جنگ کے دن اور جنگ کی راتیں

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے ایک خواب دیکھا کہ وہ کسی بت کی پوجا کررہے ہیں تو اس بت نے انھیں بتایا کہ 1965کی جنگ میں تو تمھیں فتح ہوئی تھی تم 50سال سے اس کی شکست مناتے ہو بس صبح اٹھتے ہی انھوں نے اپنے مشیروں کو بلایا اور کہا کہ 1965میں ہمیں فتح حاصل ہوئی تھی ،لہذا اس دفعہ اس فتح کی گولڈن جوبلی منائی جائے،ہم نریندر مودی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے جھوٹے خداؤں کی بتائی ہوئی جھوٹی فتح کا جشن منا کر ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم اپنے سچے رب اور خدائے واحد کی طرف سے دی ہوئی حقیقی فتح کے جشن منا کر اپنے رب کا شکریہ ادا کریں۔

ستمبر1965کی جنگ میں جب میری عمر 13سال تھی جنگ کے دن اور جنگ کی راتیں اب بھی یادوں کا حصہ ہیں ۔اسی سال جنوری میں رن آف کچھ میں بھارت کو ایک چوٹ لگ چکی تھی ،دوسری چوٹ آپریشن جبرالٹرکے حوالے سے لگ رہی تھی گو کے یہ بھٹو صاحب کی ایک ناقص منصوبہ بندی تھی اس کا ہوم ورک نہایت کمزور تھا ۔بھٹو صاحب نے صدر ایوب کو یہ پٹی پڑھائی کہ انھیں بڑی طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ بھارت بین الاقوامی سرحدوں کو عبور نہیں کرے گا ،اسی لیے پاکستان نے سرحدوں پر اپنی فوج نہیں لگائی ،بہر حال 5اور6ستمبر کی درمیانی رات کے بالکل آخری پہر اچانک محلے میں شور مچا ہم بھی سب لوگوں کی طرح باہر آئے تو دیکھا کہ تمام اہل محلہ جس میں کچھ بوڑھی خواتین بھی تھیں گھروں سے باہر کھڑی ہیں لوگ ادھر ادھر جارہے ہیں سب ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی اس وقت ذریعہ اطلاع کیا تھا لاہور میں تو چونکہ سرحد لگتی ہے اور فوجیوں کی حرکات و سکنات سے شہریوں کو پتا چل گیا اس زمانے میں ریڈیو کی نشریات بھی رات 11بجے بند ہوجاتی تھی ۔ہو سکتا ہے لاہور سے کسی نے کراچی میں اپنے رشتہ داروں کو فون پر بتایا ہو پھر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ہم بھی حیران و پریشان تھے اس وقت آٹھویں کلاس میں تھے اس لیے تاریخ کی کتابوں میں پرانی جنگوں کے علاوہ بیسویں صدی میں یورپ میں ہونے والی دو جنگ عظیم کے اسباب اور اس کے خوفناک اثرات و نتائج کے بارے میں ضرور پڑھا ہو ا تھا ۔

تھوڑی دیر میں فجر کی آزان ہو گئی ہم جب مسجد پہنچے تو دیکھا کہ جہاں عام دنوں میں نماز فجر میں مشکل سے دو تین صفیں ہوتی تھیں وہ پوری مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ایساہی حال کم وبیش تمام مساجد کا تھا ، اس لیے جب ہم صبح حسب معمول اسکول پہنچے تو صبح کی اسمبلی میں ہمارے ہیڈ ماسٹر جناب ماجد علی درباری صاحب نے اس جنگ کے حوالے سے اپنی گفتگو رکھتے ہوئے کہا کہ آج مساجد میں نمازیوں کی تعداد الحمداﷲ بہت زیادہ تھی عام لوگوں نے اپنے رب سے لو لگائی ہے امید ہے پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہو گا ۔اس دن اسکول سے جلدی چھٹی ہوگئی ۔گھر آنے کے بعد والدہ نے کہا کہ کئی دن سے تم سے کہہ رہے ہیں کہ گھر میں قلعی کرنا ہے اس لیے چونا لے آؤ اس زمانے میں سرکنڈوں کی جھونپڑی سے سمنٹ بجری کی اینٹوں سے بنے کمرے میں منتقل ہو چکے تھے ہم کیا ہم جیسے بیشتر لوگ یہ رہائشی ترقی کر چکے تھے ۔بہر حال ہم جب دکان پر پہنچے تو دکاندار بھارت کے حملے کی خبر دینے والا سپلمنٹ پڑھ رہا تھا جو اس وقت مارکیٹ میں آچکا تھا ۔ہم جب واپس گھر کی طرف آرہے تھے جگہ جگہ پان کی دکان یا ہوٹلوں پر جہاں ریڈیو ہوتے تھے لوگوں کا رش دیکھا ایسا رش اس زمانے میں کرکٹ میچ کی کمنٹری سننے کے لیے نظر آتاتھا اسی طرح کی ایک بھیڑ کے پاس ہم بھی کھڑے ہو گئے تو معلوم ہوا کہ صدر ایوب خان کی تقریر لوگ بڑے انہماک سے سن رہے ہیں ،ہم نے بھی وہ جوشیلی تقریر کھڑے کھڑے سنی جس میں کلمہ کے بعد یہ جملہ بہت موثر تھا کہ دشمن کو معلوم نہیں ہے کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے ۔اب وہ پورا دن اسی بحث و گفتگو میں گزرا کہ رات میں کیا ہو گا ہمارے گھروں میں ہر جگہ بجلی نہیں آئی تھی گھروں میں چراغ اور لالٹین کا رواج تھا ۔بلیک آؤ ٹ کے بارے میں ریڈیو سے اعلانات ہونے لگے بہت سے لوگ اس کی تفصیل ہوٹلوں اور بیٹھکوں میں آ کر ان لوگوں کو بتاتے جن کے گھروں میں ریڈیو نہیں تھے ۔

رات آئی پونے آٹھ بجے ریڈیو پاکستان سے خبریں آتی تھیں ۔خبریں پڑھنے والے تین افراد جس میں سے دو جناب شکیل احمد اور انور بہزاد اتنے جوشیلے انداز میں خبریں سنایا کرتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ میدان جنگ سے جنگ کی تفصیل اپنے سامعین کو جنگ کے پورے اتار چڑھاؤ کے ساتھ سنا رہے ہیں ۔بلیک آؤٹ میں ہدایت آئی گھروں کی تمام بتیاں جن کی روشی باہر آتی ہوئی نظر آئے انھیں بجھا دیا جائے صرف لالٹین یا چراغ ضرورت پڑنے پر اس طرح جلایا جائے کہ اس کی روشنی باہر نہ آئے دو ماہ کا میرا چھوٹا بھائی تھا اس لیے کمرے میں والدہ صاحبہ ایک کونے میں چراغ جلا کر رکھتی تھیں وہ بھی سائرن بجنے کے بعد بجھا دیا جاتا ۔بسوں، رکشاؤں،ٹیکسیوں،ٹرکوں اور پرائیویٹ کاروں کو یہ ہدایت کی گئی کہ اپنی ہیڈلائٹس کو اوپر سے تین چوتھائی کالا کر دیا جائے اور ایک چوتھائی روشنی میں گاڑیاں چلائی جائیں اور وہ بھی جب خطرے کے سائرن کی آواز آئے تو بجھا دی جائیں اور گاڑیوں کو ایک طرف کرکے روک دیا جائے ،جب خطرہ ختم ہوجانے کا سائرن ہو تو گاڑیاں اسٹارٹ کی جائیں ۔

رات کے وقت بلیک آؤٹ ہونے کے باوجود عام دنوں سے زیادہ چہل پہل ہوتی اس لیے ایک سال پہلے ایوب خان کی دھاندلی کامیابی کے بعد شہر میں گوہر ایوب کی وجہ سے لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے تو اس وقت بھی محلے میں لوگ مختلف مقامات پر اپنی پرائیویٹ چوکیاں بنا کر جاگتے تھے چائے کا دور چلتا تھا اس زمانے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اطلاع دینے کا سسٹم بجلی کے کھمبے ہو تے تھے ۔جب ایک جگہ کھمبے بجنا شروع ہوتے پورے لیاقت آباد میں کھمبوں کی موسیقی شروع ہو جاتی ۔اسی واقع کے ٹھیک ایک سال بعد جنگ شروع ہوگئی ۔اب پھر اسی طرح کی فضاء اور ماحول بن گیا ۔لیکن فرق یہ تھا کہ اس وقت آپس میں کوئی تعصب نہ تھا پوری قوم جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی ۔لیکن محلوں میں رونقیں عروج پر تھیں اسی طرح جگہ جگہ چٹائی اور بانسوں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی جھونپڑی نما کٹیائیں بنتی تھیں اگر سرد ی ہوتی تو اس کے بچاؤ کے لیے لوگ اپنے گھروں سے ٹوٹی ہوئی ٹینیں اور تختے لا کر عارضی چھت بنا لیتے وہیں پر چائے کے ادوار چلتے محلے کے افراد نے ازخود جاگنے اور سونے کے اوقات تقسیم کر لیے تھے کہ رات ایک بجے فلاں فلاں لوگ آئیں گے اور پہلے کے بیٹھے ہوئے لوگ سونے کے لیے چلے جائیں گے لیکن جب کسی وقت سائرن کی آواز آتی تو سب لوگ گھروں سے نکل آتے ۔

حکومت کی ہدایت پر احتیاطاَ خندقیں بھی کھود لی گئیں تھیں لیکن وہ کبھی اس مقصد کے لیے استعمال میں نہیں آئیں جن کے لیے انھیں کھودا گیا تھا ،دن میں بچے اس میں کھیلتے اور رات میں کچھ شوقین اس میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آتے ۔

دن میں مرد حضرات اپنے کاروبار اور دفاتر کے لیے روانہ ہوتے لیکن ہر جگہ خبریں سننے کا معقول انتظام ہو تا گھر میں خواتین گھریلو کاموں کے بعدمحلے پڑوس میں خبروں کے لیے ریڈیو رکھنے والے گھرں کی خواتین سے جنگ کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرتیں اور اس پر تبصرہ بھی کرتیں ۔پھر ریڈیو سے ہر روزنئے قومی نغمے شوق سے سنے جاتے کہ اس سے ایک خاص قسم کے جذبوں کو جلا ملتی اور یہ کہ اس زمانے میں بعض نغمے بڑے مشہور ہوئے جو آج بھی اسی طرح شوق سے سنے جاتے ہیں روزآنہ رات کو "پاکستانی بڑے لڑیا "کا گیت لوگ شوق سے سنتے اسی طرح عرش منیر کی آواز میں ایک مزاحیہ خاکہ" میں نہ مانوں "کے عنوان روز خبروں کے بعد ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا بس جنگ یہی جنگ کے رات دن تھے جو بغیر کسی خوف کے بڑے جوش خروش کے ساتھ گزر گئے۔

جنگ کے زمانے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی کاروباری فرد نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا اور یہ کہ کسی بھی چیز کی قلت نہیں ہوئی کہ خدا نہ خواستہ آٹا ،چینی یا دیگر اشیاء کا بحران پیدا ہوا ہو۔خبروں کے حوالے سے ریڈیو واحد ذریعہ تھا جس سے لوگ ریڈیو پاکستان تو سنتے ہی تھے اس کے علاوہ ہندوستان کے ریڈیو آکاش وانی اور آل انڈیا ریڈیو بھی تفریحاَ سنے جاتے تھے تفریحا۔ میں نے اس لیے کہا کہ بعد لوگ چوپالوں اور بیٹھکوں میں ان خبروں پر پر مزاح تبصرہ کرتے تھے جیسے مثلاَ اسی دوران آل انڈیا ریڈیو نے خبر نشر کی کہ ہمارے ہوائی جہازوں نے کراچی میں تین ہٹی کا ہوائی اڈہ بمباری سے تباہ کر دیا ۔اسی طرح کی اور فرضی اور جھوٹی خبریں اپنے عوام کا مورال قائم رکھنے کے لیے انڈیا کے ریڈیو سناتے رہتے تھے۔جس طرح آج خبروں کے بہت سارے چینلز ہیں تو خبروں کا سیلاب بہتا ہوا نظر آتا ہے اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا میں واحد ریڈیو تھا اور پرنٹ میڈیا میں اخبارات تھے اس لیے افواہوں کے سیلاب کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا ۔مثلاَ یہ کہ ماری پور ہندوستان کے چھاتہ بردار اترے تو انھیں شہریوں پکڑ لیا بے پناہ تشدد کرکے پولیس کے حوالے کردیا گیا ،اور یہ کہ انڈیا کے جاسوس بڑی تعداد میں آگئے ہیں اب محلے میں جو بھی مشتبہ شخص نظر آتا اسے جاسوس کہہ کر پکڑ لیا جاتا اور پھر ایک کونے میں لے جا کر اس کی مسلمانیت کو چیک کر کے چھوڑ دیا جاتا یہ ایک قسم محلے کے لڑکوں کا شغل میلہ تھا ۔بہر حال جنگ کے یہ سترہ دن عام لوگوں نے روٹین سے ہٹ کر ایک تفریح enjoymentکے طور پر گزارے جہاں کسی کے چہرے پر جنگ کے خوف کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.