خالق کی عطا کے شُکر کی حقیقت
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
خالق اور بندئے کا تعلق اِس طرح
کا ہے کہ خالق سراپا عطا ہے۔خالق کی اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کا ادراک
انسانی عقل و دانش کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسان کے اِس دنیا میں قدم رکھنے
سے لے کر رخصت ہونے تک ۔ہر ہر لمحہ ہر ہر گھڑی خالق کی جانب سے احسان کا
سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مخلوق کو جب جب کو ئی کامیابی ملتی ہے تو وہ اُسے کبھی
تو اپنی محنت کا شاخسانہ سمجھتی ہے اور کبھی اِس کامیابی کو اپنے چالاک
ہونے یا ہوشیار ہونے کا صلہ سمجھتی ہے۔حالانکہ خالق کے ہاں تو اپنی مخلوق
کے لیے عطا ہی عطاکے دراز سلسلے ہیں جو ختم نہیں ہوتے۔ آدمیت کی تاریخ اِس
بات کی گواہ ہے کہ جن اقوام نے خالق کو حقیقی معنوں میں خالق تسلیم کیا تو
خالق نے اُن پر نعمتوں کی بارش کردی۔ حضرت امام غزالیؒ نے کیمیائے سعادت
میں فصیل کے ساتھ شکر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔حضرت امام غزالی کے
ہاں۔دین کے تین مدارج ہیں علم، حال اور عمل۔لیکن ان تینوں کی اصل علم
ہے۔اور اِس سے حال اور حال سے عمل پیدا ہوتا ہے ۔ پس شکر کا علم یہ ہے کہ
بندہ جانے اور پہچانے کہ جو نعمت اِس کو ملی ہے خالق کی جانب سے ملی ہے ۔حال
نام ہے دل کی اس خوشی کا جو نعمت پا کر حاصل ہو اور عمل یہ ہے کہ اس نعمت
کو اس کام میں صرف کرئے جس میں اِس کے خالق کی مرضی ہو۔ ویسے بھی یہ عمل
زبان اور جسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پس جب تک یہ تمام احوال ظاہر نہیں ہوں گے
شکر کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی اور علم یہ ہے کہ تم اس بات کو پہچانو کہ جو
نعمت تم کو ملی ہے وہ خدا وند تعالیٰ کی عطا کردہ ہے کسی غیر کا اِس میں
دخل نہیں ہے جب تک تمھاری نظروسیلہ اور اسباب پر پڑتی رہے گی اور تم اس کو
دیکھتے رہو گے تو یہ معرفت اور ایسا شکر نا قص ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ
تم کو تحفہ عطا فرمائے اور تم یہ سمجھوکہ مجھے یہ تحفہ وزیر کی مہربانی سے
ملا ہے تو اس طرح بادشاہ کا شکر تم نے پورا ادا نہیں کیا بلکہ تم نے اس کا
کچھ وزیر کو بھی دے دیا اوراس طرح تم پورے طور پر بادشاہ سے شادمان نہیں
ہوئے اور اگر تم یہ سمجھو کہ تحفہ با دشاہ کے حکم سے ملا ہے اور حکم قلم
اور کاغذکے وسیلے سے ہو اہے تو اس طرح سمجھنے سے اس شکر کو کچھ نقصان نہیں
پہنچے گا کیونکہ تم جانتے ہو کہ قلم اور کا غذ ایک دوسرے کے مسخرہیں اور
بذات خود کچھ نہیں کرسکتے بلکہ یہاں تک کہ اگر تم یہ بھی سمجھ لو (کہ حکم
جاری ہونے کے بعد )تحفہ خزانچی نے دیا ہے تو اس میں بھی قباحت نہیں کرسکتا
کیونکہ تحفہ عطا کرنے میں خزینہ دار کا کچھ اختیا ر نہیں تھا ،وہ غیر کا
محکوم ہے اس کو جب حکم دیا جائے گا وہ اس کی نا فرمانی نہیں کرسکتا ،اگر
مالک کا اس کو حکم نہ ہو تو وہ کبھی تحفہ نہیں دے گا اس کا حال بھی بالکل
قلم کی طرح ہے ۔اسی طرح اگر تم تمام روئے زمین کی نعمت (غلہ پھل اور دوسری
غذاؤں )کا سبب بارش کو اور بارش کا سبب ابر کو سمجھو کشتی کا ساحل پر رک
جانا بادِ مراد کا نتیجہ سمجھے گا تو اس طرح بھی پورا شکم (منعم کا )ادا
نہیں ہوگا ۔ہاں جب تم غور کروگے کہ ابر اورباران ،ہو ااورسورج ،چاند اور
ستارے وغیرہ سب کے سب خد اوند تعالی کے دست قدرت میں اس طرح مسخر ہیں جس
طرح قلم کاتب کے ہاتھ میں ہے کہ قلم کاکچھ حکم نہیں ہے کاتب جس طرح چاہیے
اس سے لکھوائے تو اس طرح سوچنا شکر کے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتا اگر ایک
نعمت کسی شخص کے واسطے سے تم کو ملی ہے او ،تم کو یوں سمجھناا چاہیے کہ اس
دینے والے شخص نے تجھ کو جو کچھ دیا وہ اس وجہ سے دیا کہ حق تعالی نے اس پر
ایک موکل کو نازل کیا تاکہ اس کو دینے پر مجبور کرے اگر وہ شخص ا کے خلا ف
کرنا چاہتا تو خلاف کرنا ممکن نہ ہوتا اگر ممکن ہوتا تو وہ ایک چھدام بھی
تم کو نہ دیتا ۔یہ ہم نے جس موکل کا ذکر کیا اس سے مراد وہ خواہش ہے جو اﷲ
تعالی نے اس دینے والے کے دل میں پیدا کی (کہ وہ تم کو کچھ دے )اور اس کو
یہ بات سمجھائی کہ دونوں جہان کی خوبی اس میں ہے کہ یہ نعمت تو دوسرے شخص
نے دی ۔ بس اس دینے والے نے تم کو جو کچھ دیاوہ یہ سمجھ کردیا کہ دین کی
بھلائی اس میں ہے ۔ حضرت امام غزالیؒ مزید بیان فرماتے ہیں۔ اسطرح اس نے
جوکچھ تم کو دیادہ حقیقت میں اپنی ذات کو دیا کیونکہ اس دینے کو اس نے اپنی
ذات کا وسیلہ بنایا ۔حق تعالی نے تم کو مال ونعمت عطافرمائی کیونکہ اس پر
ایک ایسا موکل بھیج دیا ۔ پس جب تم کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ تمام
بنی آدم مالک حقیقی کے خزانچی کی طرح ہیں اور خزانچی درمیان میں اسباب اور
واسطوں کے اعتبا ر سے قلم کی مانند ہیں ، ان میں سے کسی کا بھی کسی چیز پر
اختیار نہیں بلکہ ہر اس صورت میں تم خدا ہی شکر ادا کروگے بلکہ اس حقیقت کا
جان لینا بھی شکر گذاری ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں عرض
کیا کہ یا الہی ،آدم (علیہ السلام )کو تونے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا
اور ان کو طرح طرح کی نعمتیں عطا فر ما ئیں تو انہوں نے تیرا شکر کس طرح
ادا کیا ۔حق تعالی نے فرمایا کی آدم نے یہ سمجھا کہ وہ تمام نعمیتں صرف
میری طرف سے ہیں اور اس طرح سمجھنا عین شکر ہے ۔معلوم ہوناچاہیے کہ ایمان
کی معرفت کے بہت سے ابواب ہیں ان میں سے اول تقد یس ہے یعنی تم اس بات کو
سمجھو کہ خدا وند عالم تمام مخلوقات کی صفت سے اور ہر اس بات سے جو اس
سلسلہ میں وہم وخیال میں آئے پاک ہے ۔سبحان اﷲ کے یہی معنی ہیں ۔دوسری
توحید یہ ہے کہ تم یہ سمجھوکہ دونوں جہان میں جو کچھ ہے وہ اس کامال ہے اسی
کی نعمت ہے الحمداﷲ کے یہی معنی ہیں۔ یہ معرفت پہلی بیان کردہ دونوں باتوں
سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ دونوں اسی کے تحت میں ہیں ۔اس بنا پر سرور کونین
ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سبحان اﷲ میں اس کی حسنات ہیں اورلا الہ الا اﷲ
میں بیس اور الحمد اﷲ میں تیس نیکیاں ہیں ۔یہ حسنات وہ کلمات نہیں ہیں جو
زبان سے کہے جائیں ؓبلکہ ان سے مراد وہ معرفتیں ہیں جوان کلمات میں موجود
ہیں اور ان سے نکلتی ہیں امام غزالیٰ نے آگے جاکر مزید اِس بات پر بحث کی
ہے کہ شکر کے علم کے معنی یہی ہیں۔لیکن شکر کا حال وہ فرحت اور آسودگی ہے
جو دل میں پیدا ہو ۔ اس معرفت اور آگاہی سے جب کوئی شخص کسی غیر سے نعمت
حاصل کرے تواس کے تصور سے خوش ہوااس خوشی اور مسرت کے اسباب تین ہیں ایک یہ
کہ اس وجہ سے خوش ہوکہ اس کو اس نعمت کی حا جت اور ضرورت تھی اور وہ اسکو
ملی گئی تواس کی شادمانی کو شکر نہیں کہا جائے گا ۔ اس کواس مثال سے
سمجھوکہ کسی بادشاہ سے سفر کا ارادہ کیا اس نے اپنے ایک غلام کو ایک
گھوڑادیا ۔ اب اگر گھوڑا پا کر اس لئے خوش ہے کہ اس کواس کی حاجت تھی تواس
طرح بادشاہ کا شکر کس طرح ادا ہوا کیونکہ یہ فرحت وشادمانی تواس کو اس وقت
بھی حاصل ہوتی اگراس گھوڑے کو جنگل میں پا تا ،دوسرا سبب یا وجہ یہ ہے کہ
وہ بادشا ہ کی اس عنائیت کو جو اس کے باب میں ہوئی ہے پہچان کر خو ش ہوکہ
بادشا ہ اس کے حال پر کسی قدر مہربان ہے اور دوسری نعمتوں کی امید بھی دل
میں پیداہوئی ،اگر وہ گھوڑا کسی صحرا یا جنگل میں پاتا تو اسے ایسی خوشی
حاصل نہیں ہوتی ْکیونکہ یہ مسرت اس کے دل میں منعم کے انعام سے پیدا ہوئی
ہے لیکن منعم نہیں ۔ یہ بات اگر چہ شکر میں داخل ہے لیکن نقصان سے خالی
نہیں ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے حضور میں جارہا
ہے تاکہ اس کا دیدارکرے اور سلطان کی ملا قات کے سوا اس کا کچھ اور مطلب
نہیں ہے تو چونکہ یہ خوشی بادشاہ کے باعث پیدا ہوئی اس لئے یہاں شکر پورا
ہوا ۔ اسی طرح اگر اﷲ تعالی نے کسی کو نعمت عطا کی اور وہ اس نعمت سے خوش
ہو نعمت دینے والے سے نہیں تو اس کو شکر نہیں کہا جائے گا اور اگر منعم کے
سبب سے خوش ہوا کہ اس کو یہ نعمت اس کے دین کی خاطر جمعی کا باعث بنی تاکہ
علم و عبادت میں مشغول ہو کر بارگا ہ الہی کا تقرب حا صل کرے تو اس شکر کا
کما ل ہے اور اس کما ل شکر کی علامت یہ ہے کہ دنیاوی علا ئق سے اس کو جو
چیز حاصل ہو وہ اس سے ملول ہو اور اس کو نعمت نہ سمجھے بلکہ اس کے زوال کو
اﷲ تعالی کا فضل سمجھے اور اس کا شکر ادا کرے ۔ایسی چیز جو اُسے دین کے
راستے کو طے کرنے میں اس کی مدگار نہ ہواس سے خوش نہ ہو ۔شیخ شبلی قدس سرہ
نے کہا ہے کہ کما ل شکریہ ہے کہ نعمت نہ دیکھے بلکہ نعمت عطا کرنے والے کو
دیکھے ۔موجودہ ادوار میں انسان کی زندگی کو ایک ایسی ہوس نے آن گھیرا ہے جس
کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔ اِسی ہوس نے وحشت کی شکل اختیار کرلی
ہے کہ انسان سے سکون چھن گیا ہے۔ ظلم و ستم روا رکھ کر کمائی جانے والی
دولت کو بندہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا ہونے کے لیے انسان کو روحانیت کا گلا
کاٹناپڑ رہا ہے جس کی وجہ سے جتنی عیش و عشرت اُسے میسر ہوتی ہے اُتنی ہی
بے چینی اُسکا مقدر بن جاتی ہے۔ |
|