موجودہ سماج اور ہمارے رویئے

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ـــــــــــــکہ اولاد نے اگر والدین میں سے کسی ایک کو اپنے سامنے پایااور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکی تو یہ تمھاری بدقسمتی ہو گئی ۔والدین خواہ وہ کسی بھی مزہب یا مسلک کے ہو اولاد کے لیے قابل احترام ہو تے ہیں ۔ان کی خدمت کرنا یا دیکھ بھال کرنا اولاد کا حق ہوتا ہے ۔ہمارا مذہب اسلام ہمیں والدین کے متعلق واضح ہدایت کرتا ہے کہ والدین تمھارے لیے واجب احترام ہیں تم ان کو مت جھڑکو اور نہ ہی انہیں سخت الفاظ کہو بلک اپنے رب کے آگے یہ التجا کرو کہ اے میرے رب ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے بچپن میں پالا پوسا ہے ۔والدین ہمارے لیے عطیہ خداوندی ہیں ۔بچپن میں جب ہم خود چل پھر اور کھا پی نہیں سکتے تو یہ والدین ہی ہو تے ہیں جو کہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ۔اور ہمارا خیال رکھتے ہیں۔آج کل کے دور میں ہمارا رویہ والدین کے ساتھ اس کے برعکس ہے ۔پانچ سال قبل کبھی کبھار ہمیں یہ خبر ملتی تھی کہ میں نے اپنے بیٹے /بیٹی کوعاق کر دیا ہے لیکن آج روزانہ کی بنیاد پر اخبار میں دو سے تین اشتہار عاق نامہ کے ہوتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ؟ دراصل زلزلہ کے بعد تین چیزوں نے ہمارے رویئے اور اقدار منفی راہ پر ڈال دیئے ہیں ۔پیسہ ،ٹی ،وی اور موبایئل فون ۔ان تین چیزوں نے ہمیں غلط راہ پر ڈال ڈیا ہے ۔ہماری اخلاقی قدریں انتہائی نیچی سطح تک گر گئی ہیں ۔ماں،باپ ،بہن ،بھائی اور انسانیت کا جو تصور ہمیں اسلام نے دیا تھا ۔ہم نے اسے یکسر فرامو ش کر دیا ہے۔اور ہم مغربی اقدار کی پاسداری کرتے نظر آرہے ہیں ۔ٹی ،وی پر انڈین اور مغربی ڈرامے دیکھ دیکھ کر ہم شرم وحیا ،غیرت اور اخلاقی اقدار کو کھو بیٹھے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل سٹار پلس کو نہیں چھوڑ سکتی ۔چاہے اس کے بدلے اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو ۔ان چیزوں کی وجہ سے ہی آئے روز شریف اور باعزت خاندانوں کی لڑکیاں یا تو گھر سے بھاگ کر لا پتہ ہو جاتی ہیں یا پھر کورٹ میرج کر کے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیتی ہیں ۔مسلمانوں کے لیے زندگی گزرانے کے لیے قرآن پاک کی شکل میں ہدایت کا ایک وسیع سرچشمہ موجود ہے لیکن ہم نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ۔اس کے برعکس آج کل کے نوجوان والدین پر تشدد کرتے ہیں ۔اور ان کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض نوجوان اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں ۔ حالا نکہ ہمارا فرض ہے ہم اپنے والدین کی اطاعت کریں ۔بڑھاپے میں ان کی خدمت کریں ۔اور ان کو کسی بھی قسم کی تکلیف یا دکھ نہ پہنچائیں ۔اسی میں ہماری بہتری ہے ۔والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچانے کے لیے ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں ۔اور کوئی بھی غلط اقدام اٹھانے پر انھیں روکیں۔انھیں تنبیہ کریں کہ یہ چیز آپ کے لیے درست ہے یا غلط تا کہ بعد میں والدین کو بھی نہ پچھتانا پڑے ۔اس عمر میں ہم والدین کی اصلاحی باتوں کو کچھ اور سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔لیکن یہ درحقیقت یہی باتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں -
Zubair Malik
About the Author: Zubair Malik Read More Articles by Zubair Malik: 11 Articles with 8694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.