جب سے میں نے ہوش سنبھالا
ہے میں نے اپنے پیارے ملک کو بحرانوں میں ہی گھرا ہوا دیکھا ہے۔اس پر کبھی
مارشل لا اور کبھی جمہوری حکومتیں اپنے اپنے انداز میں فرمانروائی کرتی
رہیں۔اور بحرانوں کے خاتمے کے لیے کوششیں کرتی رہیں مگر بحران جوں کے توں
ہیں۔بجائے ختم ہونے کے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ وکلا کی تحریکیں بھی چلیں،علما
ومشائخ بھی اپنی اپنی مذہبی جماعتیں بنا کر اپنا حصہ ڈال چُکے، سیاستدان
اپنی سیاسی دُکانداریاں چمکا چکے،جاگیردارانہ نظام بھی سر توڑ کو شش کر
چُکا،مارشل لا لگانے والے بھی اپنی قسمت ازمائی کر چُکے اور صدارتی نظام
بھی مفلوج ہو کر رہ گیا۔غرض کہ ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کر چُکا۔اور
بُحران ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
میری نظر میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جو اگر اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھان لے
اور عزمِ مصمم کر لے تو نہ صرف ہمارا معاشرہ منزّہ ومزکّی ہوگا بلکہ ہمارا
ملک بھی بحرانوں سے محفوظ ہو جائے گا۔اور وہ شخصیت’’ استاد ‘‘کی ہے۔کیونکہ
جب وہ سکھاتا ہے تو وہ ذات پات،فرقہ ورائیت،علاقائی تعصب،لسانی اور گروہی
اختلافات سے بالا تر ہو کر سکھاتا ہے۔اور وہی بچوں کو حب
الوطنی،مساوات،سچائی،دیانت داری،تعصب پسندی سے بُعد،حالات سے نبرد
ازمائی،اچھی شخصیت کے حصول کے ذرائع،حق گوئی،اجتماعی محبت و اخوت،جمہوریت
کی علمبرداری،سماجی اور معاشرتی رواداری سکھاتا ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
اور استاد ہی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتا ہے۔کائنات میں بننے
والی قوموں کے عروج و زوال کا دارومدار اِسی پر ہوتا ہے۔قوموں کے خیالات و
نظریات کے تغیرو تبدل میں استاد کو ہی ثانوی حثیت حاصل ہے۔استاد ایک مالی
کی مانند ہوتا ہے جو باغ میں پھول لگاتا ہے اور اس کی آبیاری کرتا ہے اور
پھر علم کے مختلف پھول چُن کر لوگوں کے گلے کا ہار بناتا ہے۔جس سے لوگ سج
سنور کر خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔دنیامیں مایہ
نازسائنسدان،ڈاکٹر،انجینئرز،قانون دان، سیاستدان، سکالرز، جرنیل، مفکر،
محقق، دانشور، محدث،ادیب،خطیب،علما،صلحا،وکلا،ججز،وزیر ،مشیر،سفیر،گورنر،وزیرِ
اعظم اورصدر اساتذہ کے علمی خزانے کی بدولت ہی معاشرے میں اہم مقام پر فائز
ہیں۔بقولِ شاعر
ایک معلّم ہی تو عرفانِ خُدا دیتا ہے
فرد کو نفس کی پہچان کرا دیتا ہے
استاد ہی وہ بنیادی اینٹ ہے جو تمام عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر نظر نہیں
آتی۔استاد معاشرے کا نمک ہے جو قلیل ہونے کے باوجود ذائقہ بدلنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔استاد ایک ایسی بارش ہے جو مُردہ دلی کو ختم کرکے نئی علمی زندگی
بخشتا ہے۔اور اپنی خودی کو گم کرکے ہریالی مہیا کرتا ہے۔استاد قادرِ مطلق
کی رحمتِ خاص اور علم کا پر تو ہے جو اپنے طلبا کو صراطِ مستقیم سے آشنا
کرتا ہے۔ ایسے استاد کے بارے میں آقا کریم ﷺنے فرمایا’’ بوڑھے
مسلمان،عالم،حافظ قران،عادل بادشاہ اور استاد کی عزّت کرنا تعظیمِ خُداوندی
میں شامِل ہے‘‘۔
ایک مسلمان جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے آقا کریم ﷺ کے اسوۂ
حسنہ کو دیکھتا ہے۔اگر آپ کی زندگی کا بھی مطالعہ کیا جائے تو آپ بھی ہمیں
ایک بہترین معلّم ہی نظر آتے ہیں اور آپ ﷺ نے اپنا تعارف بحثیتِ معلم بھی
کروایا ہے۔اور آپ ﷺکی حکمرانی کا انداز بھی ہمارے سامنے ہے۔معلّم جب تک
حکومت کرتے رہے نہ صرف معاشرہ بہترین تھا بلکہ اخوت و بھائی چارہ بھی عام
تھا۔اس لیے اساتذہ کو آگے آنا چاہیے اور ملک کی باگ دوڑ سنبھال کر ملک کو
بحرانوں سے پاک کرنا چاہیے۔اور عوام کوبھی ان کی عزّت اور احترام کرنا
چاہیے۔کیونکہ جو لوگ استاد کی عزّت اور حکمرانی تسلیم کرتے رہے آج بھی وہ
ہیرو کے طور پر مانے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر علامہ اقبال کا کردار ہمارے
سامنے ہے۔شمس العلماء مولوی میر حسن علامہ اقبال کے استاد تھے۔علامہ اپنے
استاد کا بے حد احترام کرتے تھے۔آپ ہی کے کہنے پر حکومت نے مولوی صاحب کو’’
شمس العلما ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔جب حکومت نے پوچھا کہ مولو ی صاحب نے کونسی
کتاب لکھی ہے تو علامہ اقبال نے جواب دیا ’’کہ ان کی زندہ کتاب میں خود
ہوں‘‘۔
آپ نے فرمایا مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے۔
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
فاتحِ عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا
تھا راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آگیا۔نالہ بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا
ہوا تھا۔استاد اور شاگرد کے درمیان اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ خطرناک نالہ
پہلے کون پار کرے گا۔سکندر بضد تھا کہ وہ پہلے جائے گا۔آخر ارسطو نے بات
مان لی۔پہلے سکندر نے نالہ پار کیاپھر ارسطو نے نالہ عبور کرکے سکندر سے
پوچھا؟ ’’کیاتم نے پہلے نالہ پار کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟‘‘ سکندر نے
جواب دیا’’ نہیں استادِ مکرّم!میں نے اپنافرض ادا کیا ہے۔ارسطو رہے گاتو
ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر
سکتا‘‘ ۔
ایسے لوگ نہ صرف جسموں پر حکومت کرتے رہے بلکہ دلوں پر آج بھی ان کا راج
ہے۔ |