بچے ہمارے عہد کے ، ذمہ داری کس کی ---

میں نے دکاندار سے قلم مانگا اور کہا کہ ساتھ میں تختی اور گاچی بھی دے دینا - دکاندار میری بات سن کر اندر چلا گیا- ساتھ موجود بیٹیاں حیران ہوگئی کہ پپا کو کیا ہوگیا ہم نے تو بلیک اور بلیو انک )سیاہی( لے لی ہیں ساتھ میں پین اور انک ریمور بھی لیا ہے اب یہ کیا چیز مانگ رہے ہیں- میری گڑیا ماہین سے صبر نہ ہوسکا آخر کار پوچھ ہی لیا کہ پپا یہ قلم کیا چیز ہے- اور گاچی کس چیز کو کہتے ہیں اس کا کام کیا ہے- میں نے اسے کہا کہ صبر کرو ابھی دیکھ لو گی- دکاندار نے تختی ، قلم اور گاچی رکھ دی-اور میں نے بیٹیوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ اس پر لکھائی کرکے تمھاری رائٹنگ اچھی ہو جائیگی - اور وہ حیران نظروں سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی- میری بڑی بیٹی مشعل نے ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ"وہ چیزیں" ہیں جو ہم ٹی و ی پر دیکھتے ہیں اور لوگ اس پر لکھتے ہیں-اور جواب سن کر میں حیران رہ گیا- یہ نہیں کہ میری بچیاں چھوٹی ہیں یا سکول نہیں پڑھ رہی-الحمد اللہ میری دس سالہ جڑواں بیٹیاں مشعل، ماہین کلاس فائیو کی طالبات ہیں جبکہ اس سے دو سال چھوٹی مناہل کلاس تھری کی طالبہ ہیں اور ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہی ہیں-ٹیوشن اور قرآن پاک کی پڑھائی سے جب بھی موقع ملتا ہے تو کمپیوٹر پر گیمز کھیلنا شروع کردیتی ہیں - سکول کی چھٹیوں میں جوڈو کی کلاسز بھی لیتی رہی ہیں- لیکن حال یہ ہے کہ قلم اور تختی انہوں نے بچپن سے لیکر گذشتہ روز تک نہیں دیکھی -

میں ان کے ساتھ ان کے امتحان کیلئے پین اور پنسل لینے کیلئے بازار آیا تھا- کہ اس دوران بیٹیوں کی خوشخطی کاخیال ذہن میں آگیا اسی بناء پر میں نے دکاندار سے قلم اور تختی کی ڈیمانڈ کردی-دکاندار سے تختی ، قلم اور گاچی لیکر میں گھر آگیا اور پھر میں نے اپنے بچوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ قلم سے لکھائی کیسی کی جاتی ہیں اور تختی پر گاچی کس طرح استعمال کی جاتی ہیں ور کس طرح پنسل سے اس پر لائن ماری جاتی ہیں- سب بچوں کو سمجھ آگی اور پھر میں روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا کہ بچے اپنا کام خود کرینگے بعد میں دیکھ لونگا-

کچھ دیر بعد میں نے اپنی بھانجی کو دیکھا جوکہ بائیں ہاتھ سے لکھ رہی تھی اور اب پ کے بجائے اے بی سی اور ایک دو کے بجائے ون ٹو کہہ کر لکھ رہی تھی جب میں اس سے سوال کیا کہ کیا اردو میں الفاظ بولنا نہیں آتا تو وہ خاموشی سے میرا منہ دیکھ رہی تھی یہی کیفیت میرے بیٹے حاشر کی بھی تھی جو کہ تختی پر ایک لفظ غلط لکھنے کے بعد اسے مٹانے یا ٹھیک کرنے کے بجائے دوسرے لائن میں لکھنے بیٹھ گیا یعنی ایک جگہ چھوڑ دی- میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا اس طرح نہیں کرتے کہ غلطی اول تو کوشش کرو کہ نہ ہو-اگر ہو جائے تو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرو -

یہ میرے اپنے گھر کا قصہ ہے -، کتنے ایسے گھرانے ہیں جو ہمارے ارد گرد رہائش پذیر ہیں اور ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہیں-ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہے ہیں اور انگریزی زبان پر ہماری پوری توجہ ہے لیکن ہماری اپنی مادری زبان پشتو ، قومی زبان اردو کے بارے میں آنیوالی نسلوں کو کچھ معلوم ہی نہیں-اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پشتو بول سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے یا پھر پڑھ نہیں سکتے-لیکن اس سے بدتر تو ہماری آنیوالی نسل ہوگی جنہیں ون ، ٹو ، تھری کا پتہ ہوگا لیکن اردو اور پشتو زبان میں انہیں نہ تو حروف تہجی کا پتہ ہے اور نہ ہی ہندسوں کا ، کہ کس طرح بولتے ہیں انہیں سمجھ ہی نہیں آتی-ہماری مثال ایسی ہی ہے کہ "کوا چلا ہنس کے چال اپنی بھی بھول گیا" -

ٹھیک ہے کہ ہمارے عہد کے بچے تعلیمی شعبے میں میں بہت تیز ہیں-کمپیوٹر کے دور میں پیدا ہونیوالے بچے موبائل فون بھی دو سال کی عمر سے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے انہیں اس قابل بنا دیا ہے کہ جو کام ہم لوگ مہینوں میں کرتے تھے آج ہمارے بچے ہفتے میں کرلیتے ہیں-لیکن دوسری طرف حال یہ ہے کہ ہماری آنیوالی نسل پیدل نہیں چل سکتی ، موٹر سائیکل ،گاڑی کی سواری نے جیسے انہیں اپاہج بنا دیا ہے - اس میں صرف قصور وار والدین نہیں کہ بچوں کو کھیلنے کودنے کے مواقع نہیں دیتے بلکہ حکومت بھی برابر کی شریک ہیں کہ سکولوں میں کھیلنے کے میدان تک نہیں- بچے فیس بک پر فرینڈشپ تو کرسکتے ہیں لیکن عملی میدان میں گلیوں میں پھر نہیں سکتے ، دوستیاں نہیں کرسکتے-

اگر بچے کو کسی سمندر میں پھینک دیا جائے تو دو چیزوں کا خطرہ ہے یا تو وہ اس میں ڈوب جائیگا یا پھر سمندر کے لہریں اسے اتنا بے حال کرینگی کہ اگر وہ بچ بھی نکلے تو وہ کم از کم اسے اپنی معمول پر آنے میں بھی بہت زیادہ وقت لگے گا-یہی حال ہمارا بھی ہے ہم نے اپنے بچوں کو ایسے سمندر میں پھینک دیا ہے جہاں سب کچھ ہے لیکن انہیں ہم نے تیرنا ہی نہیں سکھایا-تو لازما ہمارے بچے یا تو ڈوب جائینگے یا پھر ایسے بے حال ہونگے کہ انہیں اپنی معمول پر آنے میں بھی زمانے لگیں گے-

عوام اور حکومت کی توجہ ان چیزوں کی طرف کون دلائیگا- کیونکہ ہر ایک شہری کو غم روزگار ذہنی تناؤ نے اور حکمرانوں کی "مال بناؤ" مہم نے بنیادی نکات کی طرف سے لاپروا کردیا ہے کیا ہمارا میڈیا اس میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے اور اگر کرسکتا ہے تو کیا کردار اور یہ کب ہوگا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ پھر...............کچھ نہیں بچے گا
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497996 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More