؒ نے سامان سفر باندھا اور بہاولپور کا سفر شروع کردیا۔

اوربہاولپور پہنچ کر آپ نے جمعہ کا خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ:
"مجھےٹیلی گرام موصول ہوا کہ ایک مسلمان بچی کی تنسیخ نکاح کا مسئلہ ہے ، اور اُسکے ساتھ ساتھ قادیانیت کے ارتداد وکفر کا مسئلہ ہے ، ختم نبوت اعتقاد کا مسئلہ ہے ، لہذا شہادت دینے کے لئے آئیے میں نے پچھلی زندگی کے اعمال کے بارے میں سوچا کہ اگر اللہ تعالی نے قیامت کے دن پوچھ لیا کون سا عمل لائے ہو ؟پچھلی زندگی میں کوئی عمل رکھتے ہو تو پیش کرو. . . تو سوچنے کے بعد میرے ذہن میں کوئی عمل ایسا تازہ نہیں ہوا جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کرسکوں ۔چنانچہ میں نے ڈابھیل اور حج کا سفر ملتوی کردیا اور بہاولپور کا سفر کیا۔ تاکہ قیامت کے دن حضورﷺ کے منصب ختم نبوت کے تحفظ کرنے والوں میں شمار کیا جاؤں اور اس عمل کے صدقے میری بخشش ہو جائے۔ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ جا تو رہا ہوں حج کیلئے اور آگے سفر کروں گا مدینہ منورہ کا ، تو اللہ کی رضا بھی چاہئے اور حضورﷺ کی شفاعت بھی چاہیے۔ قیامت کے دن اگر حضورﷺ پوچھ لیں کہ ضرورت وہاں کی تھی! آ یہاں گیا ؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ حضورﷺ کے مقام نبوت اور منصب ختم نبوت کی حفاظت کے لئے بہاولپور جاؤں گا۔ بہت ضعیف اور علیل ہوں یہ خیال کرتا ہوں کہ ہمارا نامہء اعمال سیاہ تو ہے ہی شاید یہی بات ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے کہ نبی کریم ﷺ کا وکیل بن کر عدالت میں پیش ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ نیکی میرے لئے توشہ آخرت بن جائے۔"

پھر آپ نے عدالت میں مرزائیت کے کفریہ عقائد کو انتہائی مدلل انداز میں بیان کیا اور دلائل کے انبار لگانے کے بعد واپس دیوبند جاتے ہوئے وصیت فرمائی کہ
" اگرمقدمے کا فیصلہ میری زندگی میں آگیا تو میں سن لوں گا اور اگر یہ فیصلہ میری زندگی کے بعد ہو تو آکر میری قبر پر سنا جانا۔"

مسلمان اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے وہ مقدمہ تو جیت چکے تھے لیکن تب تک حضرت انور شاہ کاشمیریؒ کی وفات ہو چکی تھی۔لہذا آپ کی وصیت کے مطابق وہ فیصلہ آپ کی قبر پر ہی جا کر سنایا گیا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاہیرامت نے کس درد کے ساتھ ختم نبوت ﷺ کے علم کو بلند کیا۔انکے اندر پائی جانے والی فکر اور لگاؤ اس کی واضح عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے مفکرانہ انداز میں فتنہء قادیانیت کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ فرماتے تھے کہ "ختم نبوت ﷺ اسلام کا ایک نہایت اہم اور بنیادی تصور ہے۔

اسلام میں نبوت چونکہ معراج کمال کو پہنچ گئی لہذا اسکا خاتمہ ضروری ہو گیا۔اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان سیاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعورذات کی تکمیل ہوگی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا، عالم فطرت اورعالم تاریخ کوعلم انسانی کا سر چشمہ ٹھہرایا تواس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے۔ یہ سب تصورات حاکمیت کے ہی مختلف پہلو ہیں۔ ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا یہ عقیدہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس کے دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق کسی مافوق سر چشمہ سے ہے۔ لہذا ہمیں اسکی اطاعت لازم آتی ہے۔ خاتمیت کا تصور ایک طرح کی نفسیاتی قوت ہے۔ جس سے اس قسم کے دعوؤں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔
(پانچواں خطبہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ص 193)

بس بھر خاتمیت کے تصورکو نفسیاتی قوت میں مردان حق نے ایسا بدلا کہ کہیں کسی میدان میں وقت کے امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ گرجتےنظر آئےتو کہیں شورش کاشمیری ؒ برستے نظر آئے۔
کہیں مفتی محمود ؒ اور کہیں پیر مہر علی شاہؒ
کہیں مولانا محمد علی جالندھریؒ تو کہیں مولانا غلام غوث ہزارویؒ
کہیں مولانا لال حسین اختر ؒ تو کہیں مولانا تاج محمود ؒ
کہیں مولانا منظور چنیوٹیؒ تو کہیں مولانا ضیاءالقاسمیؒ

ختم نبوت ﷺ کے دیوانوں کی قطاریں در قطاریں، بہت سے نام جو آسمان پر ستاروں کی طرح ہمیشہ کے لئے چمکتے اور دمکتے ہیں رہیں گے۔

جن کی تحریکی اور تاریخی جدوجہد ، کاوشوں ، قربانیوں، شہادتوں، کے بعد آخر کار ایک وہ دن بھی آیا جب وطن عزیز پاکستان کی پارلیمنٹ میں طویل بحث کے بعد 7 ستمبر 1974ء کو بل پاس کیا ۔جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

Muhammad Umar Qasmi
About the Author: Muhammad Umar Qasmi Read More Articles by Muhammad Umar Qasmi: 16 Articles with 19547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.