معاشرے میں عورت کا مقام ہمیشہ
موضوع زیر بحث رہاہے ، ہندو دھر م کی روسے عورت کی حیثیت پاؤں کی جوتی کی
سی تھی اگر پاؤں میں پور ی آئی اوراچھی لگی تو پہن لی اگر ناگوار خاطر ہوئی
تو اسے الگ کردیا ۔ شوہر کے مر نے کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق
حاصل نہیں تھا ، اسے شوہر کی میت کے ساتھ ’’ ستی ‘‘ کرنے پر مجبور کیا جاتا
تھا ، دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انہیں دیو داسیاں بنا کر مندروں میں
چھوڑ دیا جاتا تھا ایک اورعقیدے کے مطابق عور ت کو گناہوں کی جڑ سمجھا جاتا
، لیکن اسلام نے اس عقیدہ کو ختم کرکے عورت کو عزت دی ۔ اوراسے وہ حقوق
دیئے جواس سے قبل کسی مذہب نے نہ دئیے تھے ، مو جو دہ سائنسی دورمیں ترقی
کے نتیجے میں پیداہونے والی مغربی تہذیب نے بظاہر عورت کو مر د کے مساوی
حقوق دئیے ہیں اسے دفتروں ، دکانوں ، کار خانوں ، کلبوں اور ہر شعبہ حیات
میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا تصور پیش کیا ہے لیکن اگر بہ نظر غائر
دیکھا جائے تومر د نے عورت کو آزادی عمل کا یہ حق اس لئے نہیں دیا کہ اسے
معاشرے میں بلند مقام حاصل ہوبلکہ اس لئے کہ وہ معاشی پیداوار میں اس کا
ہاتھ بٹا سکے اورکچھ اس لئے کہ اس کے حسن کے کرشموں سے زیادہ سے زیادہ لطف
اندوز ہوسکے ، فرانس جیسے ترقی یافتہ اورفیشن پرستوں کے ملک میں عورت کو
ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا کچھ سال پہلے یہ حق ان کو دیا گیا ہے اس وقت
بھی امر یکہ جیسے امیر تر ین ملک میں کام کر نے والی عورتوں کو مر دو ں کے
مقابلے میں آدھا معاوضہ ملتا ہے ۔عورت کا مطلب ہی ڈھکی ہوئی چیز ہے ہمارے
معاشرے میں جب کو ئی عورت گھرکی چوکھٹ کواپنے مقاصد اور ضروریات کو پور
اکرنے کیلئے پار کرتی ہے تو اسکے کردار پر بہت انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں
اوراسے بہت سے سوالات کا سامناکرنا پڑتاہے ، خواہ وہ کتنی ہی تعلیم یافتہ
کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح جب کوئی عورت اپنی قابلیت کے جو ہر دکھانے کیلئے
مردوں کے برابر کھڑی ہوتی ہے تو پردہ کی حالت میں اسکاکام کرنا معیوب خیال
کیاجاتا ہے ۔ ہمار ے معاشرے کے لوگوں کے رویوں میں اس قدر تضاد ہے کہ ایک
طرف عورت کو گھر سے باہر نکلنے اورملازمت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن
دوسر ی طرف جب وہی عورت خود کو حجاب میں لپیٹ کر معاشی ضروریات کو پور ا
کرنے کیلئے ملازمت اختیارکرتی ہے تو وہی لو گ اسکے پردے اورحجاب پر اعتراض
شر وع کردیتے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ ملازمت صرف مجبور
ی کی حالت میں اپنے اہلخانہ کی ضروریات کو پور اکرنے کیلئے کرتی ہے ایسا
کیوں ؟ کیا حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟ کیا ایک عورت خود کو
ڈھانپ کرکام نہیں کرسکتی ؟ ہم لوگ کیوں عورت کی انفرادیت کو اہمیت نہیں
دیتے ؟ آج جہاں عورتوں کی ایک بڑی تعد اد بازاروں میں دوپٹے کے بغیر اپنی
تر قی پسند ی کا مظاہر کرتی پھرتی ہے وہاں کچھ عورتیں ایسی بھی ہیں جو حجاب
میں رہتے ہوئے معمولی معاشی ترقی کا حصہ بننا چاہتی ہیں لیکن انکا کوئی
پرسان حال نہیں ہے اورانہیں مساوی مواقع نہیں دئیے جاتے ۔ یہ درست ہے کہ
عورت آج زندگی کے ہر شعبے میں کام کررہی ہیں لیکن کہیں تو حجاب کرنے کی
پابندی ہے اورکہیں حجاب نہ کرنے کی پابندی جسکی وجہ سے وہ بہت مشکل میں ہیں
۔ بہت سے اسلامی ممالک میں حجاب ایک مسئلہ ہے جس کو عورت کی تر قی کی راہ
میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ۔ مصطفی کما ل پاشا نے تر کی میں پر دہ کرنے پر
پابندی عائد کردی تھی اور یو ں طالبات یونیورسٹی اور کالجوں میں پر دہ کر
کے نہیں جاسکتی تھیں ۔ تر کی ایک اسلامی ملک ہے اوراس قسم کے حکومتی فیصلے
عوام کی روایات مذہب اور دلی امنگوں کے برعکس ہوتے ہیں لیکن آج کل ترکی میں
خواتین کی بہت بڑی تعد اد حجاب اور پر دے میں نظر آتی ہے۔ علماء کا کہنا ہے
کہ حجاب کبھی بھی عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل نہیں کرسکتا کیونکہ
یہ عورت پر منحصرہے کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرتی ہے ۔ سورۃ النور میں
اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ ’’ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبان پر ڈال لیں اور اپنی
زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں لیکن اپنے خاوند کے سامنے اسلامی نقطہ نظر
سے عورت حجاب کی پابند نہیں ہے ۔ جب حضرت اسماء ؓ حجاب کرکے اپنا سب کام
انجام دے سکتی ہیں ، حضرت عائشہ ؓ مردوں کو دین کی تعلیم دے سکتی ہیں ،
حضرت فاطمہ ؓ دینی کام حجاب میں رہ کرکرسکتی ہیں تو آج کی عورت کیوں نہیں
کرسکتی ؟ افسو س یہ ہے کہ ان مثالوں سے مستفید ہونے والا اور سبق حاصل کرنے
والا انسان بھٹک گیا ہے ۔ حجاب کرنا ایک انفرادی عمل ہے ۔ اﷲ تعالی فرماتے
ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں ، اسی طرح حجاب کی پابندی جبراً نہیں کی
جاسکتی اورنہ کسی کو اسے اتارنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے ۔ اگر کوئی عورت
نقاب میں تعلیم حاصل کرسکتی ہے تو وہ ملازمت بھی کرسکتی ہے ایسا ہی کچھ
خیال پنجاب یونیورسٹی سے فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر روبینہ کا
ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر کبھی بھی احساس کمتر ی محسوس نہیں
ہوا کہ جب باقی لڑکیاں بال بکھیرے اپنی خوبصورتی اورزینت کی نمائش کررہی
ہوتی ہیں ان کا عمل ان کے ساتھ ہے اور میرا عمل میر ے ساتھ ہے مومن عورتیں
حجاب میں ملبوس ہر طرح کے کام کرتی تھیں تو پھر آج کی عورتیں اے سی کی
ٹھنڈی ہوا میں کسی دفتر میں کام کیو ں نہیں کرسکتیں ؟ ہمار ے ہاں یہ بحث
چھڑی ہوئی ہے کہ عور ت پردہ کرے یا نہ کرے ۔ وہ ملازمت کرسکتی ہے یا نہیں
کرسکتی ۔ دیکھا جائے تو عورتیں کسی بھی ملک کی معاشی اور سماجی تر قی میں
اہم کردار اد اکرسکتی ہیں ۔ پاکستان ایک اسلا می ملک ہے اورعورت پردے میں
رہتے ہوئے بھی اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہے ، عورت بنیادی طور پر
انسان ہے اور اﷲ کی دوسری مخلوقات کی طر ح انفرادی حیثیت اورحقوق رکھتی ہے
۔اسلام نے عورتوں کو وہ مر تبہ دیا ہے کہ اس کے سامنے سب رشتے ہیچ ہوجاتے
ہیں ، والدین کی فرماں بر دار ی کے بار ے میں کئی آیات میں حکم آیا ہے
،،اور پھر ماں باپ میں زیادہ درجہ ماں کو دیا گیا ہے، ، ایک صحابی نے آپ ﷺ
سے دریا فت کیا کہ یا رسو ل اﷲ ﷺ سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کو ن
ہے ؟ فرمایا تیری ماں ، پھر پوچھنے پر فرمایا تیر ی ماں : تین دفعہ آپ ﷺ نے
یہی جواب دیا چو تھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد ہوا تیرا باپ ، حضور ﷺ نے ایک
دن چار بڑے گناہوں کا ذکر کیا اور سر فہرست ماں کی نافرمانی کو قرار دیا
اورفرمایا کہ تمہار ے خدا نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کی ہے، اسلام نے
عورت کو روحانی ترقی کے سلسلے میں بھی نظر انداز نہیں کیا ، زندگی کے ہر
شعبے میں مسلمان خواتین نے مثالی کردار اداکئے ۔ علم و ادب کے میدان میں ،
جنگ کے میدان میں اور سیاست کے میدان میں نمایاں کار نامے سرانجام دئیے
۔والدہ یعنی بڑی اماں ، جہانگیر کی ملکہ نو ر جہان ، ہارون الرشید کی ملکہ
زبیدہ اور مو جو دہ دور میں سابقہ وزیر اعظم شہید محتر مہ بے نظیر بھٹو کی
کامیاب مثالیں ہمار ے سامنے مو جو دہیں ۔ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات میں عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے ،
اس کی کو شش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی طر ح پرورش کرے لیکن اسلام
میں یہ بھی نہیں ہے کہ عور ت گھر میں ہی نظر بند رہے یا پھر اس کا گھر سے
باہر نکلنا بالکل ہی ممنوع قرار دیا گیا ہے بلکہ ضرور ت کے وقت اسلامی
احکامات کے مطابق وہ ایسا بھی کر سکتی ہے ، اس کے علاوہ بھی کئی ایسے معا
ملات ہیں جو اسلام کی رو سے دیگر کئی مذاہب اورمعاشر وں کی نسبت بہت بہتر
ہیں ، اسلام نے عورت کو ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی کے روپ میں انتہائی قابل
احترام درجے دئیے ہیں اور آج ساری دنیا یہ مان رہی ہے کہ اسلام نے خواتین
کو جو حقوق دئیے ہیں وہ کسی اورمذہب نے نہیں دیئے اوران تمام معاملات کو
دیکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام نے عورت کو مجمو عی لحاظ
سے جو عزت کا مقام عطا کیا ہے وہ غیر مسلم عورتوں کے لیے لائق رشک ہے ۔ |