کسی بھی قوم کے شعوری سفر کا
اندازہ اس قوم میں ہونے والے سانحات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ کراچی کے
علاقہ پٹیل پاڑہ میں ہونے والا المناک حادثہ جہاں دو انسانی جانیں لے گیا
وہیں پر اپنے پیچھے کئی طرح کے تلخ سوالات بھی چھوڑگیا ۔واقعہ کی تفصیلات
کے مطابق پسند کی شادی میں ناکامی پر دسوی جماعت کے طالب علم نے سکول میں
طالبہ کو گولی مار کر خود بھی خود کشی کرلی ۔طالبہ اس مقصد کے لیے اپنے گھر
سے ریوالور خود لے کر آئی تھی ۔ دونوں نے والدین کے لیے خط چھوڑا جس میں
انہوں نے اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا تھا ۔ یہ واقعہ ہمارے بھیانک
مستقبل کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے ۔ اس سے قبل قصور کے تعلیمی ادارے میں
رونما ہونے والے واقعات سے بھی یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ بحیثیت قوم ہم کس قدر
تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔پھر اس سانحہ پر عظیم سانحہ یہ ہے کہ خودکشی
کرنے والے طالب علم اور طالبہ نے واقعہ سے قبل لکھے گئے خطوط میں ’’ اگلے
جنم ‘‘ میں ملنے کااظہار بڑے تیقن سے کیا ہے ۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس طرح
کے تصورات ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں کہاں سے آرہے ہیں ؟۔ اس کا ذمہ
دار کون ہے ؟ ۔کیا یہ الیکٹرانک میڈیا کی بے لگام آزادی کا نتیجہ نہیں ہے ؟
بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ ہے کہ ہم نے غیر قوموں کی اندھی تقلید میں
اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے ۔ چنانچہ آج نہ نظریات ہمارے اپنے ہیں ، نہ تصورات
، نہ افکار ، نہ روایات اور نہ ہی اپنی کوئی تہذیب باقی ہے جو کہ
خالصتاًہماری اپنی پہچان ہو ۔
جو قوم اقبال کے آفاقی افکار کی حامل ہو ، قائد اعظم کی بصیر ت جس کو میسر
رہی ہو اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم نظریہ کی حامل ہو اسے تو دنیا کے لیے
مشعل راہ ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن اس قدر عظیم اقدار کی حامل قوم ہونے کے
باجودہم نے اپنی اقدار کو چھوڑا ، روایات کو چھوڑا ، نظریات کو چھوڑا ،
تہذیب اور حتیٰ کہ اپنے دین اور مذہب سے بھی انحراف کرلیا ۔ مغربی تہذیب کی
چکا چوند نے ایسا اندھا کیا کہ اپنا سب کچھ بھلا بیٹھے ۔ اپنے طور طریقے ،
رسوم ورواج ، تصورات ، سیاست ، معیشت ، تعلیم سب کچھ مغرب سے مستعار لے لیا
جس کا نتیجہ ہے آج ہم بھگت رہے ہیں ۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ۔
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
اسلام کا اپنا ایک نظامِ تعلیم تھا جس میں خیر ہی خیر اور انسانیت کے لیے
فلاح اور سلامتی کے سارے تقاضے پوشیدہ تھے ۔جیسا کہ اب سائنس نے بھی یہ
ثابت کردیا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنی سطح مختلف ہوتی ہے ۔لڑکیوں کی
تعلیم کے لیے نرم اور خوشگوار ماحول چاہیے جبکہ لڑکوں کے ذہنی ٹشوز سے پتہ
چلتا ہے کہ ان کی بہتر تعلیم کے لیے سختی اور دباؤ کا ماحول زیادہ سود مند
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغربی دنیا میں صنفی بنیادوں پر تعلیم کا آغاز ہورہا
ہے جبکہ اسرائیل میں یہ رجحان غالب آچکا ہے ۔ معروف اسرائیلی اخبار ہیریٹز
کے مطابق اسرائیل میں مخلوط تعلیم کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اوراس کے
مقابلے میں صنفی بنیادوں پر تعلیم میں خاظر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔اسرائیل میں
پرائمری سطح پر الگ الگ تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد
65فیصد سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل یہ تعداد 25فیصد تھی ۔ حالانکہ
اسلام شروع سے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ الگ تعلیم کے فطری اصول کاپابند
رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے اسلامی نظام تعلیم کا شخصیت سازی اور کردار سازی میں
نمایاں مقام رہا ہے ۔ فطری اصولوں پر مبنی نظام تعلیم ہونے کی وجہ سے شعور
وآگاہی کی بلندیوں تک پہنچانے میں اسلامی نظام تعلیم کا کوئی ثانی نہیں تھا
۔ یہ اسلام کانظام تعلیم ہی تھا کہ جس نے مغرب کو جہالت کے اندھیروں سے
نکال کر موجودہ ترقی یافتہ دور میں پہنچایا ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کے
مسلمان تعلیم کے میدان میں سب سے نمایاں تھے ۔ مصر ، شام ، ترکی اور عراق
کی مسلم یونیورسٹیاں پوری دنیا میں اپنا ایک معیار رکھتی تھی ۔موجودہ دور
کی مشہور و معروف آکسفورڈ یونیورسٹی جس میں تعلیم حاصل کرنا موجودہ دور میں
اعزاز سمجھا جاتا ہے کے بانی اور سرپرست مسٹر راجر بیکن نے انہی اسلامی
یونیورسٹیوں سے عربی میں تعلیم حاصل کی ۔ یہ مسلمان اساتذہ کے جبہ سے اتنا
متاثر تھا کہ انگلینڈ میں جاکر اس نے گاؤن پہننا شروع کردیا جس کی وجہ سے
متعصب عیسائیوں نے سمجھا کہ یہ مسلمان ہوگیا ہے اور اسے راجر بیکن کی بجائے
محمد بیکن کہنے لگے ۔
مگر مسلمانوں کی بدبختی کہ اسلام کے فطری نظام تعلیم کو چھوڑ کر مغرب کا
مخلوط نظام تعلیم اپنایا اور اخلاقی اور تہذیبی پستیوں کا شکار ہوئے ۔ بقول
اقبال
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف
آج جہاں مغربی این جی اوز مخلوط نظام تعلیم کے لیے سرگرم ہیں وہیں پر ہمارے
معاشرے میں تعلیم جیسے مقدس پیشے کو تجارت بنانے والے عناصر بھی مخلوط
تعلیم کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ مخلوط نظامِ
تعلیم میں لڑکیاں اور لڑکے تعلیم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ
ان کی ابلیسی ذہنیت کی اختراح ہے۔ پس پردہ ان کے مادی مفادات چھپے ہوتے ہیں
۔جس طرح میڈیا اور تجارتی کمپنیوں نے عورت کو نمائش کے لیے استعمال کیا اسی
طرح پرائیویٹ تعلیمی ادارے صنف نازک کی معصومیت کاناجائز فائدہ اُٹھاکر
اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں اور اپنے اداروں کو پرکشش بنانے کے لیے اسے
استعمال کرتے ہیں ۔ تاہم سرکاری اداروں میں مخلوط نظام تعلیم صرف اور صرف
مغرب کی اندھی تقلید کا نتجہ ہے ۔ حکومتیں مغربی این جی اوز کے دباؤ اور
فنڈ کے لالچ میں مخلوط تعلیم کی حامی رہتی ہیں جبکہ اکثریت میں ارباب
اختیار مغربی تصورات و نظریات اور نام نہاد ’’ روشن خیالی ‘‘ کے اسیر ہوکر
اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ لیکن جیساکہ اقبال نے کہا تھا
تہذیب ِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
مغربی تہذیب کی چکا چوند نے مسلم عورت سے پردہ تو پہلے ہی چھین لیا تھا اب
مخلوط نظام تعلیم کی ’’برکات‘‘ سے شرم وحیا بھی جاتی رہی ۔ ظاہر اس کے جو
نتائج ظاہر ہونے تھے وہ وہی ہیں جن کا آج ہم کو سامنا ہے ۔ آئے روز لڑکیوں
کے اغواء ، پسند کی شادی میں ناکامی پر خودکشی یا قتل ، والدین سے سرکشی
اور کورٹ میرج جیسے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ انہیں میں سے ایک کراچی کا
واقعہ ہے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ دو طالب علموں کی خودکشی نہیں بلکہ
ہماری قومی اقدار کی خود کشی ہے جس کے اسباب اپنے ہاتھوں سے تیار کررہے ہیں
۔ ہر وہ کام جو اﷲ اور اس رسول ﷺ کو ناپسند ہوایک مسلمان کے لیے کیونکر سود
مند ثابت ہوسکتا ہے ۔ لیکن ہم نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے اعلانیہ جنگ کی
قسم کھا رکھی ہے ۔ چنانچہ اس طرح کے واقعات سے قدرت کو ہمیں جھنجھوڑنا
مقصود ہوتا ہے کہ اب بھی وقت ہے باز آجاؤ ورنہ یہ تو طے ہے کہ اﷲ اور اس کے
رسول ﷺسے مقابلہ کی طاقت کسی میں نہیں ہے ۔ |