انتہا پسندی

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت انتہا پسندی دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ دنیا میں ہونے والی بہت سی تباہیوں اور بربادیوں کا سرا اگر ڈھونڈا جائے تو ضرور تانے بانے انتہاپسندی کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ دو افراد کے درمیان لڑائی سے لے کر دو ملکوں اور دو خطوں کے مابین خونریز جنگوں میں انتہا پسندی کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انتہا پسندی تشدد کی بنیاد بنتی ہے اور تشدد و قتل و قتال کو انسانیت کی تباہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اعتدال کا دامن چھوڑ کر افراط و تفریط کا شکار ہو جانے کو انتہا پسندی کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص راہِ اعتدال سے منحرف ہوجائے تو پھر وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی شخص نقطہ اعتدال سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے، وہ اسی قدر انتہا پسندی کے قریب ہو جاتا ہے۔ انتہا پسندی کی انتہا دہشتگردی اور خونریزی ہے۔ انتہا پسندی عدم برداشت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور عدم برداشت کا سبب محرومیاں بنتی ہیں۔

انتہاپسندی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی نظریات میں عدم توازن کا نام ہے، جس کا تعلق کسی مذہب، فلسفے یا نقطہ نظر کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ انسانی رویوں کے ساتھ ہے۔ سیاسی جبر، طبقاتی نظام، جہالت، عقلی رویوں کا فقدان، فرقہ واریت اور مذہب کی غلط تشریح کو انتہاپسندی کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں انتہا پسندی کو صرف مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکاؤ بڑھا ہے۔ مخالف فرقوں کے افراد کے خلاف جارحیت کو اپنانا ایک عام روایت بن چکی ہے۔ ایک مکتبہ فکر کے لوگ دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنی مسجد سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ عموماً اسلام کی مخصوص تعلیمات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کو بھرتی کرنے کا جواز بنایا گیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی مذہب انتہا پسندی و شدت پسندی کی ترغیب نہیں دیتا۔ مذہب کی معنویت کے بارے میں انتہا پسندی کبھی نہیں ہوتی، بلکہ انتہا پسندی کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی، اقتصادی، مذہبی، نفسیاتی، تعلیمی اور تخیلاتی عوامل سمیت کئی عوامل انتہاپسندی کی بنیاد بنتے ہیں۔انتہاپسندی کی ایک وجہ جہل ہے۔ انتہا پسندی ناخواندگی کے اندھیروں میں پھلتی پھولتی ہیں۔ ہمارے ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں تعلیم کی شرح بہت کم ہے اور جو تعلیم دی بھی جا رہی ہے، وہ تعلیم بھی انتہا پسندی کا موجب ہے، کیونکہ ہمارا نظامِ تعلیم نوجوانوں کے بنیادی سماجی رویوں کو صراطِ مستقیم کی ڈگر پر چلانے میں ناکام رہا ہے، جب کہ مناسب تعلیم و تربیت سے ہی مطلوبہ سماجی تبدیلی لانا اور بہترین شہری تیار کرنا ممکن تھا۔

پاکستان کا نظامِ تعلیم ابھی تک وہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے، جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی اور ثقافتی رویے فروغ پا سکیں۔ ہمارے معاشرے میں بنیادی طور پر پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے، پبلک ادارے اور دینی مدارس یہ تین نظام تعلیم رائج ہیں۔ تینوں نظاموں کے لوگوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہے، جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مختلف نظاموں سے احساس محرومی بڑھتا ہے اور محرومی کا یہ احساس اس وقت اور بھی گہرا ہو جاتا ہے، جب بے روزگاری عام ہو۔ عمومی طور پر بے روز گاری بھی انتہا پسندی کی جانب ایک قدم ہے۔ اگر نوجوانوں کو کھپانے کے لیے کوئی موزوں ڈھانچہ پہلے سے موجود نہ ہو تو اس کے برے نقائص برآمد ہوتے ہیں اور یہی صورتِ حال منفی سرگرمیوں کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ جب بے روزگار نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے تو وہ آسانی سے انتہا پسندی کا شکار ہو کر شدت پسندوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ناانصافی انتہا پسندی کی سب سے بڑی اور ایک اہم وجہ ہے۔ معاشرتی انصاف کا فقدان سماجی اقدار کو کمزور کرتا ہے۔

رشوت ستانی اور میرٹ کا قتل عام ناانصافی کی مثالیں ہیں، جو انتہا پسندی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے افراد مایوسی کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، جب لوگوں کو اپنے حقوق بھی میرٹ پر نہ ملیں تو پھر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ ہمارے سماجی قدروں کے مختلف درجے ہیں، جو کہ متوازن معاشرے کے ڈھانچے سے مناسبت نہیں رکھتے۔ معاشرے میں وڈیروں، جاگیرداروں اور امرا کے طبقے کو نہایت عزت کے مقام سے دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے امیر لوگ اور مراعات یافتہ طبقات غریب لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اس قسم کے رویوں نے نچلے طبقات کے لوگوں کو نفسیاتی مسائل میں جکڑ رکھا ہے۔ نتیجتاً یہ لوگ انتہا پسندوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے ہیں، بلکہ خود بہت بڑے انتہا پسند بن کر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے اسباب میں سیاسی کلچر کے ساتھ اقتصادی ثقافت کا بھی عمل دخل ہے۔ ملک کی اقتصادی اکائیوں میں بٹی ہوئی قوم کو غربا نچلا درمیانی طبقہ، درمیانی طبقہ، بالائی درمیانی طبقہ اور امرا کے مندرجہ ذیل گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ غربا احساس محرومی کا شکار ہیں اور درمیانی طبقے کا شمار بھی محروم لوگوں میں ہوتا ہے۔ آمرا نے کمزور لوگوں کا استحصال کیا ہے، درمیانی اور غریب طبقات جو کہ امرا کے دستِ کرم پر ہوتے ہیں، محرومی سے دوچار ہیں۔ نتیجتاً یہ احساس انھیں بدلہ لینے پر اکساتا ہے۔

اس طرح ہمارا اقتصادی نظام بھی انتہا پسندی کے عوامل کو ابھارتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں بھی ایسے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب ہیں، حالانکہ آئینی اور قانونی طور پر تمام شہری مساوی بنیادوں پر سیاسی مواقعے سے فائدہ اٹھانے کے اہل تصور ہوتے ہیں، مگر عملی طور پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کئی ایسے سماجی طبقات ہیں جو کہ سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ بعض لوگوں اور کچھ خطوں میں یہ احساس محرومی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ذرایع ابلاغ ایسا طاقت ور آلہ ہے جو کسی معاشرے کے سماجی طریقہ واردات میں رنگ بھرتا ہے۔ یہاں سے ایسے نظریات کو فروغ حاصل ہوتا ہے جو کہ ناظرین اور قارئین میں نرم گوشے یا شدت پسندانہ رویوں کو ابھار سکتے ہیں۔ پاکستانی ذرایع ابلاغ نے ایک محرک اور عامل کا کردار ادا کیا ہے جس سے انتہا پسندی کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی ہے۔

ہمارا معاشرہ سماجی اقدار میں عجیب و غریب نمونہ پیش کرتا ہے۔ کسی کو مارنا یا قتل کرنا اعلیٰ حوصلگی کا مقام سمجھا جاتا ہے اور ذرایع ابلاغ بھی ایسے واقعات کا خوب چرچا کرتے ہیں جن سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے سے انتہا پسندی کو جلدی ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن اگر اعتدال پسند لوگ اپنے تئیں اس کے خاتمے کے لیے کوشش ضرور کر سکتے ہیں، جو جتنا کر سکتا ہے، وہ اپنی ذمے داری ادا کرے تو ضرور معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی میں کمی آ سکتی ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.