عدم مساوات ۔۔۔ قانونِ فطرت
(Prof. Niamat Ali Murtazai, )
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مساوات
ایک بہت بڑی حقیقت ہے اورمذاہب ، اخلاقیات اور مفکرین نے اس کا بہت پرچار
کیا ہے۔ اس کو ایک آفاقی قدر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل ایسا
نہیں ہے۔مساوات ایک مثالی نظریہ ہے جبکہ عدم مساوات ایک عملی حقیقت ہے۔
سوچنے کو بہت سی مثالی چیزیں سوچی اور تصور کی جا سکتی ہیں ، لیکن ان چیزوں
کا عمل کی دنیا سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہوتا جتنا بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حال
اس مساوات کے عام طور پر سمجھے جانے والے نظریئے کا ہے۔
ہم بغیر کسی جانب داری اور تعصب کے فطرت میں جاتے ہیں اورمشاہدہ کرتے ہیں
کہ یہاں کتنی مساوات اور کتنی عدم مساوات ہے۔ اگرچہ دیکھنے کو فطرت کے تمام
جانور ایک ہی ماحول میں جی رہے ہوتے ہیں لیکن کیا ان کے جسموں، رویوں اور
خوراک میں مساوات ہے؟ ہر گز نہیں۔
فطرت تمام جانداروں کو ایک جیسا پیدا نہیں کرتی۔کوئی مخلو ق اتنی چھوٹی ہے
کہ آنکھ سے نظر ہی نہیں آتی جیسا کہ وائرس ، بیکٹیریا ۔ کوئی مخلوق ایسی ہے
کہ آنکھ سے نظر آ تی ہے لیکن کوئی قابلِ ذکر جسامت نہیں رکھتی جیسا کہ کیڑے
مکوڑے۔ کوئی مخلوق ایسی ہے کہ نظر کو بھلی لگتی ہے جیسا کہ ہرن، بھیڑ بکری،
زرافہ، وغیرہ اور کوئی مخلوق ایسی ہے کہ نظر میں دہشت پیدا کرتی ہے جیسا کہ
ببر شیر، ٹائیگر، ہاتھی ، اژدھا ۔ جانداروں کی اس تخلیق میں کہیں بھی
مساوات نظر نہیں آتی۔شیر کے اس قدر خوف ناک اور خون خوار ہونے میں اس کا
اپنا کیا قصور ہے؟ کچھ بھی نہیں۔اس کو گوشت خور کسی اور نے بنا یا ہے۔ وہ
اپنے روئیے کا جواب دہ نہیں ہے۔اگر ہاتھی اتنا زیادہ کھاتا ہے تو اس میں اس
کا کیا کمال ہے؟ کوئی نہیں۔ اسے بنایا ہی ایسا گیا ہے۔سانپ اگر ڈستا ہے تو
اسے بنایا ہی ڈسنے والا گیا ہے۔ وہ کسی کو دودھ نہیں پلا سکتا۔ بیماری
پھیلانے والے جراثیم بیماری ہی پھیلائیں گے وہ صحت کے سفیر نہیں بن سکتے۔اب
کانٹوں میں خو شبو نہیں رکھی گئی تو ان کا کیا قصور ہے اور اگر پھول کو خو
شبو کا امین بنایا گیا ہے تو اس کا کیا کمال ہے۔ یہ تو فطرت کی دین ہے جسے
جو مل گیا۔ایک ہی درخت یا پودے پر لگنے والے سارے پھولوں یا پھلوں کی قسمت
ایک جیسی نہیں ہوتی۔اب ان میں مماثلت یا مساوات تلاش کرنا کوئی معقول بات
نہیں لگتی۔فطرت یہ امتیازات خود ہی تو استوار کرتی اور پروان چڑھاتی ہے۔
سمندر کی سطح بظاہر ہموار لگتی ہے لیکن جیسے ہی ا س کے اندرنظر غوطہ زن
ہوتی ہے، سمندر کی عدم مساوات کھل کر سامنے آجاتی ہے۔کہیں ریزہ ریزہ چھوٹی
مخلوق اور کہیں وہیل مچھلی جیسی دیو ہیکل مخلوق۔ہر مخلوق دوسری مخلوق کو
شکار کرنے کے چکر میں ۔اب اگر شارکیں دوسروں کو شکار نہ کریں تو اور کیا
کریں۔ ان کے لمبے لمبے دانت ان کو نڈر بننے میں معاونت کرتے ہیں۔ان کی تیز
رفتاری اپنے شکار تک رسائی آسان بنا دیتی ہے۔بڑی مچھلی اگر چھوٹی مچھلی کو
نہ کھائے تو اپنا پیٹ کیسے بھرے۔ دریاؤں کے مگرمچھ اپنی حیثیت منواتے رہتے
ہیں اسی لئے تو کہا جاتا ہے : دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر۔سمندر میں
کہیں پہاڑوں جیسی چٹانیں ہیں اور کہیں نا قابلِ پیمائش کنویں انسان کو اپنی
کم مائیگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ہیں۔یہ امتیازات اور اختلافات سمندر
کے خود ساختہ نہیں ہیں۔بلکہ فطرت نے خود ہی یہ سارا کھیل اور اس کے اصول
بنائے ہیں۔مختلف جگہوں کے سمندر بھی ایک جیسے کہاں ہیں۔ کوئی بحرِ احمر ہے
تو کوئی بحرِ اسود، کوئی اوقیانوس ہے تو کوئی بحرِ الکاہل۔ سمندروں میں
مساوات نام کی چیز تلاش کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ عام سمجھ لیا جاتا ہے۔
فطرت ایک طرف سمندر بناتی ہے تو دوسری طرف گلیشیئر۔یہ عد م مساوات ہے۔ اس
کو آئیڈئیل سوچ مساوات کا انداز دینا چاہے گی ۔ اب ایک لمحے کے لئے سوچیں
کہ اگر یہ دونوں برابر ہو جائیں تو پانی کس سمت میں بہے گا؟ کسی بھی سمت
میں نہیں۔ اس عدم مساوات میں فطرت نے پوٹینشل رکھا ہے۔اس پوٹینشل سے کتنے
دریا اور نہریں اور پھر ان سے کتنے کھیت اور کھلیان فیض یاب ہوتے ہیں۔کہیں
صحرا ،چٹانیں،کہیں گلستاں اور کہیں خارستاں۔تمام زمینوں کی نوعیت اور قیمت
ایک جیسی نہیں۔ تمام مقامات کی حیثیت ایک جیسی نہیں۔یہی تو عدم مساوات ہے۔
مذاہب کے اندر تقدس کے لحاظ سے مقامات کی حیثیت ایک جیسی نہیں۔حرم ِ کعبہ
میں ادا کردہ ایک نماز ، ایک لاکھ نماز کا ثواب رکھتی ہے۔ یہ اعزاز کسی اور
مقام کو حاصل نہیں۔نماز وہی، الفاظ وہی، ادائیگی کا طریقہ وہی، رکعات کی
تعداد وہی ۔۔۔۔ سب کچھ وہی لیکن صرف اور صرف جگہ کی تبدیلی سے ثواب ایک
لاکھ گنا بڑھ جانا عدم مساوات کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے۔سال کے سارے
مہینوں میں عبادات کا ثواب ہے لیکن رمضان میں انہی عبادات کا ثواب ستر
گنایا اس سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ رمضان کی دوسرے مہینوں پر واضح
برتری ہے۔ سال کے مہینوں میں مساوات نہیں ۔اسی طرح جمعہ کے دن کی باقی دنوں
پر فضیلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس طرح دنوں میں بھی عدم مساوات کا تصور
ہی سامنے آتا ہے۔اب ایک دن کے اندر اندر آنے والے لمحات اور پہروں میں سے
بھی کچھ اوقات زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔ ’عصر‘ کی قسم بھی ایک مسلمہ حقیقت
ہے۔ تہجد کے وقت کی فضیلت بھی ایک عام مسلمہ حقیقت ہے ۔اس طرح اوقات کی عدم
مساوات ہمارے سامنے واضح ہوجاتی ہے۔
اداروں کا نظام بھی عام طور پر عدم مساوات یا درجہ بندی کی پالیسی پر
استوار کیا جاتا ہے۔ ایک ملک سے لے کرایک پرائمری سکول تک، ہر جگہ درجہ
بندی ضروری ہوتی ہے۔ اور اس درجہ بندی کے بغیر پوٹینشل نہیں بن پاتا اور
ادارہ کوئی کار کردگی نہیں دکھا سکتا۔کیا ملک کاصدر ایک عام شہری کی سی
حیثیت رکھتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس کا سارا خرچ سرکاری ہوتا ہے اور ایک عام
آدمی اپنا گزارا خود ہی کرتا ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کے دورے کرتا ہے اور عام
شہری کے پاس چھوٹے سے سفر کے لئے بھی کرایہ نہیں ہوتا ۔ وہ کیسے برابر ہو
سکتے ہیں۔کسی بھی ادارے کا کام عدم مساوات یا درجہ بندی یا حاکم اور ماتحت
کی پالیسی ہی سے چل سکتا ہے۔ ورنہ ’ تو بھی رانی میں بھی رانی ، کون بھرے
گا پانی‘ والی بات ہو جائے گی اور ادارے تباہ ہو ں گے۔ فوج کو سب سے زیادہ
منظم ادارہ ہونے کا شرف حاصل رہا ہے لیکن فوج ہی میں تو سب سے زیادہ درجہ
بندی اور اس درجہ بندی کی پاس داری ہے۔ افسر اور ماتحت کا فرق تو اصل میں
فوج ہی میں اپنا مظاہرہ کرتا ہے۔یہ عدم مساوات کا ہی ایک پہلو ہے۔
مرد اور عورت کا امتیاز بھی فطرت کے عدم مساوات کے اصول کے عین مطابق ہے۔
جسے نہ کبھی ختم کیا جا سکا ہے اور نہ کبھی کیا جا سکے گا۔فطرت میں تمام فی
میل، اپنے میل سے زیادہ کمزور اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ ببر شیر اپنی شیرنی سے
زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔بیل اپنی گائے سے جسامت اور طاقت میں بڑا ہوتا
ہے۔مرغا اپنی مرغیوں پر راج کرتا نظر آتا ہے۔میل مچھلی بھی فی میل مچھلی سے
زیادہ مضبوط اور زورآور ہوتی ہے۔ یہ فطرتی اصول ہے جسے کسی طور بھی جھٹلایا
نہیں جا سکتا۔ کیا کبھی فی میل کھلاڑیوں کی ٹیم میل کھلاڑیوں پر فتح یاب
ہوئی ہے؟ شاید نہیں۔ زبان اور ہلکی پھلکی سرگرمیوں کو چھوڑ کر۔کیا کبھی
عورتوں کی کوئی فوج ، مردوں کی کسی فوج پر غالب آئی ؟ ہرگز نہیں۔ میدانوں
میں لڑنا مردوں کا طرہء امتیاز ہے اور گھروں میں لڑنا عورتوں کا۔ کیا کبھی
کوئی مردِ آہن ’گھریلو جنگ ‘میں سرخ رو ہوا ہے ؟ کبھی نہیں۔ تو پھر مساوات
اور برابری کیا ہوئی۔ اگرچہ عورتوں کی خدمات بھی قابلِ تعریف ہیں لیکن جس
سطح کی ہم بات کر رہے ہیں وہ اعلیٰ ترین طاقت اور بہادری کی ہے جن تک
عورتیں اپنی فطرتی کمزوری کی باعث کبھی نہیں پہنچ سکیں۔ اب تو یہاں تک
دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتیں کی کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال جیسی ٹیموں کے میچ
ہوتے ہیں لیکن تماشائیوں کی بڑی تعداد اسٹیڈیئم میں نہیں آتی۔ یہاں تک کہ
سکرین پر بھی دیکھنے کو بھی اتنا دل نہیں چاہتا۔اگرچہ عورت، مرد کے لئے
فطرتی طور پر کشش رکھتی ہے لیکن کھیل کی جو گریس مرد کھلاڑیوں کے کھیل میں
ہوتی ہے وہ عورتوں کی کھیل ، سوائے ایک دو کے، میں نہیں آتی۔موجودہ زمانے
نے عورتوں کی مردوں سے برابری کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن فطرت سے کون جیت
سکتا ہے۔ اب بھی اگر سائنسی ایجادات،سماجی اصلاحات، قانون سازی،وغیرہ کے
کاموں میں عورتوں اور مردوں کا تناسب دیکھیں تو اس میں واضح فرق نظر آئے
گا۔ آج کل بہت سی عورتیں ڈاکٹر بن رہی ہیں لیکن کسی عورت ڈاکٹر کا نام نہیں
آیا جو کہ ایک کامیاب سرجن بھی ہو۔ جہاں سرجری جیسا دل گردے کا مرحلہ آتا
ہے وہیں لیڈی ڈاکٹر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔خیر اس عدم مساوت کا باب بہت وسیع
ہے۔عورتوں کی اپنے میدانوں میں برتری کو مرد کبھی چیلنج نہیں کر سکیں گے۔
عورتوں جیسی نزاکت اور دلربائی مردوں کو نہ کبھی نصیب ہوئی ہے نہ ہو گی۔
بات مرد کی یا عورت کی برتری کی نہیں ۔ بات دراصل عدم مساوات کی ہے کہ وہ
ایک جیسے نہیں ہیں۔ پیرامیٹر بدلنے سے برتری کا تناسب بھی بدل جاتا ہے۔
مساوی نہیں رہتا۔
ذہانت جیسی خداد صلاحیت میں انسان یکساں نہیں ہیں۔ ایک گھر کے افراد بھی
ذہانت کے اعتبار سے اکثر ایک درجے میں نہیں آتے۔کوئی زیادہ اور کوئی کم
ذہانت کا مالک ہوتا ہے۔ کوئی اپنی ذہانت سے وہ کچھ حاصل کرتا ہے کہ دوسرے
دیکھتے رہ جاتے ہیں اور کوئی کم عقلی سے بنی بنائی ناؤ ڈبو دیتا ہے۔ایک
خاندان سے لے کر تمام نسلِ انسانی تک یہ عدم مساوات کا سلسلہ اسی طرح
پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک انسان مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔
اس کے رویئے، سوچیں اور نظریات میں وقتی تبدیلی کا آنا کوئی اچنبے کی بات
لیکن نہیں ہے۔سونے سے پہلے کے خیالات اکثر سونے کے بعد کے خیالات سے بڑی حد
تک مختلف یا ترامیم شدہ ہو تے ہیں۔
امتحانات ،معاشرے میں عدم مساوات پیدا کرنے اور پروان چڑھانے والے، بڑے
عوامل میں سے ایک ہیں۔ ایک کلاس کے سارے سٹوڈنٹس ایک درجے میں کم ہی آتے
ہیں۔اور جو سب سے زیادہ نمایاں کار کردگی دکھاتا ہے وہ اول قرار پاتا ہے۔اب
اول آنا ایک امتیاز ہے۔ یہ امتیاز حاصل کرنے والے کو ادارہ اور معاشرہ
سراہتا ہے تو در اصل وہ عدم مساوات کی حمایت ہی کر رہا ہوتا ہے۔اور اپنے
سٹوڈنٹس میں اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ نمایاں بنانے کی شعوری اور غیر
شعوری خواہش پیدا کر رہا ہوتا ہے۔اسی امتیاز کو مذید فروغ دینے کے لئے
ڈویژنین بنائی گئی ہیں۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ اپنے ہی ملک میں تھرڈ ڈویژن
پانے والے نہ زندوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ مردوں میں۔ اتنے بڑے امتیاز
کے ہوتے ہوئے کون مساوات کی بات کر سکتا ہے۔ پہلے طور پر امتیاز ’پاس‘ اور’
فیل‘ کے الفاظ ہی کر دیتے ہیں۔ اگر اس امتیاز کو ختم کرنا چاہیں تو پورا
امتحانی نظام بے معنی ہو جاتا ہے۔الغرض تمام امتحانی نظام امتیازات پیدا
کرنے کے فلسفے کے گرد گھوم رہے ہیں۔
انسان اپنے آپ کو ہی دیکھ لے ،اس پر’ عدم مساوات‘ کا اصول واضح ہو جائے گا۔
دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے زیادہ طاقتور ، کچھ اعضا عام اور کچھ رئیس۔
آنکھیں نکل جائیں تو انسان مرتا نہیں لیکن دل کی حرکت رک جائے تو انسان
بچتا نہیں۔کان اپنا کام بند کر کے سرہانہ لے کر سو جائیں تو کوئی بات نہیں،
لیکن اگر گردے کام سے انکار کر دیں تودل گردے والا بھی بچ نہیں سکتا ۔لو
ایک ہی ہاتھ کی پانچوں انگلیاں بھی برابر نہیں، اور ان انگلیوں کی طاقت اور
کام مختلف ہیں۔اور آپ کو معاشرے میں لوگ اکثر یہ مثال دیتے مل جائیں گے کہ
’پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں‘۔جس کا مطلب تو آپ بھی جانتے ہیں کہ سب
انسان برابر نہیں ہوتے۔یہی بات تو ہم کہے جا رہے ہیں کہ ہر طرف عدم مساوات
کی حکمرانی ہے۔
سائنس کی غیر جانبداری ضرب المثل ہے لیکن سائنس کی ایک تھیوری پر سب
سائنسدانوں کا اتفاق مشکل ہوتا ہے۔ ایک ہی سیمپل کی مختلف لیبارٹریوں کی
رپورٹیں مختلف آتی ہیں۔ اور ایک جیسی علامتوں کے پیشِ نظر تجویز کردہ نسخہ
جات میں ڈاکٹروں میں اختلاف بہت آسانی سے مشاہدے میں لایا جا سکتا ہے۔
سائنسی نظریات میں ہر روز کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ کبھی
فلوجسٹن نظریہ حقیقت سمجھا جاتا تھا، کبھی ایتھر تھیوری کو بھی مقبولیت
حاصل تھی۔ کبھی نیوٹن کی مکینکس کو بھی عروج حاصل تھا لیکن وقت کے ساتھ
ساتھ نظریات نے بھی کروٹ لی اب یہ سب کچھ اپنی پہلے جیسی حیثیت کھو
بیٹھا۔ایٹم کی ساخت پر کئی ایک نظریات کا وجود موجود ہے۔ یعنی کہ سائنس
جیسی غیر متعصب فیلڈ بھی غیر جانب دار نہیں رہ پاتی اور اختلافات کی فطرت
یہاں بھی اپنا کام دکھا جاتی ہے۔
مختلف اشیاء میں واقع اختلاف تو بہت بڑی بات ہے ایک ہی جنس کی کئی ایک
اقسام فطرت کی تضاد پسندی پر انمٹ مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہیں۔ کیا چاول ایک
ہی قسم اور قیمت کا ہوتا ہے، کیا گندم کی اقسام نہیں ہوتیں، کیا تمام لکڑی
ایک ہی جیسی صفات کی حامل ہوتی ہے۔ان ساری باتوں کا جواب ایک بہت زوردار
’نہیں‘ میں ہی آئے گا۔ کیا ساری زمینوں کی پیداواری صلاحیتیں ایک جیسی ہیں،
کیا ساری جگہوں سے نکالا گیا پانی ایک جیسا ہوتا ہے۔۔۔۔بالکل نہیں۔ تو کیا
عدم مساوات قانونِ فطرت نہیں ٹھہرتا۔ ضرور ٹھہرتا ہے!
آسمان پر نظر ڈالیں ’عدم مساوات‘ کا جھٹ سے یقین آ جائے گا۔ کیا تمام ستارے
ایک جیسے روشن ہیں ؟ بالکل نہیں۔ کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے۔ کسی کی
اپنی روشنی اور کسی کی مستعار۔ کسی کا سال کتنا اور کسی کا کتنا۔ان کے اپنے
اپنے خواص اور اپنے اپنے اثرات ۔ ان سب کو کیسے مساوی سمجھا جا سکتا
ہے۔کوئی چاند کہلاتا ہے مگر گزارہ ادھار پر کرتا ہے، کوئی مہر کہلاتا ہے
اور سارا دن آسمان سے زمین پربے مہری سے راج کرتا ہے۔ کوئی چھوٹے چھوٹے
ستارے، چوروں کی طرح اپنے آپ کو چھپائے رکھتے ہیں، اور کوئی اتنے بے باک کہ
ہر جرم کی مخبری کرتے پھرتے ہیں۔ یہاں بھی مساوات کا تصور محوِ حیرت ہو
جاتا ہے۔
مذاہب مساوات کے سب سے بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں لیکن خود مذاہب میں عدم
مساوات کا بہت بڑا عنصر موجود ہے۔کسی بھی مذہب کے ماننے والے اپنے آپ کو
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو حقارت کی
نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔اسی طرح ہر مذہب کے اندر بننے والے فرقے ایک دوسرے پر
اپنی برتری کا واضح رجحان رکھتے ہیں۔ایک مذہب کے اندر اندر نیک اور بد کا
امتیاز سامنے آتا ہے۔ یعنی ایک مذہب کے ماننے والے’ نیک‘ اور’ بد‘ بھی
برابر نہیں سمجھے جاتے۔نیک لوگوں کے لئے جنت اور بدکاروں کے لئے جہنم کا
اعلان کیا جاتا ہے۔اوریہ آپس میں برابر نہیں سمجھے جاتے۔ہر مذہب کے اندر
کچھ مقامات کا تقدس باقی مقامات سے زیادہ بلکہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔مذاہب
کی مقدس ہستیوں سے برابری کا تصور بھی کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔
کچھ ہستیاں اعتراض اور سوال سے بالا تر ہوتی ہیں اور باقی لوگ چاہے کچھ بھی
کر لیں ان جیسے نہیں ہو سکتے۔یہ بات ہم کسی بھی مذہب کے خلاف یا مذاہب کے
مجموعی رویئے کے بھی خلاف نہیں کر ہے لیکن ایک عمومی رویئے کو سامنے لانے
کے لئے کر رہے ہیں۔ جس کو عام طور پر غلطی سے مساوات کا رویہ یا نظریہ
سمجھا جاتا ہے۔ در اصل یہ تقدس اور احترام کے نظریات ہیں، لیکن ایک بات
ضرور ہوتی ہے کہ انسانوں کا مساوات یا برابری کا نظریہ مذاہب کے آئینے میں
بھی اتنا مستحکم نہیں ہو پاتا۔
خود انسان کی اپنی پسند نا پسند ان امتیازات کو مستحکم کرنے میں پیش پیش
نظر آتی ہے۔ تمام انسانوں کو ایک جیسا رنگ، لباس، کھانا وغیرہ پسند نہیں
ہوتا۔ حتیٰ کہ ایک چھوٹی سی فیملی کے چند افراد ایک کھانے پرکم ہی متفق
ہوتے ہیں۔ ایک انسان کی پسندیدہ چیز دوسرے کی نا پسندیدہ ہو سکتی ہے بلکہ
اکثر ہوتی ہے۔تاج محل کی تعریف کرنین والوں کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن اسے
نا پسند کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ۔
جذبات کی عدم مساوات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کسی بھی محفل کا مزا دوستوں
اور پیاروں کے بغیر نہیں آتا۔ دنیا ان کے بغیر ویرانہ ہے۔ خوشی ہو یا غم
دوستوں اور پیاروں کا ساتھ بہت ضروری ہے۔ ہر عید پر لوگ دور دراز کا سفر طے
کر کے یہ چند لمحات اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے کیوں آ تے ہیں۔ اس لئے کہ
ان کے بغیر یہ تہوار اپنے رنگ نہیں جما سکتے۔بڑی سے بڑی خوشی منانے کے لئے
چند دوستوں کا ساتھ ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جذبات میں انسان
یکساں نہیں۔ اپنوں کی خوشی کے لئے دوسروں ک خوشی قربان کرنا تو انسان کا
عام وطیرہ ہے۔ اپنی خوشی کے لئے کتنے جانوروں کا خون بہایا جاتا ہے۔ اور
ساتھ ہی کتنے انسانوں کو پریشان بھی کیا جاتا ہے۔ جتنی بھی کرپشن ہے اپنوں
کی خوشی کے لئے ہے۔ جو جذبات ایک انسان کے لئے ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کے
لئے نہیں ہوتے۔ یہی جذباتی عدم مساوات ہے۔ ہم اپنی اور اپنوں کی خوشی اور
کامیابی اس حد تک چاہتے ہیں کہ اس سے چاہے دوسروں کے گھر سفِ ماتم ہی کیوں
نہ بچھ جائے۔ جائز باتوں میں بھی ہم اپنے اور بیگانے کا فرق لازماً مدِ نظر
رکھتے ہیں۔مثل مشہور ہے: اپنا اپنا، غیر غیر۔ہم اپنوں کو جس نگاہ سے دیکھتے
ہیں اسی سے دوسروں کو کب دیکھتے ہیں۔ کبھی نہیں۔ یہی جذبات کی عدم مساوات
ہے۔
یہ درجہ بندی یا امتیازات ہی فطرت کا حسن ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش
انسان کو آگے بڑھنے میں معاون ہوتی ہے۔حکومت میں آفیسر اور ماتحت ہوں گے تو
حکومت چلے گی اور معاشرے میں امیر ، غریب، اچھے برے، بیمار صحت مند وغیرہ
ہوں گے تو معاشرہ چلے گا۔ اگر معاشرہ مثالی طور پر جرم سے پاک ہو جائے تو
بچارے وکیل بھوکے مریں گے اور ساتھ ہی جج بھی فارغ ہو جائیں گے۔ ان معصوموں
کی بقا اسی میں ہے کہ معاشرے میں جھگڑا اور جرم ہوتا رہے اگر چہ وہ اس میں
نہ تو معاون اور نہ ہی آلہ کار ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا پیشہ اسی سیاق و سباق
میں ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ بیمار ہوں گے تو ڈاکٹروں کی کاریں
چلیں گی اور کوٹھیاں تعمیر ہوں گی۔ مزدوروں کو کام ملے گا ،اور بیماروں کو
صحت۔پولیس کا محکمہ تو چوروں ، ڈاکوؤں اور بد عنوان لوگوں کاہی مرہونِ منت
ہے۔ وہ نہ ہوں گے تو اس سفید ہاتھی کو کیوں پالا جائے گا۔ ہمسایہ ممالک سے
خراب تعلقات فوج کے وجود کو مستحکم کرنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتے
ہیں۔اس طرح اگر مثالی مساوات کا نظریہ عملی شکل میں متصور کر بھی لیا جائے
تو وہ قابلِ عمل نہیں رہتا۔
فطرت مساوات کے نظریئے پر کاربند نہیں ہے۔ لیکن توازن کی کارفرمائی فطرت
میں بڑی حد تک دیکھی جا سکتی ہے۔ فطرت اپنے آپ کو توازن میں رکھتی ہے۔ اس
توازن میں فطرت کی بقا اور ارتقاء ہے۔ اس توازن کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ
یہ کائنات کسی عظیم سوچ بچار کی حامل ہستی نے تخلیق فرمائی ہے۔ اور جو لوگ
مذاہب اور ان کے نظریات سے انکاری ہیں وہ بھی اس کے توازن پر انگشت بدنداں
ہیں کہ اس میں اتنا عمیق توازن کہاں سے آگیا۔ہر چھوٹی بڑی ، اعلیٰ ادنیٰ
چیز اس توازن میں ہے کہ کمال ہے۔ اس توازن کو اگر نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ
انسان کے ہاتھوں سے۔ انسان کی خود غرضی اس توازن کا ستیاناس کر رہی ہے۔اگر
انسان نے فطرت کو اور پھر اپنے آپ کو بچانا ہے تو اسے فطرت کے توازن کو
واپس لانا ہو گا۔ ورنہ فطرت اس سے انتقام لیتے ہوئے اسے بھی ختم کر سکتی
ہے۔فطرت کے اس توازن کا مشاہدہ مختلف اجناس کی پیداوار،معدنیات، پانی کے
ذخائر، تیل کے کنویں، کوئلے کے ذخائر ، شمسی توانائی، اور کئی دوسری چیزوں
سے کیا جا سکتا ہے۔اسی توازن کا مشاہدہ ہم اپنی ذات کی سطح پر بھی کر سکتے
ہیں کہ ہمارا وجود اور ہماری صحت بھی ایک توازن کی بدولت ہے۔ اس توازن کی
خرابی سے صحت کی خرابی بلکہ زندگی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔توازن برقرار
رکھتے ہوئے انسان کرتب بھی دکھا سکتا ہے جیسا کہ تنے ہوئے رسے پر چلنا یا
سائیکل چلانا۔لیکن توازن کے بغیر ہم ایک قدم بھی چلیں تو گر جائیں گے ،
توازن کے بغیر تو ہم زبان کی ایک جنبش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ایک غیر
متوازن لفظ یا حرف زندگی بھر کی نیک نامی پر پانی پھیر سکتا ہے۔فطرت کا
توازن ان تمام توازنوں سے زیادہ اہم اور ضروری ہے کیوں کہ اس پر زیادہ
مخلوق کا انحصار ہے۔
دوسری بات عدل کی ہے۔ ہم قانونی عدل کی بات نہیں کر رہے۔ ہم اس سے مراد وہ
رویہ لے رہے ہیں جو ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھتا ہے۔ قانونی عدل اس
کی ایک قسم کہی جا سکتی ہے۔فطرت عدل پر مبنی ہے۔ جس میں ہر چیز اپنی مناسب
جگہ ہر ہے۔ہر مخلوق کو اس کی خوراک ملتی ہے، اس کی زندگی کی ضروریات کا
اکثرحصہ پورا ہوتا ہے۔ بچوں کی مائیں انہیں دودھ پلاتی ہیں جنہوں نے اپنے
بچوں کی کمائی نہیں کھانی ہوتی۔ زیادہ شکار بننے والے جانور زیادہ تعداد
میں ہوتے ہیں کہ شکار ہو کر بھی ان کی نسل برقرار رہتی ہے۔ زیادہ طاقتور
اور خون خوار جانور تعداد میں بھی تھوڑے ہوتے ہیں تا کہ کہیں وہ باقی سب کو
مار ہی نہ دیں۔طوفان آتے ہیں لیکن ہر روز نہیں ، فطرت کو اپنے آپ کو
سنبھالنے اور فروغ دینے کا کافی موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ طوفان نے چوں کہ
تباہی مچانی ہوتی ہے اور یہ بات فطرت بھی جانتی ہے اس لئے انہیں کبھی کبار
ہی سر اٹھانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ قحط بھی پڑ جاتے ہیں، خشک سالی بھی
آجاتی ہے، زلزلے بھی زمیں کے آنگن میں تہلکہ مچا جاتے ہیں لیکن فطرت ان سب
فطرتی بدمعاشوں کو مواقع بھی کبھی کبھی دیتی ہے۔ سمندر میں ہر روز سونامی
نہیں آتے۔ لیکن فطرت چوں کہ اپنی تمام ظاہری اور مخفی صلاحیتوں کا اظہار
کرتی رہتی ہے اس لئے یہ سب کچھ ہوتا بھی ہے۔ لیکن عام طور پر فطرت کے پر
سکون اور پیداواری ماحول کو زیادہ مواقع دیئے جاتے ہیں یہی عدل ہے۔ فطرت کی
عدم مساوات، توازن اور عدل کے متعلق بات کرنے کے بعد ہم انسانی معاشرے کی
طرف واپس آتے ہیں۔ اور اس پر انہی تین باتوں کا اطلاق اور اظہار دیکھتے
ہیں۔
جب ہم فطرت سے معاشرے کی طرف آتے ہیں تو ہمیں تفریقات، امتیازات اور
اخلاقیات کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے ورنہ جنگل اور معاشرے میں کوئی فرق ہی نہ
رہے۔معاشرہ بھی توازن کے اصول کے بغیر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا معاشرتی توازن
کے لئے جرم کے خلاف سزا کا تعین بہت ضروری ہو جاتا ہے، کام کے بدلے میں
اجرت یا مزدوری کا ملنا ،کام جاری رکھنے کے لئے لازمی ہے۔بیماری لے خلاف
حفاظتی تدابیر اور علاج کا ملنا ضروری ہے۔ معاشرے کے چلنے کے لئے اس میں
پوٹینشل کاہونا نا گزیر ہے۔جو معاشرہ صرف امیروں کا ہو یا صرف غریبوں کا ہو
اس کا چلنا مشکل ہے۔معاشرہ متضادخصوصیات کا مظہر ہوتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ
میں یہ انسانی فطرت کا عملی اور مجموعی اظہار ہوتا ہے۔لیکن اس تضاد میں
توازن کا ہونا ضروری ہے۔ برائی چوں کہ خود بخود فروغ پا جاتی ہے اس لئے
مذاہب اور اخلاقیات نے اس توازن کو واپس لانے کی بھرپور کوشش کی۔بلکہ توازن
کو مثبت سمت میں زیادہ نشونما دینے کی سعی کی کیوں کہ منفی سمت میں رجحان
ویسے ہی زیادہ ہوتا ہے۔
توازن کے قیام کے لئے عدل کا اصول اپنانا نہایت اہم ہے ورنہ توازن جلد ہی
بگڑجائے گا اور معاشرہ خرابی کی طرف مائل ہو جائے گا۔عدل یہ ہے کہ ہر کسی
کو اس کے کام کا صلہ ملے۔ اچھائی کا بدلہ اچھائی اور برائی کی سزا ملے تا
کہ عدل کی حکمرانی قائم ہو ۔اگر عدل نہیں ہو گا تو ظلم کا نظام قائم ہو
جائے گااور یہ نظام نسلِ انسانی کے لئے ہلاکت ہو گا۔ جس طرح مغربی دنیا میں
بظاہر کوئی بے سکونی نظر نہیں آتی کیوں کہ وہاں بڑی حد تک متوازن معاشرہ
ہے۔ لیکن وہاں اب فطرتی عدل کی خلاف ورزی کو قانونی شکل دی جا رہی ہے خاص
طور پر جنسی لحاظ سے۔ ہم جنسیت عدل کے اصول کی خلاف ورزی ہے ۔ بظاہر متوازن
اور پر سکون معاشرہ اپنی قبر خود کھود رہا ہے۔ وہ ممالک اور نسلیں جو اس
عدم عدل کا اصول اپنائیں گی،مستقبل کے آئینے میں اپنی بقا نہیں دیکھ سکیں
گی۔
معاشرے میں توازن اور عدل کے استحکام لے لئے کچھ قسموں کی مساوات کا رکھنا
ضروری ہے۔ کچھ قسم کی مساوات کا فطرت میں بھی مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔
فطرت میں ہر جاندار کے لئے مرنا ضروری ہے چاہے وہ ہاتھی ہو چاہے چیونٹی۔
فطرت میں ہر جاندار کو اپنی بقا کے لئے کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے چاہے تھوڑی
ہو چاہے زیادہ۔بیماری اور مسائل فطرت ہر جاندار کے لئے پیدا کرتی ہے ۔ یہ
بھی فطرت کی مساوات ہے۔کانٹا چبھنے پر ہر انسان کو تکلیف ہو گی اور بنیادی
طور پر وہ تکلیف برابر ہو گی لیکن برداشت میں آ کر اس کا اظہار مختلف ہو
سکتا ہے۔بھوک ہر انسان کو ایک جیسی لگتی ہے لیکن اس کا ردِ عمل تفریق میں
ہو گا۔ فطرت ہر انسان کے لئے غم پیدا کرتی ہے لیکن غم کے اس بھنور میں اپنے
آپ کو ضبط میں رکھنا یا بے قابو ہو جانا انسان کی برداشت پر منحصر ہے۔
معاشرے کے توازن اور عدل کے لئے قانونی مساوات کا ہو نا ضروری ہے۔ یعنی جو
قانون امیر کے لئے ہو وہی قانون غریب کے لئے ہو ۔ ہندو معاشرہ میں تھا کہ
برہمن قتل کر ے تو اس کی سزا یہ کہ اس کا سر مونڈ دیا جائے اور اگر کوئی
شودر مقدس کتاب کے الفاظ سن لے تو سیسہ پگھلا کر اس کے کانوں میں ڈال دیا
جائے۔اسلام اس سلسلے میں بہترین مثالیں پیش کرتا ہے۔ قانونی مساوات ،انسانی
جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ انسانی مساوات کی
بہترین عکاسی کرتی ہے۔ ویسے تو انسانوں میں بے شمار تفریقات ہیں جن کا ختم
کرنا بعید از امکان ہے لیکن قانونی مساوات سب انسانوں کو ایک حیثیت میں لا
کھڑا کرتی ہے۔
معاشی مساوات بھی انسانی معاشرے کے استحکام کے لئے لازمی ہے۔اس کامطلب یہ
ہے کہ تمام انسانوں کو معاشی طور پر ایک جیساماحول فراہم کیا جائے۔ اگر کسی
کو کوئی چیز ایک ریٹ پر ملتی ہے تو دوسرے کو بھی اسی ریٹ پر ملے۔ ایک کو
کام کرنے کے جو مواقع اور مراعات میسر ہوں، دوسرے کو بھی وہی سہولیات اور
مواقع ملنا معاشی مساوات ہے۔
مذہبی مساوات کا بھی اپنا مقام ہے۔مذاہب نے انسانی معاشروں کی تعمیرمیں اہم
کردار ادا کیا ہے ۔اور وہ انسانی نفسیات کے لئے جتنی اہمیت رکھتا ہے اس کے
پیشِ نظر ہر کسی کو اپنے مذہب کی تعلیمات اور رسومات پر عمل کرنے کی مساوی
اجازت ملنے چاہیئے۔
تعلیمی مساوات بھی انسانی معاشرے کا حسن ہے کہ ہر کسی کو تعلیم حاصل کرنے
کے یکساں مواقع میسر آئیں۔اس میں رنگ و نسل اور امیر غریب کا تفرقہ ختم کر
دیا جائے۔
طبی مساوات کا ہونا معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ اس مطلب یہ
ہے کہ ہر کسی کو صحت کی بنیادی سہولتیں یکساں میسر آئیں۔ زندگی اور صحت ہر
کسی کو عزیز ہے۔ اس لئے ہر کسی کو جینے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔
لیکن اگر ہم غور سے عملی پہلو کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ سب کچھ بھی تصوراتی
ہی دکھائی دیتا ہے۔ قانونی مساوات نام کی چیز عملی دنیا میں کہاں نظر آتی
ہے،بس وہاں جہاں مجرم غریب ہو ۔امیروں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والا قانون
کم ہی نظر آتاہے۔ یہ المیہ ہمارا ہی نہیں مغربی اور تہذیب کی دعویدار دنیا
کا بھی ہے۔ کشمیر پر انڈیا کا قبضہ ہو تو کوئی بات نہیں۔ اور بغیر ثبوت کے
اگر عالمی ٹریڈ سنٹر گرانے کا الزام طالبان پر آ جائے تو سارا یورپ اور
امریکہ ، افغانستان پر حملہ آور ہو جائے۔ اسرائیل جہاں مرضی حملے اور قبضے
کرے ، اس کے سر پرست امریکہ بہادر نے اس کے خلاف ہر تحریک کو ویٹو ہی کرنا
ہے۔ یہ ویٹو بھی تو ترقی یافتہ، مہذب دنیا کی کتنی بڑی عدم مساوات ہے۔ جس
کے خلاف بات نہیں کہ جا سکتی کہ وہ بڑوں کے مقاصد پورے کرتی ہے۔ دریا میں
رہنا اور مگرمچھ سے بیر۔ہے نا وہی جنگل کا قانون ۔وہی عدم مساوات۔ صدیوں تک
اور بڑی حد تک ابھی تک مسلط رہنے والی سامراجیت عالمی سطح پر عدم مساوات کا
منہ بولتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا سامراجی ممالک کے خلاف دنیا میں
کہیں مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔تو پھر مساوات کا ڈھنڈورا ،
صرف ایک ڈھنڈورا ہی نہیں تو اور کیا ہے۔کچھ بھی نہیں۔
معاشی مساوات کا بھی دنیا کے آیئنے میں سراغ لگانا مشکل ہے ۔ کسی اسلامی
دنیا کی کسی صنعت کو ترقی دینا مغربی دنیا کی پالیسی کے خلاف ہے۔ وہ نہیں
چاہتے کہ کوئی اسلامی ملک خاص طور پر اور تیسری دنیا کے ممالک عام طور پر
صنعت کے میدان میں قدم رکھیں۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کو خام مال مہیا
کیا جائے اور ان سے تیار شدہ چیزیں مہنگے داموں خریدی جائیں۔
عسکری عدم مساوات بھی دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ رہی ہے۔ پاکستان یا ایران کا
ایٹمی طاقت بننا مغربی دنیا کو کیسے گوارا ہو اسکتا ہے۔ پاکستان نے ضد میں
آ کر ایٹمی دھماکے تو کر دئے لیکن انہوں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ
کرنے پر مجبور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ یہ تو پاکستانی عوام اور
فوج کی مشترکہ خواہش اور اتحاد تھا کہ ہم اپنی ایٹمی طاقت کا لوہا منوانے
میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن کتنے ستم کی بات ہے کہ انہوں نے ہمیں ابھی تک صحیح
معنوں میں ایٹمی طاقت تسلیم نہیں کیا ۔ اور ایران کا ایٹمی پروگرام تو واپس
کر وا کے ہی دم لیا۔ لیکن اسرائیل کو پوچھنا ان کے بس کی بات نہیں کہ وہ
سارے یورپ کا داماد نما ہے۔اس طرح معاشی عدم مساوات کا مظاہر دنیا نے ہمیشہ
کیا ہے۔
جہاں تک طبی، تعلیمی اور مذہبی مساوات کا تعلق ہے تو ان میں بھی عدم مساوات
کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ دنیا میں مذہب کی آمریت کے لحاظ سے کسی غلط فہمی
کی گنجائش نہیں رہتی۔مشرق و مغرب میں مذہبی تعصب نے خون کی جو ندیاں بہائیں
ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات پایہ ثبات کو پہنچ جاتی ہے کہ انسان کائنات میں
عدم مساوات کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ ایک ہی مذہب و ملت کے لوگ اپنے وسائل کی
بنا پر زندگی کے ہر معاملے میں مختلف نظر آتے ہیں۔
توازن، عدل اور چند بنیادی مساواتیں انسانی زندگی اور معاشرے کے لئے ضروری
ہیں۔لیکن مساوات شاید انسان کی اپنی اختراع ہے۔ کیوں کہ ایک تو ایسا کبھی
ہوا نہیں، دوسرا ایسا کرنا آسان نہیں ، تیسرا ایسا فطرت میں بھی نہیں۔
ہر قسم کی مساوات سے تو کوئی ادارہ یا ملک چل ہی نہیں سکے گا ۔ خود فطرت ہر
کسی سے مساوی نہیں ہے۔ نہ دنیا مساوی ہے نہ آخرت مساوی ہے۔ جنت اور جہنم
دونوں کے درجات ہیں۔ تو انسان مساوات تلاش کرنے کہاں جائے گا۔ اصل میں
انسان نے کئی ایک فلسفوں کو باہم مدغم کر کے مساوات کا نام دے دیا ہے۔ جیسا
کہ ہم توازن اور عدل کی بات تو کر ہی چکے ہیں۔ہر چیز میں مساوات نہیں ہوتی۔
حتیٰ کہ موت جیسی چیز ہر کسی کو ایک جیسی نہیں آتی۔ قبرستان کا منظر
انسانوں کی اونچ نیچ کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ زندگی ایک جیسی کیسے ہو سکتی
ہے۔’ عدم مساوات ‘کے اصول کے ساتھ توازن اور عدل کے اصول کو مدِ نظر رکھنا
بہت ضروری ہے۔
’عدم مساوات ‘سے متعلق یہ ہمارے خیالات ہیں۔ قوی امید ہے کہ آپ بھی ان
خیالات کی تصدیق کریں گے اور اس طرح ہماری بات کو مذید تقویت ملے گی اور
اگر آپ اس بات کی تائید نہ بھی کریں ، یعنی ہم سے اختلاف کریں ، تب بھی آپ
ہماری بات کی تصدیق فرما رہے ہوں گے یعنی کہ خیالات میں بھی’ عدم مساوات‘
ہوتی ہے۔
|
|