چیف جسٹس انورظہیرجمالی کاخطاب اورانصاف کی فراہمی

نئے عدالتی سال کے ابتداء کے موقع پرتقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان انورظہیرجمالی نے کہا ہے کہ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کواپنی حدودسے تجاوزکی اجازت نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آئین میں تمام اداروں کی آئینی حدودکاتعین کردیا گیا ہے۔تمام ادارے اپنے اپنے آئینی دائرے کے اندررہتے ہوئے کام کریں توبہت سے مسائل ختم ہوجائیں گے۔آئین میں نہ توکسی ادارے کواس کی حدودسے تجاوزکی اجازت ہے اورنہ ہی کسی شخصیت کوایساکرنے کی اجازت ہے۔پارلیمنٹ کاکام قانون سازی کرنا ہے۔مقدمات کے فیصلے کرنا نہیں ہے۔پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کی روشنی میں مقدمات کے فیصلے کرناعدلیہ کاکام ہے۔پولیس کاکام قانون کے نفاذکویقینی بنانااورعدلیہ کے فیصلوں پرعمل کراناہے۔ان کاکہناتھا کہ ملک کی بدلتی ہوئی معاشی،معاشرتی اورسیاسی صورت حال میں سپریم کورٹ کاکردارعوام کے لیے بہت اہمیت کاحامل رہا ہے۔عوام کی نظریں معمول کے مقدمات کے تصفیے کے علاوہ دیگرسیاسی اورمعاشرتی امورکے حل کے سلسلے میں بھی سپریم کورٹ پرمرکوزرہیں۔ملک میں جب بھی غیریقینی کی صور ت حال کسی بھی حوالے سے پیداہوئی توعوام کی امیدوں کامرکزعدالت عظمیٰ ہی رہی ہے۔ہرمعاملہ میں عوام کویہ یقین ہوتا ہے کہ عدلیہ کافیصلہ ہی صورت حال کوواضح کرے گا۔عدلیہ بحالی تحریک کے بعدعدلیہ پرعوام کے اعتمادمیں اوراضافہ ہوگیا۔اب بھی عوام کی امیدوں کامرکزسپریم کورٹ ہی ہے۔جسٹس انورظہیرجمالی کاکہنا تھا کہ بینچ اوربارکی مثال ایک چکی کے دوپاٹوں کی سی ہے۔جب تک دونوں مل کراورایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی سے کام نہ کریں فراہمی انصاف کامقدس فریضہ درست طورپرسرانجام دیناممکن نہیں ہوگا۔انصاف کی فراہمی میں باربینچ کی معاون ہے۔انصاف کی فراہمی میں جہاں عدلیہ کاکرداربہت ہی اہمیت کاحامل ہے وہاں وکلاء کاکرداربھی بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔وکلاء ایک طرف عدلیہ کی معاونت کرتے ہیں دوسری طرف اپنے موئکلوں کی بھی آئینی معاونت کرتے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ حصول انصاف کودرپیش مشکلات میں مقدمات کے فیصلہ میں ہونے والی تاخیرسب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔جس سے غریب اورنادارطبقے پرانتہائی برااثرپڑتاہے۔اب تک معززچیف جسٹس صاحبان کے مختلف فورمزپرکیے گئے جتنے بھی خطابات ہم نے پڑھے ہیں سب نے انصاف کی فراہمی میں تاخیرپرضروربات کی ہے۔انصاف کی فراہمی میں تاخیرکی وجوہات بتائی بھی ہیں اوریہ بتایاہے کہ عدلیہ ان وجوہات کے خاتمے کے لیے کیااقدامات کررہی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے انصاف کی فراہمی میں تاخیرکے غریب اورنادارطبقے پرپڑنے والے اثرات پربھی بات کی ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہم فوری اورسستے انصاف کی فراہمی ،غیرجانبدارانہ فیصلے،آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی کوششوں کوجاری رکھیں گے اوراس سلسلے میں عوام کی امیدوں پرپورااترنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔عدلیہ کی ہردورمیں اورقسمی حالات میں یہی کوشش رہی ہے اوربھی ہے کہ سائلین کوبروقت اورسستاانصاف فراہم کیاجائے۔سستے اوربروقت انصاف کی فراہمی سے معاشرے میں عدم توازن کاخاتمہ ہوتا ہے۔معاشرے میں جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے۔قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی قائم ہوجائے توملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔اس سلسلہ میں عدلیہ کے کردارکوخاص اہمیت حاصل ہے۔عدلیہ بحالی تحریک کے بعد اس بات کوزیادہ تقویت ملی ہے۔آئین پاکستان اس بات کی ضمانت فراہم کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اورپاکستان کی جمہور کوتفویض کردہ اختیارواقتداراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندراستعمال کرنے کاحق ہے۔جوایک مقدس امانت ہے۔ہم فاضل چیف جسٹس سے یہاں کچھ استدعاکرناچاہیں گے کہ آئین میں تویہ بات درج ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اورپاکستان کی جمہورکوتفیض کردہ اختیارواقتداراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندراستعمال کرنے کاحق ہے۔کیا ہمارے ادارے، سیاستدان، پالیسی ساز،ارباب اقتدارواختیاراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندررہتے ہوئے ہی اپنے اپنے اختیارات کااستعمال کررہے ہیں یااس سے تجاوزبھی کررہے ہیں۔ہماراسودپرمبنی بینکاری نظام کیا اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزنہیں۔ شریعت کے قانون میں کچھ جرائم کی سزااورہے اورپاکستان کے آئین میں کچھ اورسزا ہے کیایہ اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزنہیں۔ ہم فاضل چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعاکرتے ہیں کہ وہ ازخودنوٹس لے کراس مقدمہ کی سماعت کریں کہ پاکستان میں کون سے قوانین اورپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودکے اندرہیں اورکون سے قوانین وپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزہیں۔جوقوانین اورپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزہیں انہیں فوری طورپرتبدیل یاختم کرنے کاحکم جاری کریں۔چیف جسٹس آف پاکستان انورظہیرجمالی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۹۰۲ کے تحت زیرالتوادرخواستوں کومدنظررکھتے ہوئے خوداحتسابی کے اصول پرعمل پیراہونے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کومزیدمتحرک کیا جارہا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہناچاہوں گاکہ خوداحتسابی کایہ عمل یکطرفہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ دوطرفہ ہوناچاہیے۔یعنی بارکونسلزکی طرف سے بھی اپنی ڈسپلنری کمیٹیوں کومتحرک کیاجاناچاہیے اورکسی بھی شکایت کی صورت میں حقیقت پسندانہ طریقے سے قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کرکے اس کاازالہ کیاجاناچاہیے۔عدلیہ کی طرح خوداحتسابی کایہ عمل ملک کے تمام قومی وصوبائی ادارے اپنالیں ۔اپنی خامیوں کی خودہی نشاندہی کرکے خوداس کے ازالے کے اقدامات کریں تواداروں سے متعلق اکثرشکایات کاخاتمہ ہوجائے گا۔خوداحتسابی کایہ عمل صاف شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوناچاہیے۔اداروں کے سربراہوں سے لے کرگیٹ کیپرتک سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوناچاہیے۔خوداحتسابی کایہ عمل ترقی کی رفتاربھی بڑھادے گا۔اس سے اداروں پرعوام کے اعتمادمیں بھی اضافہ ہوگا۔ان کاکہناتھا کہ گزشتہ سال ستمبر۴۱۰۲ء میں سپریم کورٹ میں زیرالتوامقدمات کی تعدادتقریباً چوبیس ہزارکے لگ بھگ تھی۔ستمبر۴۱۰۲ء سے اگست ۵۱۰۲ء کے دوران ۷۱ ہزارکے لگ بھگ نئے مقدمات دائرکیے گئے۔اورتقریباً چھ سوکے قریب مقدمات کوبحال کیاگیا۔اس عرصہ کے دوران پندرہ ہزارسے زائدمقدمات کافیصلہ کیاگیا۔اسی طرح ستمبردوہزارپندرہ میں زیرالتوامقدمات کی تعدادکم وبیش ۶۲ ہزارکے لگ بھگ ہوگئی۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل نے عوامی شکایات کے ازالے میں بھرپورکرداراداکیا۔اس شعبہ میں زیرالتواشکایات کی تعدادبارہ ہزارتین سوپانچ تھی۔گزشتہ سال کے دوران کل چھبیس ہزارسات کواکتیس شکایات موصول ہوئیں۔اٹھائیس ہزارچونتیس شکایات کونمٹادیاگیا۔ ان میں سے زیادہ ترپولیس ، انتظامیہ اورارباب اقتدارکی مبینہ زیادتیوں ،عورتوں کے حقوق،اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک ،ریٹائرڈ ملازمین کی پنش سے متعلق تھیں۔اس طرح زیرالتوا درخواستوں کی تعدادکم ہوکرگیارہ ہزاردورہ گئی۔بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے علیحدہ شعبہ قائم کیاگیاتھاجس میں گزشتہ سال دوہزار۵۵ شکایات موصو ل ہوئیں۔جن میں سے تیرہ سوچورانوے کونبٹادیاگیا۔اورزیرالتوادرخواستوں کی تعداد۱۶۶ رہ گئی۔ان کاکہناتھا کہ اسلامی تشریح کے مطابق جمہوریت، آزادی، برابری،رواداری اورمعاشرتی عدل کے اصولوں پرعمل کیاجائے۔یہی وہ مسلمہ اصول ہیں جس سے معاشرے کی بنیادی مضبوط ہوتی ہیں۔ان اصولوں میں اسلامی تعلیمات پرعمل کیاجائے تومعاشرہ میں واضح تبدیلی نظرآئے گی۔چیف جسٹس آف پاکستان کاکہناتھا کہ عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میںآئینی اورقانونی حدودکومدنظررکھتے ہوئے ایسا حکم جاری کرے جس سے صرف اورصرف غیرقانونی اقدام کی تصیح ہواورساتھ ہی ساتھ اداروں کے مابین ہم آہنگی پیداہواورریاست کی بنیادوں کومضبوط سے مضبوط ترکرنے میں مدد ملے۔تمام شعبہ جات میں غیرقانونی سرگرمیوں کوروکنے کے احکامات جاری کرناعدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے ہی ملک کی تعمیروترقی کی راہیں ہموارہوتی ہیں۔ریاست کی بنیادیں بھی آئین کی بالادستی سے مضبوط ہوتی ہیں۔ان کاکہناتھا کہ آنے والے دنوں میں انشاء اللہ میں اورمیرے برادرجج صاحبان اس بات کویقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ غیرضروری التواء اورمقدمات تاخیرکاخاتمہ کرتے ہوئے مقدمات کافوری اوربروقت فیصلہ کیاجائے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں وکلاء اوربارکے نمائندوں سے مشاورت کے بعدمزیدبہتری لانے کے لیے ترتیب دیاجائے گا۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عدلیہ کوانصاف کی فراہمی میں تاخیرکابخوبی احساس ہے۔عدلیہ انصاف کی فراہمی میں تاخیرکوکم سے کم کرنے کے اقدامات کررہی ہے۔اس تاخیرکوکم سے کم کرنے کے لیے دیگراداروں اورذمہ داروں کوبھی اپناکرداراداکرناچاہیے۔اس ضمن میں ان کاکہناتھا کہ یہاں میں یہ کہناچاہوں گا کہ تمام جج صاحبان نے زیرالتواء مقدمات کی تعدادمیں کمی لانے کی ہرممکن کوشش کی۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم پندرہ ہزارسے زائدمقدمات کافیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئے مگرکچھ نامساعد حالات کی وجہ سے اس میں مزیداضافہ نہ ہوسکا۔ان میں ایک وجہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والادھرناتھاجس کی وجہ سے کئی ماہ تک وکلاء اورسائلین کوعدالت میں حاضرہونے میں دشواری پیش آئی اورمقدمات غیرضروری التواء کاشکارہوتے رہے۔پی ٹی آئی اورپی اے ٹی کے دھرنوں کے اثرات پرراقم الحروف اکثرکالم نویسوں نے لکھا تھا۔راقم الحروف نے دھرنے کے پاکستان کی معیشت پرپڑنے والے اثرات پرلکھاتھا۔تاہم اس بات پرغورنہ کرسکے اورنہ ہی لکھ سکے کہ اس دھرنے کی وجہ سے انصاف کی فراہمی بھی متاثرہوئی۔چیف جسٹس نے دھرنے کے ایک اورنقصان سے بھی آگاہ کردیاہے۔ان کاکہنا تھا کہ مقدمات کے التواء میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ عوامی اہمیت کاحامل ہونے کی وجہ سے آئینی ترامیم کے مقدمہ فل کورٹ تشکیل دی گئی جسے کئی ماہ تک اس مقدمہ کی بحث سنناپڑی اوراس دوران دیگرعام مقدمات کی سماعت پربہت اثرپڑا۔اس کے علاوہ انتخابات ۳۱۰۲ء تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل بھی اس کی وجوہات کی میں شامل ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگریہ تمام عوامل درپیش نہ ہوتے تویقیناًزیرالتواء کی مقدمات کی تعدادمیں خاطرخواہ کمی واقعہ ہوتی۔گزشتہ سال کے دوران دوانتہائی قابل احترام چیف جسٹس صاحبان جسٹس ناصرالملک اورجسٹس جوادایس خواجہ کے علاوہ قابل احترام جج جسٹس اطہرسعیداپنی مدت منصبی کی تکمیل کے بعدہم سے جداہوگئے۔اگرچہ وہ سب حضرات بینچ کاحصہ نہیں ہیں مگران کے فیصلے مگران کے فیصلے ہمارے لیے مشعل راہ رہیں گے اورنہ صرف ہم بلکہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افرادان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔

چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے انصاف کی فراہمی میں تاخیراورمقدمات کے التواء کی وجوہات میں آئینی مقدمات کی سماعت بھی بتائی ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقدمات کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے۔بدلتے حالات ، سیاسی کشمکش اوردیگروجوہات کی وجہ سے عدالتوں میں دائرہونے والے مقدمات کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے۔عدلیہ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کوبھی عدالتوں پرمقدمات کابوجھ کم کرنے ،مقدمات کے غیرضروی التواء اکاباعث بننے والے عوامل کوختم کرنے کے لیے اپناکرداراداکرنا چاہیے ۔جس طرح دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کے مقدمات اورآئینی ترامیم جیسے مقدمات اورکسی بھی معاملہ کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن وغیرہ کے قیام کے لیے بھی الگ سے خصوصی عدالتیں بنائی جانی چاہییں۔سماجی جرائم اورسٹریٹ کرائم کے مقدمات،ملاوٹ، حرام گوشت ، ناقص خوراک کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے لیے بھی خصوصی عدالتیں قائم کی جانی چاہییں۔عدالتوں پرمقدمات کابوجھ کم کرنے اورانصاف کی فراہمی میں تاخیرکوکم سے کم کرنے کے لیے اوربھی تجاویزہمارے پاس محفوظ ہیں۔ ان کولکھنے کے لیے ایک اورکالم درکارہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.