بلا شبہ کتابیں انسانوں کی
بہترین دوست ہوتی ہیں۔ اسی حوالے سے کتب بینی کے فوائد پربھی بارہاروشنی
ڈالی جاتی ہے۔ اساتذہ کو بھی شاگردوں سے اکثر یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ
مطالعہ نہیں کرتے اور یہ مشاہدہ بھی کسی حد تک درست ہے کہ طلباء اپنی نصابی
کتب کا مطالعہ تو ڈھنگ سے کرتے نہیں، دیگر کتب کا تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا۔ دوسری طرف لائبریری کی اہمیت پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے
کہ نوجوان نسل لائبریری سے دور ہوتی جا رہی ہے کیونکہ لائبریری کی جگہ آن
لائن مواد اور کتب نے لے لی ہے۔مگر درحقیقت اسکی وجہ کچھ اور ہے۔آئیے اس کی
حقیقت پر غور کرتے ہیں اور سچائی کو تسلیم کرنے کی تھوڑی ہمت پیدا کرتے ہیں۔
لائبریریاں جو کبھی علم کے لازوال خزانوں کا مرکز سمجھی جاتی تھیں آج ویران
اس لئے نظر آتی ہیں کیونکہ کتابوں کو واقعی کسی نایاب خزانے کی مانند تالوں
میں قید کردیا گیا ہے۔ یا یوں کہیے کہ کتابوں کو لائبریریوں کی ظاہری زینت
بنا دیا گیا ہے تاکہ ماحول لائبریری کا سا لگے۔ مگر درحقیقت کتابوں کو عام
لوگوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو یہ کہا
جاتا ہے کہ علم کسی کی میراث نہیں اور دوسری طرف اسی علم کو چند لکڑی اور
لوہے کے شیلفوں میں مقید کردیا جاتا ہے محض اس وجہ سے کہ کتابیں خراب نہ
ہوجائیں۔ اس پر حد یہ کہ طلباء کیلئے لائبریریوں میں مطالعے کو مذید مشکل
بنانے میں مختلف قسم کے بلا جواز اصول بنا دیے جاتے ہیں۔ مثلاً فلاں فارم
بھر کے فلاں جگہ جمع کروائیں اور اتنی اتنی رقم جمع کر کے فلاں کارڈ
بنوائیں۔ گویا کہ جیسے قارئین اور طلباء کتب چور ہیں۔ اس پر بھی بس نہیں،
لائبریرین کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اگر لائبریری میں بیٹھنا ہے تو کارڈ
لاؤ ورنہ باہر جاؤ۔ گویا طلباء کو لائبریری میں موجود کتب کا صرف دیدار
کرنے کیلئے بھی کارڈ کے نام پر کاغذ کا ایک بے معنی ٹکڑا حاصل کرنا لازمی
قرار دے دیا گیا ہے۔ یعنی پیسے الگ بھرو اور خواری الگ برداشت کرووہ بھی
ذلّت کے ساتھ۔ ایسی صورت حال ہوگی تو ظاہر سی بات ہے طلباء لائبریری تک
جانے کی خواری اور با معاوضہ کتب کے حصول کے بجائے گھر پر آرام سے بیٹھ کر
مفت آن لائن معلوماتی مواد اور کتب کو ہی اہمیت دیں گے۔
یہ حال ہے جامعہ زکریا کا جہاں حکومت کی نا اہلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
انتظامیہ اور اعلیٰ عہدیداران طلباء کو کتب سے دور کرنے میں کوئی کثر نہیں
چھوڑتے۔ جامعہ سے ہٹ کر اگر شہر میں قائم پبلک لائبریریوں کی اگر صورت حال
پر غور کیا جائے تو مذید افسوس ہوتا ہے۔ جامعہ کی لائبریری سے نامراد لوٹنے
کے بعد طلباء اگر پبلک لائبریریوں کا رخ کرنا چاہیں تو اس میں بھی انہیں
ہزاروں مشکلات پیش آتی ہیں۔مثلاً طلبا ء عام طور پرکالج اور یونیورسٹی جانے
کی وجہ سے پبلک لائبریری نہیں جا پاتے۔انکے پاس ہفتے میں دو دن حکومت کی
طرف سے دی گئی سرکاری چھٹی کے ہوتے ہیں لہٰذا انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان
دنوں میں اپنے ہفتے بھر کا کام اور اسائنمنٹس مکمل کرلیں مگر افسوس جیسا کہ
پہلے کہا گیا کہ ہفتے میں جو دن سرکاری چھٹی کے ہوتے ہیں توپھر لائبریری کی
انتظامیہ بھی تو حکومت کی محتاج ہے۔لہٰذ پبلک لائبریریوں کو تالا لگا کر
انتظامیہ بھی چھٹی مناتی ہے۔
ہماری تعلیم جس قدر سستی اور آسان ہونی چاہیے تھی، اس قدر اسے مشکل بنایا
جارہا ہے۔ کتب بینی تعلیم کے حصول کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ ہے مگر
جب لائبریریوں کی یہ صورتحال ہوگی تو شاید کتب بینی کا رجحان آہستہ آہستہ
کم ہوتا جائے گا۔ اس وقت ہمارے ادباء اور ماہرین تعلیم اس بات پر کافی
پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ طلباء کتب سے دور ہوتے جارہے ہیں، جب کہ اس کی
جگہ انٹرنیٹ اور سوشل ویب سائٹس نے لے لی ہے۔ جوکہ تعلیم کم، تفریح اور وقت
کاضیاکچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔
جامعہ زکریا اور شہر کی دیگر لائبریریوں میں تعلیم کی اگر یہیں صورتحال رہی
تو شاید بد قسمتی سے ہمارے قاری حضرات کتب سے مذید دور ہوتے چلے جائیں ۔ جس
سے تعلیم کے ایک بڑے حصے سے ہم محروم ہوجائیں گے اور اس کا قصور وار ہوگا
ہمارا لائبریری نظام ، وزیر تعلیم اور منتظمین اعلیٰ۔ اسی لئے اعلیٰ
عہدیداران کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
فوری طور پر ایسے اقدامات کریں کہ جن سے نوجوانوں اور عام قارئین تک تعلیم
اور کتب کا حصول آسان سے آسان ہوسکے، جبکہ لائبریریوں میں اجارہ دارانہ
نظام کا خاتمہ کر کے موجودہ اسٹاف کو راہ راست پر لانے جیسے دیگر اقدامات
کا ہونا ضروری ہے۔ ٭٭٭ |