من کی دنیا کا احساس عبدیت

جب بندہ اہتمام کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور اپنے دُکھوں کا بوجھ خالق کے دربا رمیں عرض کی صورت میں رکھتا ہے تب خالق اپنے بندے کی عاجزی اور انکساری کو بہت پسند کرتا ہے اور بندے کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے ۔رب پاک اور بندے کا تعلق اسی طرح ہے جس طرح ایک بے حس وحرکت تصویر کو بنا نا والا جیسے مرضی رنگ بھردے اور اِن رنگوں کی بدولت وہ تصویر ایک خوبصورت نظر آنے لگے ۔اب مصور اور تصویر کا جو تعلق ہوتا ہے وہ خالق اور محلوق والا ہے ۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام تر حالات وواقعات اِس بات کے شاہد ہیں کہ انسان کی حثیت کیا ہے ۔محبت کے ساتھ نفرت بھی انسان کی جبلت میں ہے ۔چاہے جانے کا جذبہ انسان سے نیکیاں بھی کرواتا ہے اور انسان کو بدی کی طرف بھی لے جاتا ہے ۔بندے کی ساری تگ و دو ایک ایسے ٹائم فریم کے اندرہے جس کے متعلق کچھ بھی حتمی نہیں ۔اگر ایک جہا ز لاہور سے پرواز کرتا ہے اُسے ساوتھ افریقہ جانا ہے ۔اب راستے میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے ۔یہ ہی انہونی یا Probility کا جو فیکٹر ہے یہ ہی خالق کے وجودکی گوا ہی دیتا ہے اور خالق کے ہونے کی دلالت کرتا ہے ۔سفر منزل کی جانب جب شروع ہو اور سفر کرنے والے کو منزل تک پہنچنے کی بے یقینی ہو تو در حقیقت یہ بے یقینی رب پاک پر حق الیقین ہے خالق کے معبود ہونے کی پہچان ہر اُس عمل سے ہو تی ہے جو بندے کے ارادوں کے مخالف ہو ۔ذرا تصور فرمائیے اگر انسان دوسرئے سے عاجزی اور انکساری سے ملتا ہے اور اُس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرتا ہے تو جس کے سامنے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنے دل میں نرمی پیدا کر لیتا ہے ۔یہ حال تو ایک دنیا دار شخص ہے لیکن خالق کے سامنے جب عجز و انکساری ہو اور خالق اپنے بندئے سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندئے کو خالی نہیں لوٹاتا۔عبد کا اختیار اُسکی عبدیت پر منحصر ہے جیسے جیسے وہ اپنے رب کے رستے پر چلتا ہے ویسے ویسے وہ ایک مقبول عبد کی حثیت حاصل کرلیتاہے ۔ ہو۔انبیا ء اکرام تو گنا ہوں سے پاک ہیں وہ بشری لبادے میں رب پاک کے خاص عبد ہیں ۔اُن پر اُس طرح کے قوانین فطر ت کا اطلاق نہیں جس طرح ہم پر ہے ۔خالصتاـاپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے ۔خالق ا ُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے ۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے ۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُس کے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے ۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے بلکل اِسی طرح جیسے اگر کمپیوٹر کا کوئی بھی سافٹ ویرء استعمال کرنا ہو۔ تو کمپیوٹر میں اُس سافٹ ویئر کے ڈرائیورز اپ لوڈ کرنا پڑتے ہیں۔ اِسی طرح رب نے انسانوں کو اِس طرح ایک دوسرئے کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرئے کے جزولاینفک گردانے جاتے ہیں۔ متذکرہ بالا معاشی مفروضے کی آخری سٹیج میں اِس بات کاذکر ملتا ہے کہ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر سے اُس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں ادویات خوراک وغیرہ لیکن بڑھاپے کی وجہ سے اُس کے اندر کام کرنے کی سکت کم ہوجاتی ہے جس سے اُس کی معاشی استعدادِکار کمزور ہو جاتی ہے۔ تینوں درجات کا تذکرہ اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خالق کا اپنے عبد کے لیے ہمیشہ رویہ عطا ہی عطا ہے۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430287 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More