ملک مشینیں نہیں بدلتے

کیا ہم واقعی تنہا ہوچکے ہیں - شور ہے لوگ ہیں،مسکراہٹیں ہیں، قہقہے ہیں ، پر رونق بازار ہیں ، بے ہنگم رقص میں محو زندگی ہے ۔ خواہشوں میں جھومتے انسان ہیں ۔ سہانے مستقبل کے سپنے ہیں ۔ ہوٹل ہیں ان میں کھانے کے شوقین حضرات کی نہ ختم ہونے والی بھیڑ ہے ۔ نئے نئے پراجیکٹس ہیں ۔ترقی کے دعوے ہیں ۔ تقدیریں بدل دینے کے نعرے ہیں ۔ ہر ٹیکنالوجی ہمارے پاس ہے ۔ سمارٹ فون سے لیکر ایٹمی میدانوں تک ہماری حکمرانی ہے ۔ میٹرو کا جال بچھانے کے ہمالیہ سے اونچے عزم ہیں ۔ موٹرویز ہیں ۔ شہریوں کی بڑھکیں الگ ہیں ۔ حکومت کی ڈینگیں شاندار بلکہ بے مثال ہیں ۔ یہ سب کامیاب لوگ جب بھی ٹی وی کا سوئچ آن کرتے ہیں اخبار چاٹنے کی کوشش شروع کرتے ہیں یا سماج کے ان داتا مارک زکر برگ کی سماجی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو ایک زور دار جھٹکا لگتا ہے ۔ سب کچھ چھناک سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ کبھی قصور واقع کی خبریں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرنے کی پریشانی کا طوق ان کے گلے میں لٹکا دیتی ہیں تو کبھی چوری ڈکیتی کی وارداتیں ان کی دنیا کے سکون کو برباد کر دیتی ہیں ۔ہر روز یہ کامیاب لوگ بڑے اطمینان سے یہ سوچ کر زندگی میں مگن ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ان خبروں کے سیلاب سے بہت دور بہہ رہی ہے۔ خبریں ہیں کہ ناگنوں کی طرح ان کے پیچھے رینگتی رہتی ہیں ۔ بات مردہ جانوروں کے گوشت کی سیل سے سٹارٹ ہوئی مگر سب بھنگ پی کر سوئے رہے کہ جیسے یہ خبر تو کسی دوسرے ملک کی تھی غلطی سے ہمارے ملک میں نشر ہوگئی ۔ یہ قریب پانچ سال پہلے ہماری مدہوشی کا عالم تھا ۔ عوام اپنی مستی میں مست تھے خواص اپنی دنیا میں اونچی فلائیٹ کا مزہ لے رہے تھے ۔ مردہ جانوروں سے مردہ مرغیوں کی فروخت تک کاروبار پہنچا مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ حوصلے مزید بلند ہوگئے تو گھوڑوں اور گدھوں کا گوشت فروخت کرنے تک نام کے مسلمانوں نے ٹھان لی ۔ ان کے حوصلے اپنی جگہ ہمارے بھی ذائقے کا جواب نہیں ۔زندگی کی مستی میں ہم ذائقے جیسی نعمت اور حس کو بھی بھول چکے ہیں ۔ واویلا مچا عوام اور حکومت کے کانوں پر علامتی جوں رینگی قصابوں کے لائسنس جاری ہوئے۔ نہ کسی کو سزا ہوئی نہ کسی کو جزا ملی ۔ سزاکا کوئی پیمانہ موجود نہیں آئین و قانون میں پھر بھلا کوئی کیوں رکے ۔ آج سور کا گوشت سپلائی ہونے اور پکڑے جانے کی خبر زینت بنی ہے۔ مگر ہم پھر بھی ترقی کی دوڑ میں رکنے کے لئے تیار نہیں ۔ واہ ہماری دوڑ اور ہماری پھرتیاں ۔ چائنا کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں بندر سے لیکرگدھے اور مینڈک تک ہر چیز خوراک کاایک حصہ ہے ۔ جب بھی کسی بزرگ کو یہ بات پتا چلتی تو بڑی ناک بھوں چڑھاتے گوروں کو بھی صلواتیں سناتے جانے۔ کیسے غلیظ اور ناپاک لوگ ہیں کہ کتے تک کھا جاتے ہیں۔ اکثر بوڑھی عورتیں تو محض تصور کرکے ناک پکڑ لیتیں کچھ کو تو متلی کی سی کیفیت بھی ہوجاتی ۔ آج انہیں بزرگوں کے کارناموں کے طفیل وہ دن آچکا ہے کہ بڑے آرام سے سب کچھ بغیر ڈکار لئے ہضم کئے جارہے ہیں ۔ ہمارے بزرگ اس میں کوئی شک نہیں کہ حد درجہ کرپٹ تھے بات تو سچ ہے مگر ہے ذرا نہیں کافی سخت ۔ انہوں نے ہر محکمے میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے ۔ یہ ایسی چوری چکاری کی داستان مرتب کرتے رہے کہ محکمے او ر ادارے محض کر پشن کی فیکٹریاں بن گئے ۔ آج کے جوان تب بچے تھے یہ بچے اس کرپشن زدہ دور کی پراڈکٹ ہیں یہ بچے تب مظلوم تھے کہ بولتے تو برے بنتے ۔ ماں باپ کے دولت کمانے کے نت نئے طریقے دیکھ کر انہیں عجیب بھی لگتا ۔دن کو استاد پڑھاتے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں ۔ استاد بھی بڑے کمال کے لوگ تھے ۔ ایک استاد آتا تو وہ رشوت لینے والے کو دینے والے سے بڑا دوزخی بتاتا ۔دوسرا استاد آکر دینے والے کو لینے والے سے بڑا جہنمی قرا ر دیتا ۔ مگر ان آج کے جوانوں اور ماضی کے بچوں کی زندگی میں دونوں ہی کردار برسر پیکار تھے ۔گھر کی چھت تلے باپ رشوت لینے والا تو ماموں دینے والا تھا ۔ہمسائے کے گھر بھی چکر یہی تھا ۔ مگر ترتیب ذرا الٹ تھی ۔ معاشرہ تباہ ہوتا رہایہ جوان ہوتے رہے کتابوں کی تعلیم اور ماں باپ کی تربیت کے فرق نے انہیں باغی اور بدتمیز بنادیا ۔ کھیل چلتے چلتے یہاں تک آپہنچا ہے کہ جس بات کا تصور تک آج سے بیس تیس سال پہلے محال تھا آج وہی بات مکروہ مجسم چہرہ لئے ایک بلاکی صورت ہماری زندگیوں کے ہر شعبے کو چٹ کرتی اور نگلتی چلی جارہی ہے ۔ کوئی بھلے ہی نہ مانے مگر ہمارے نوجوان کرپٹ نہیں ہیں ۔یہ معاشرے سے بے زار ضرور ہیں مگر چورنہیں ہیں ۔ ان کے ٹیلنٹ سے کوئی فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں ۔ نہ کوئی اپنی فیکٹری ان کے حوالے کرنے کو تیار ہے نہ کوئی اپنا کاروبار انہیں سونپنے کو آمادہ ہے ۔ بوڑھے لوگ اپنی لاغر پالیسیوں کے سہارے چیزوں کو ٹھیک کرنے کی اپنی سی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ انہی کوششوں کا ثمر ہے کہ آج مارکیٹ میں سور شوارما دستیاب ہے ۔ کیا یہ واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کیا ہم واقعی ہی مسلمان ہیں ۔ کب تک قانون بن جائے گا ۔ ہمارے انرجیکٹ بزرگ حضرات قانون بناتے دس سال پھر اس کے مطابق سزا دینے کا طریقہ کار وضع کرنے میں مزید دس سال لگانے کا پلان بنائے بیٹھے ہیں۔اس وقت تک شائد ہر جانور مارکیٹ میں سرعام بکنا شروع ہوجائے گا ۔ جس حرام کھانے کا آغاز ہوا تھا آج وہ ہماری جیب سے ہوتا ہوا کھانے کی پلیٹ میں داخل ہو چکاہے ۔ ہمارے خون میں رچ بس چکا ہے ۔ پھر بھی عمران خان غلط ہے۔ وہ کسی کو چور بھی کہے تو غلط وہ کسی کو کرپٹ کہے تو بھی جھوٹا ۔ اس کے نوجوان ووٹر دھرنا بھی دیں تو قانون شکن یہ پولیس کو گلو بٹ کہیں تو تب بھی یہ قانون کے ساتھ مذاق کرنے والے ۔ یہ الیکشن سسٹم اور دھاندلی کو پوائنٹ آؤٹ کریں تو یہ سسٹم کے باغی شراب بیچنے والے جب خود پولیس والے ہوں ۔ چرس بیچنے والے جب پولیس کے رضا کار ہوں ۔ دفتروں میں جب لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہ ہو تو یہ مان لینے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں ۔ نہ ہماری شکل مومنوں والی ہیں کرتوت ہمارے کافروں سے بھی بدتر ہیں ۔ اگر میری کہی سب باتیں جھوٹ لگیں تو کسی دن محترم پرویز رشید کے دیئے ہوئے پچھلے دس دنوں کے بیانات کا جائزہ لیں آپ کی ہنسی چھوٹ چھوٹ جائے گی ۔ سسٹم تباہ ہوگیا ۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ۔ حرام اشیاء معاشرے میں بک رہی ہیں لوگ کھا رہے ہیں ۔ اس کے با وجود آخری سانس تک گھر پر کاروبار پر فیکٹری پر حکومت ہر ہر ادارے پر قابض رہنے کی خواہش کو حرام قرار دینے پر کوئی تیار نہیں ۔ نوجوان بھی اب فرسٹریشن سے اگلی اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں ۔ یہ وہ اسٹیج ہے کہ جہاں لوگ تنگ آکر حالات کو انجوائے کرنے لگتے ہیں ۔ جہاں یہ گانا آن ائیر ہوجاتا ہے کہ اپنی تو جیسے تیسے کٹ جائے گی آپ کا کیا ہوگا جناب عالی ۔ ہماری ہر چیز سے چمٹے رہنے کی خواہش یہ دن لے آئی ہے کہ لوگ اب غیر مسلم ہوٹل مالکان کے ہوٹلز پر جانا پسند کرتے ہیں۔ اس آس پر کہ یہ لوگ فوڈ کا بزنس ضرور ایمانداری سے کرتے ہوں گے۔ملک انسانوں سے بنتے ہیں ۔ملکوں کی تقدیر تب ہی بدلتی ہے جب اہل ملک انسان بننے کی خواہش پالیں اپنے اندر۔
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 20019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.