سرکاری نوکر قربانی کے بکرے

ہمارے پاس ہر مسئلے کا بڑا سادہ حل ہے ۔ کسی نہ کسی کو عہدہ سے برطرف کردیا جائے اور اس کے بعد یوں عوام کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا جائے کہ جیسے اس برطرفی کے بعد ہر طرف چین اور سکون ہوجائے گا ۔ سب نظام ترتیب کے سانچے میں ڈھل جائے گا۔ کسی مسئلے کے بعد متعلقہ یا غیر متعلقہ افراد کو بر طرف کر دینا مسائل کو حل کرنے کا تھرڈ کلاس طریقہ ہے ۔ سرکار کا نظام بہت کمزور ہے یہ بات ہر کوئی جانتابھی ہے اور مانتا بھی ہے ۔ حکومت کی رِٹ جس طرح آئے روز سرِبازار رسوا ہوتی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بلکہ اکثر تو حکومتی چہیتے ہی اس رٹ کے ساتھ ہنسی مذاق کرکے سر بازار اسے برہنہ کر دیتے ہیں ۔ ایسی کسی بھی موج مستی کے بعد قربانی کا بکرا اکثر و بیشترغیر متعلقہ حکام کو ہی بنایا جاتاہے۔ اس کی تازہ مثال دو ڈی سی اوز کی سسپنشن ہے ۔ پہلے تو بیوروکریسی کا دم چھلا ٹانک کر ننھی جان کو وسیع علاقے کی نگہبانی سونپ دی جاتی ہے ۔ دیکھنے والوں کو دور سے ٹوراورلش پش زیادہ نظر آتی ہے ۔ جان جوکھم بکھ بکھیڑے ہر کوئی بھلا کہاں دیکھ پاتا ہے ۔ میرا بھی پہلے یہی خیال تھا کہ چمچماتی گاڑی ہے اوپر نیلی بتی ہے آگے پیچھے پروٹوکول ہے شہر پر حکمرانی ہے۔ ہر کوئی اشارو ں کا منتظر ہے موج ہی موج ہے۔ یہ سب کنسپٹ کافی حد تک محترم قدرت اﷲ شہاب نے ڈیلوپ کیا ہے ۔ گوروں کے دور میں واقعی موج ماری بے ہنگم اور بے تحاشا تھی پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسکریو ٹائٹ ہوتا گیا ۔ آج اسکریو اس قدر کساجا چکا ہے کہ اس کے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔ میں بھی ہر عام شہری کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ یہ پوسٹیں تو سونے کی کان ہیں سائن کرتے جاؤ اور موجیں کرتے جاؤ۔ اسی کھیل کھلارے میں ایک دن ایک صاحب بہادر کے ساتھ دن گزارنے کا موقع ملا۔ ہر گزرے لمحے کے ساتھ مجھے اپنی ماضی کی سوچ پر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی ۔ میرے ایک دوست اکثر مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ یار مذاق نہ سمجھا کرو ان سیٹوں پر بہت کام ہوتاہے بہت پریشرز ہوتے ہیں ہر افسر اوور برڈن ہے ۔ میں ہنسی مذاق میں ٹال دیتا وہ لاکھ سمجھاتا کہ شہر کا نظام چلانے تمام محکموں کو جاگتے رہنا کی صدا آخر کوئی تو لگا ہی رہا ہوتا ہے ۔ میری وہی روائتی پاکستانیوں والی نہ ماننے کی ہٹ دھرمی تھی۔ صاحب بہادر کے ساتھ گزارے ہوئے ایک دن میں مجھے خوب اندازہ ہوگیا کہ مغز کھپائی کا سلسلہ صبح سویرے دفتر میں قدم رکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ میٹنگز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ الگ ۔وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا ہے کہ کب دن چڑھا اور کب اتر گیا اس معاشرے میں جہاں ہر کوئی اپنے ناجائز مفادات کا نگہبان خودساختہ بنا ہوا ہے سرکار کی جیب بھرنا ریونیو اکٹھا کرنا کس قدر مشکل اور ڈینجرس کام ہے یہ سمجھنا ایساہی ہے جیسا کہ ٹھنڈی گاڑی کا ڈرائیور باہر تارکول سے تپتی سڑک پر بجری ڈالنے والے ورکرز کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرے۔ بات کو سادہ کرتے ہیں ۔ فرض کیجئے آپ ڈی سی او ہیں یا اسسٹنٹ کمشنر ہیں ۔ سب سے پہلے تو آپ کو جن محکموں کی سربراہی کرنے کی فہرست ملتی ہے وہی سن کر آدمی کو اچھا خاصا چکر آجاتا ہے۔ اتوار بازاروں سے لیکر مویشی منڈیوں کا انعقاد تک یہ سب بطور ایڈمنسٹریٹر آپ کی ذمہ داری ہے اس بیچ جو کچھ بھی موجود ہے سٹرکیں و کھمبے لڑائی جھگڑے جلوس احتجاج ہنگامے بم دھماکے لوٹ مار وکیلوں ڈاکٹروں کی ہڑتال ہسپتالوں کے معاملات پولیس کا استعمال ذخیرہ اندوزوں کی چالیں ناخالص دودھ بیچنے والوں کی مستیاں بیکریوں پر مکھیوں سے بھرے مٹھائیوں کے تھال دو نمبر نمکو بنانے والے بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہر شہری کی جان و مال کاتحفظ ڈینگی کے خلاف مہمات الغرض جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں سب صاحب بہادر کی ذمہ داری ہوتا ہے ۔ یہ تو تھے سرکاری کام ۔ حکومتی لاڈلوں کی خواہشات کی فہرست ان کے مفادات اس سب سے الگ اور اوکھے ہوتے ہیں ۔ جس کا انجام ذہنی انڈر پریشر ہو کر انجام دینے کے چکر میں اکثر صاحبان یا تو اپنا کیریئر داؤ پر لگوا بیٹھتے ہیں ۔ ایک دفعہ کیریئر کو ٹکا لگ گیا تو سمجھیں ترقی کے راستے بند۔ بسا اوقات تو انکوائریاں ہی ایسالے بیٹھتی ہیں یا تو نوکری سے فارغ ہوکر گھر کی راہ دیکھنی پڑتی ہے یا پھر حوالات کی سیر ۔ سائیں لوگوں نے آرڈر دینا ہوتا ہے کہ ہمارے ووٹرز بھی ناراض نہ ہوں ان کی خواہشات کی بھی تکمیل ہو ۔ قاعدہ قانون صاحب بہادراپنا خود دیکھتا رہے ہمارا کام ہونا چاہیے۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر لینا ایسی بیوقوفی ہوتی ہے جیسی کہ ایس پی نیکو کارا نے کی ۔ سی ایس ایس پاس کرنا اور ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہونا کس قدر اوکھا کام ہے۔ یہ کہانی پھر سہی ۔ دن رات کی محنت کے بعد حاصل کی ہوئی عزت کسی کی ناجائز خواہشات کے بوجھ تلے دفن ہو جائے یہ کتنا تکلیف دہ ہے یہ اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ یہ جن پر گزرتی ہے وہی جانتے ہیں ۔ پورادن جان کھپا کر آپ شام کو ہیرو بن کر گھر جاتے ہیں سوتے وقت تک آپ ہیرو ہوتے ہیں مگر صبح آپ سوکر اٹھتے ہیں تو آپ ہیرو سے زیرو ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ کو ہیرو سے زیرو بنانے کے لئے ایک ہیڈمسٹریس یا ایک بیل گاڑی والا ہی کافی ہے ۔ ہیڈ مسٹریس نے ڈینگی مکانے کی ٹھانی چپڑاسی بھیج کر تھرڈ کلاس اسپرے منگوایا اور اسکول میں چھڑکاؤ شروع کروادیا۔ آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ۔ نہ آپ نے محکمہ تعلیم کو کوئی مراسلہ بھیجا نہ ہدایات دیں۔ چند طالبات بے ہوش ہوئیں خبر میڈیا سے ہوتی ہوئی فیس بک تک پہنچی ۔ آپ بھاگے بھاگے پہلے اسکول پھر ہسپتال پہنچے ۔ اسی دوران آپ کی سسپنشن کی خبر آن ائیر ہوجاتی ہے ۔اس کو چھوڑیں ایک بیل گاڑی بان نے غربت کے ستائے ملک میں ڈبل پھیرا لگانے کے چکر میں زیادہ اینٹیں لوڈ کرلیں ٹائر گٹر کے ڈھکن کے اوپر سے گزرا۔ ڈھکن ٹوٹ کر گٹر میں جاگرا ۔پیچھے سے معصوم بچہ کھیلتا ہوا بیدھیانی میں آیا اور گٹر میں جا گرا۔ اہل علاقہ نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج آپ کی عزت آپ کی محنت سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ایک طرف تویہ گڈ گورننس کا اسٹائل ہے دوسری طرف دن دیہاڑے بندے سرکاری گولیوں سے گرتے اور مرتے رہے لیکن کوئی قابل گردن زنی نہیں ۔ کیونکہ آرڈر دینے والے جو حکومتی صفوں کے مجاہد تھے۔ قتل بھی کرو ہو اور کرامات بھی۔ اگر سرکاری افسران کو ذمہ دار ٹھہرا کر برطرف کرنا ٹھیک ہے تو پھریہ اصول باٹم سے لیکر ٹاپ تک اپلائی کیا جانا چاہیے اسی سب سسپنشن بحالی کے کھیل میں اگر بیوروکریٹ صاحبان نے بھی ڈاکٹرز اور وکلاء کی طرح کی ایسوسی ایشن بنا لی تواس کا توڑ شائد ملک بھر میں کسی کے پاس نہیں ہوگا ۔ آپ ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں یہ دودھ کے رکھوالے ہیں انہیں بلاپینے سے روکیں ۔یہ قربانی کے بکرے ہرگز نہیں ہیں کوئی دن رات ایک کرکے شہر کو بنائے سنوارے اور کسی کے قصور کی سزا اسے دیدی جائے ۔ یہ کسی طور جائز نہیں ۔ خوف کی فضاء کام کیلئے انتہائی مضر ہوتی ہے خوف صلاحیتوں اور ایفی شنسی کا قاتل ہے۔لوگ پرفارم کرنے کی بجائے دن اور وقت گن گن کر گزارنا شروع کر دیتے ہیں ان کی احتیاط سسٹم کو منجمد کردیتی ہے ۔fear فری انوائرمنٹ میں چیک ان بیلنس کی چھتری تلے شہروں کو پیرس بنانے کا خواب پورا ہوسکتا ہے ۔ بصورت دیگر ایک برطرف ہوگا دوسرا برطرفی کے ڈر سے ڈرتا ڈرتا برطرف ہوگا۔ یہ سلسلہ ترقی کا قتل کرنے کے علاوہ کوئی کرشمہ نہیں کرے گا۔
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 20017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.