میری ماں میری امیدوں کا جہان

۷مارچ 2015کو میرے ابو جان کا انتقال ہوگیا۔میرے ابو نہایت ہی نیک و پاکباز انسان تھے ۔جن کی ساری زندگی دین فلاح اور انسانیت اصلاح میں صرف ہوئی۔پاکستان نیوی میں خدمات سرانجام دیں۔ولی صفت انسان تھے ۔جنھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو دینی و عصری تعلیم دی۔ہماری تربیت اور فکری بصارت میں کچھ کمی نیں چھوڑی ۔میں آج جو کچھ ہوں اپنے امی ابو کی دعا ہی کے بدولت ہوں۔کچھ گھرانوں میں میں نے اولاد کے والدین کے ساتھ قابل گرفت رویوں کو دیکھا تو سوچا کیوں نے ماں ہی کے متعلق کچھ لکھ دوں ۔ویسے بھی ان دنوں ابو کی بہت یاد آرہی تھی ۔امی کی بھی بہت یاد آرہی تھی ۔میں کراچی میں اور میری امی گوجر خان میں ہیں۔لمحہ لمحہ یاد آتی ہے ۔

محترم قارئین :دنیا کا ایک عظیم اور بے لوث رشتہ ۔جس کی کوئی مثال نہیں ۔کلیوں کی معصومیت ، جھرنوں کے ترنم ، جہاں کی زیبائش ، پھولوں کی مہک ، چاند کی روشنی ، سورج کی تابناکی ،بادلوں کی چھاؤں ،جنت کی راہ ، شہد سے میٹھی ، بہاروں سے رنگین ،فضاؤں سے دلکش اور دلفریب ہستی کوخدا تعالیٰ نے ماں کا نام عطا کیا ہے ۔ جنم دینے والی ،دنیا کو بسانے والی اورلاکھوں دْکھ سہہ کر اولاد پر ذراسی تکلیف نہ آنے دینے والی ہستی ماں ہے ۔ ماں اولاد کے لئے ایک عظیم نعمت ہے جس کی ٹھنڈی اور ممتا بھری گود میں بچہ پل بڑھ کر جوان ہوتاہے ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے سماج میں عزت ووقار پاتاہے ۔

کوئی پیغمبر ہو یا ولی کامل ہو، کوئی فاضل ہویا کوئی عالم ، دانشور ،سیاست دان یا کوئی اور عظیم ہستی اِن کو جنم دینے والی ایک ماں ہی ہے ۔ ماں وہ عظیم اور منفرد ہستی اور شخصیت ہے جس کے بارے میں ہمارے پیارے رسو ل فرماتے ہیں کہ ''ماں کے قدموں تلے جنت ہے ''۔ یعنی اگر تم ماں کی فرمانبرداری کروگے تو یقینا خداوند کریم تمہیں جنت سے نوازے گا ۔اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں ، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تیری ماں ، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تیری ماں ، عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا تیرا باپ ۔‘‘

اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی سب سے زیادہ حق ماں کا فرمایا ہے ۔

ماں وہ ہستی ہے جس کا اب تک دنیا میں کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے کیونکہ اولاد چاہے لڑکاہویا لڑکی ، خوبصورت گورا چٹا یا بدصورت ، سانولا سلونا ہو یا خدانخواستہ اْس میں کوئی معذوری ہو۔ ماں اْس کو اپنی ممتا بھری آنچل تلے دْنیا کے مصائب وآلام سے بچاتی ہے ۔ نو مہینوں کے دوران مختلف دْکھ و درد سہہ کر اپنے پیٹ میں پالتی ہے ۔ ہزاروں دْکھ جھیلتی ہیں ۔ اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین اْس کے نام کرتی ہے ۔ زبان پر اْف تک نہیں لاتی اور اْس پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی ہے۔ جب تک کہ اولاد کو خود ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتاہے ۔ارشاد خداوندی ہے : ’’وَبِالْوٰلِدَیْنِ اِحْسٰنًا‘‘
ترجمہ کنزالایمان:’’ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘‘(پ۱،سورۃالبقرۃ ،آیت:۸۳)!!!!
’’اُمُّہ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا وَ حَمْلُہ وَ فِصٰلُہ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہ‘‘!!!!
’’ترجمہ کنزالایمان:’’اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا س کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے ۔یہاں تک کہ جب اپنے زور کو ‘‘۔!!!

مذکورہ بالا آیتوں سے صاف ہوتاہے کہ والدین کی اطاعت وفرمانبرداری سب رشتہ داروں حتیٰ کہ اپنی بیوی یا شوہر اور بچوں سے بھی مقدم ہے۔ماں کی خدمت گذاری اور اطاعت سے ہی جنت کی راہ ملتی ہے ۔ جس اولاد سے ماں خوش ہو وہ ہر مصیبت سے کوسوں دور ہوتی ہے اور ہرخوشی اس کے دَرپر خودبخود دستک دیتی ہے ۔ماں کی خدمت میں جنت کی ضمانت ہے ،کامیابی اور خوشنودی کی کنجی ماں کی فرمانبرداری میں پنہاں ہے اور جس نے بھی اس کو سمجھا ۔اس نے اپنی آخرت سنواردی ۔ ماں کا احترام اﷲ کے فرمان کا احترام ہے۔ ماں کا پیار دنیا کے تمام دْکھوں ، غموں اور مصیبتوں کے لئے ایک عظیم اوربہتر نسخہ نجات ہے ۔ ماں کی دْعا پْراثر ہوتی ہے۔ ماں کی دْعا اور اﷲ تعالیٰ کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہے اس لئے ماں کی دْعا جلدی ہی قبول ہوتی ہے ۔ بقول شاعر
نہیں آسان تھا دْنیا میں مشکلوں سے بچنا یہ ماں کی دعاکاہے اثر کہ میں ستارہ ہوگئی

محترم قارئین!!!!!!!!!!!!!!!!
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدّدِ دین و ملت مولاناالشاہ امام احمد رضا خانعَلَیہِ رَحْمۃُ الرَّحْمٰن قرآن وحدیث کی روشنی میں نہایت احسن انداز میں والدین کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’بالجملہ والدین کاحق وہ نہیں کہ انسان اس سے کبھی عہدہ بر آ ہو وہ اس کے حیات و وجود کے سبب ہیں تو جو کچھ نعمتیں دینی و دُنیوی پائے گا سب اُنھیں کے طفیل میں ہوئیں کہ ہر نعمت وکمال ، وجود پر موقوف ہے اور وجود کے سبب وہ ہوئے تو صرف ماں باپ ہونا ہی ایسے عظیم حق کا مُوجِب ہے جس سے بری الذمہ کبھی نہیں ہو سکتا ،نہ کہ اس کے ساتھ اس کی پرورش میں ان کی کوششیں، اس کے آرام کے لئے ان کی تکلیفیں خصوصاً پیٹ میں رکھنے، پیدا ہونے ، دودھ پلانے میں ماں کی اذیتیں، ان کا شکر کہاں تک ادا ہو سکتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ وہ اس کے لئے اﷲ و رسول جل جلالہ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سائے اور ان کی ربُوبیّت و رحمت کے مَظہر ہیں ، ولہٰذا ''قرآن عظیم''میں اﷲ جل جلالہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا کہ: اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَ لِوٰلِدَیْکَ’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا‘‘(پ۲۱:سورۃ لقمان،آیت:۱۴)۔۔۔۔۔۔(اولاد کے حقوق)
لبوں پہ اسکے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی

جب بھی ماں کا لفظ منہ سے نکلتا ہے ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا کی محبت ہمارے آس پاس بکھر گئی ہو .جیسے کڑی دھوپ میں سایہ مل گیا ہو یا پھرکسی خطرناک سمندر کا ساحل مل گیا ہو ایسا لگتا ہے کے ہر مشکل سے آزادی مل گئی ہے یا پھر کسی نے ہماری مشکل اپنے سر لے لی ہے ایک ماں اپنی اولاد کے لیے اپنی آخری سانس تک قربانیاں دیتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے ہمارے لئے۔ ایک بچے کو اس دنیا میں لانا اور پھر اسے اس زمانے میں رہنے کی تمام تر چیزیں طریقے ، تہذیب سکھانا۔ اس کے لئے زمانے بھر کی تکلیفیں برداشت کرنی۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ اگر ہم ساری زندگی بھی اپنی ماں کی خدمت کرتے رہیں تو ہم اس کی ایک آہ کا بھی بدلہ نہ لوٹا سکیں گے۔ جو اس نے ہماری پیدائش کے وقت بھری تھی۔ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے بغیر دنیا میں ہر چیزبے رونق ہے۔ماں اﷲ کی دی ہوئی نعمت ہے۔

محترم قارئین:ماں کے متعلق کیا کہیں!!!ماں ایک پھول ہے کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ماں،ایک سمندر جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے مگر کبھی کم نہیں ہو سکتا۔ماں،ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ماں،ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتی رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی پرچھائی ہے جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے۔ماں ایک دعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی خوشی ہے جو کبھی غم نہیں دیتی۔ ماں ایک نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز بہت پیارا اور نرالہ ہوتا ہے ہر انسان پیدا ہوتے ہی زندگی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ اسے جینے، آگے بڑھنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے ہر مرحلہ پر اپنے خالق کے بعد جو سہارا ملتا ہے ۔پھر اسے کامیابی اور ناکامی کی صورت میں جس وسیلے کے ذریعے اپنی فطری اور جسمانی صحت اور توازن کو قائم رکھنا پڑتا ہے۔ وہ صرف اور صرف ماں کی لازوال محبت ہے۔ماں محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔

ماں کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاؤں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ ایک عظمت کی منارہ اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ماں کے لفظ میں مٹھاس ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ ماں خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔ تہذیبی روایات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے ہر دن کو ہماری ماں کی دعاؤں کے سائے میں طلوع ہونا چاہیے۔ دنیا کی عظیم ترین ہستی ماں ہے اس کا دوسرا نام جنت ہے اور ماں کے بغیر کائنات نامکمل ہے۔ چونکہ پاکستان عالمی افق پر بڑی اہمیت کا حامل ہے لہٰذاگلوبل ولیج میں رہ کر اپنی ثقافت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے مہذب قوموں کے اچھے دنوں کو مثبت انداز سے دیکھنا اور اہمیت دینا ہماری ذمہ داری کا ایک حصہ ہونا چاہیے۔ ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماں کی بددعا سے بچو۔ کیونکہ ماں اور خدا کے درمیان پردہ نہیں ہوتا۔

ماں یہ لفظ بہت وسیع معنی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ممتا،ایثار ، قربانی، پیار،محبت، عزم ،حوصلہ ،دوست، ہمدرد، راہنما،استاد، خلوص، معصومیت،دعا،وفا،بے غرضی، لگن، سچائی، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو۔ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں غرض نہیں ہوتی ،جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تواس کے لئے خود کو وقف کر دیتی ہے جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کوسمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے پھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے،اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے ،عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے۔
مشکل راہوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے
یہ میری ماں کی دعاوں کا اثر لگتا ہے۔

محترم قارئین :ماں احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کاوہ بے مثال مجموعہ ہے۔ جو سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خودسہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ اپنی اولاد کے لیے فکر ودعاکرتے گزرتا ہے۔ماں باپ جتنی دعائیں اولاد کے لئے کرتے ہیں اﷲ وہ تمام دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے ۔ماں کے اندر ممتا کا جو جذبہ ہوتا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، دعاؤں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت سمیت تمام اوصاف سے مزین کیا۔ یوں ماں قدرت کا بہترین تحفہ اور نعمت ہے جس کی قدر ہم پر فرض ہے۔ ماں کے احسانات، احساسات اور چاہتوں کا بدلہ کوئی بھی نہیں ادا کر سکتا،ہم تو ماؤں کی ایک رات کا قرض بھی نہیں چکا سکتے۔مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اﷲ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے جس کا وہ ثمر پارہا ہے۔ ان کی ماوں نے پال پوس کر ان کو قابل بنایا اور اپنی ماو¡ ہی کے طفیل آج یہ کامیاب ہیں۔ ان کی تربیت میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کی ماو¡ ہی کی مرہونِ منت ہیں،ماں کی دعاوں نے ہی اولاد کو بڑے سے بڑا ولی اور بادشاہ بنایا ہے۔ جو دور آج کل ہے ہر ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کے ان کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں وہ امیر ہوں یا غریب بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیا جہاں تک ہو سکے کوشش کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے جو بچے پڑھ لکھ جاتے ہیں ان میں سے کافی بچے بھول جاتے ہیں کے ان کو اس مقام تک پہچانے والے کون لوگ ہیں اور خاص کر اس ماں کی محبت بھول جاتے ہیں جس نے دن رات ایک کر کے ان کو اس مقام تک پہنچایا ہے .جب زندگی میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کے موقع آتا ہے تو بڑی آسانی سے بول دیتے ہیں کے یہ زندگی ان کی ہے اور اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے ماں باپ کو اس کا حق نہیں وہ ایسا بولتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کے اس ماں پر کیا گزرے گی جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی اولاد کے لیے قربان کیا۔ماں اپنے بچے کی آہ برداشت نہیں کر سکتی اور اس کو تکلیف میں دیکھ کر اپنے سارے دکھ بھول جاتی ہے .بڑے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ماں جیسا عظیم رشتہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس کی قدر نہیں کرتے۔انسان یہ بھول جاتا ہے کے اس کو بڑا کرنے والی اور اس مقام تک پہچانے والی ہستی ماں ہی ہے۔ دنیا میں ایک ماں کا ہی رشتہ ایسا ہے جس کو صرف معاف کرنا ہی آتا ہے انسان کوئی بھی غلطی کر کے ماں سے معافی مانگے تو ماں اس وقت انسان کی سب غلطیاں بھول کر اس کو گلے لگا لیتی ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی نعمت ماں ہے ۔وہ ایک ایسی ہستی ہے جواپنی اولاد کے لیے خود تکلیف سہتی ہے لیکن بچوں پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی ہے جو ہمارے لیے ہر حال میں بہتر سوچتی ہے ہمارے فائدے کی بات کہتی ہے دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں خدا کرے ان کا سایہ تا دیر سلامت رہے اور وہ ہر دکھ، پریشانی، آفت اور آزمائش سے محفوظ ہوں،پورے خلوص اور سچے دل کے ساتھ والدین کی خدمت کریں انہیں راضی کرلیں۔

والدین کی رضا میں اﷲ کی رضا شامل ہے۔ اور جو لوگ والدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس دعا کا ورد کرتے رہا کریں،’’رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبِّینِیْ صَغِیْرَا‘‘۔’’ اے میرے رب میرے ماں باپ پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن مجھ پر رحم کیا۔‘‘

ماں کی کیا شان ہے ۔کبھی لفظ ماں پر غور کیا۔ماں کو پکارنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال کئیے جاتے ہیں ۔ اماں ، امی ، ممی ، ماما اور مادر وغیرہ کے آتے ہیں ۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا لفظ دنیا کی متعدد زبانوں میں خاصا یکسانیت رکھنے والا کلمہ ہے اور اس کی منطقی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ماں کے لیئے اختیار کیئے جانے والے الفاظ کی اصل الکلمہ ایک کائناتی حیثیت کی حامل ہے اور اسے دنیا کی متعدد زبانوں میں ، اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کے منہ سے ادا ہونے والی چند ابتدائی آوازوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بچہ رونے اور چلانے کی آوازوں کی حدود توڑ کر کوئی مخصوص قسم کی آواز نکالنے کے قابل ہوتا ہے اور بولنا سیکھتا ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم ؍ما ما ؍مم مم ؍مما مما (پا پا)وغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار والدین نے ان ابتدائی آوازوں کو اپنی جانب رجوع کر لیا جس سے ماں کے لیئے ایسی آوازوں کا انتخاب ہوا کہ جو نسبتاً نرم سی ہو تی ہیں۔

ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ۔ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماں پر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اﷲ عنہا کو امنا ( ہماری ماں)کہا جاتا ہے ۔

محترم قارئین :ماں کی متعلق جس جہت سے بھی بات کریں گے ۔دل کی کلیاں کھِل اُٹھیں گیں ۔ایک حسین تصور دل و دماغ پر چھاجاتاہے ۔اس عظیم ہستی کے کس کس احسان کا ہم حق اداکریں ۔کس کس محبت کا کفارہ اداکریں ۔ممکن نہیں ۔ایک حدیث مبارکہ سن کر آپ کو خود اندازہ ہوجائے گاکہ ہم پرہماری ماں کے کتنے احسانات ہیں۔

ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اﷲ! ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت ان پر ڈالا جاتاکباب ہو جاتا، میں (چھ)میل تک اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے لے گیا ہوں ، کیا میں اب اس کے حق سے بری ہوگیا؟ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لعلّہ أن یکون بطلقۃ واحدۃ)’’رواہ الطبرانی فی ''الأوسط‘‘عن بریدۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔'' (فتاوی رضویہ )
سبحان اﷲ !کیا شان ہے ماں کی ۔اور وہ مائیں کتنی عظیم مائیں ہیں جو اپنے بچّوں کی تربیت اسلام کے عین مطابق کرتے ہیں ۔سیرت کا ایک واقعہ پڑھیے اور جھوم اُٹھیے !!
’’حضرت خواجہ قطب الحق والدین بختیار کاکی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی عمر جس دن چار برس چار مہینے چار دن کی ہوئی، ''تقریب ِبسْمِ اﷲ‘‘مقرر ہوئی۔ لوگ بلائے گئے ،حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی تشریف فرما ہوئے۔ ِبسْمِ اﷲپڑھانا چاہی مگر اِلہام ہوا کہ ٹھہرو!حمید الدین ناگَوری (رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ )آتا ہے وہ پڑھائے گا۔ ادھر ناگور میں قاضی حمید الدین صاحب رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کو الہام ہوا کہ جلد جا میرے ایک بندے کو بسم اﷲ پڑھا!قاضی صا حب فورا ً تشریف لائے اور آ پ سے فرمایا: صاحب ز ادے پڑھئے! بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔آپ نے پڑھا: ’’اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘اور شروع سے لے کر پندرہ پارے حفظ سنادیئے ۔ حضرت قاضی صاحب اور خواجہ صاحب نے فرمایا :صاحبزاد ے آگے پڑھئے !فرمایا:میں نے اپنی ماں کے شکم (یعنی پیٹ)میں اِتنے ہی سنے تھے اور اِسی قدر اُن کو یاد تھے وہ مجھے بھی یاد ہوگئے۔‘‘(ماخوذازسبع سنابل)

اپنی ماؤں کی خوب خوب خدمت کریں ۔جو والدین کی نافرمانی کے مرتکب ہیں ۔وہ صدقِ دل سے توبہ کرلیں ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک پر کافی زور دیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی ضمانت اور ان کے ساتھ بدسلوکی پر جہنم کی وعیدیں سنائی ہیں، چناں چہ ایک شخص نے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلمسے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں (مشکوٰۃ:421)مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاوء گے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذارسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا، ایک روایت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خداکی رضامندی اور خوش نودی کو والدین کی رضامندی اور خوش نودی سے وابستہ فرمایا، چناں چہ فرمایا: رِضَی الرّبِ فِی رِضَا الْوَالِدِ وَسَخْطُ الرَّبِّ فِیْ سَخْطِ الْوَالِدِ (ترمذی،مشکوۃشریف)

محترم قارئین !!اﷲ کی رضامندی والدکی رضامندی میں ہے اور اﷲ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ بعض روایات میں مخصوص حالات کے پیش نظر ماں باپ کی خدمت کو جہاد سے بھی مقدم قرار دیا گیا۔چنانچہ ایک شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلمنے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے کہا ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدوجہد کرو، یہی تمہارا جہاد ہے(سنن ابوداود)

یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کے کہ عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو اُن کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں۔آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے۔ اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کر کے اﷲ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پاکر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟! ایسے ہی بدنصیب کے سلسلہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:ہلاک ہو برباد ہو وہ شخص، جو اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر وہ ان کادل خوش کر کے جنت حاصل نہ کرسکے(مسلم)

اﷲ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔اگروہ فوت ہوچکے ہیں تو خوب خوب ایصال ثواب کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594003 views i am scholar.serve the humainbeing... View More