انسان پر اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں اور رحمتیں
ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتاہے ا یک نعمت ہوتی ہے اور ایک رحمت ہوتی ہے
نعمت کیاہے؟ جیسے انسان پانی پیتاہے تو یہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت
ہے۔اسی طرح خوارک جوانسان کھاتا ہے وہ بھی نعمت ہے زندگی بھی اﷲ تعالیٰ کی
عطا کردہ نعمت ہے یہ اﷲ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ وہ انسان کو طرح
طرح کی نعمتیں عطا کرتا ہے۔
اب رحمت کی بات کرتے ہیں جس طرح اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اسی طرح رحمتیں
بھی ہیں جیسے بارش اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے اسی لئے ہم دعا مانگتے وقت کہتے
ہیں اے اﷲ پاک! باران رحمت نازل فرما۔ اس رحمت (بارش)کے سبب بہت سی نعمتیں
ملتی ہیں ۔ جیسے پانی اور پا نی کی وجہ سے پودوں اور فصلوں کو زندگی ملتی
ہے اور زندگی کی بنیادی ضرورت بھی پانی ہے جہاں پانی ہو گا وہاں زندگی کے
آثار ہوں گے ۔ یعنی رحمت کی وجہ سے کئی نعمتیں مل جاتی ہیں اور سب سے بڑھ
کر رحمت کی مثال نبی پاکﷺ کی ذات مبارک ہے جیسے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تا
ہے۔ ــ بیشک ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ معلوم
یہ ہوا کہ جہاں رحمت ہوتی ہے وہاں نعمتیں ہی نعمتیں ہو تی ہیں۔
تمام ذی روح انسان، حیوان،چرند ، پرند اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے
ہیں۔ اسی طرح کافر ومشرک جو اﷲ تعا لیٰ کومانتے ہی نہیں ہیں نعمتیں ان کو
بھی میسر ہیں جیسے پانی ،کھانا اور آکسیجن وغیرہ۔ یہ تو ممکن ہے کہ ایک
انسا ن کے پا س نعمتیں تو بہت سی ہوں لیکن اس کے پا س اﷲ تعالیٰ کی رحمت نہ
ہو ۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ جس کے پاس اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہو اور اس کے پاس
نعمت نہ ہو۔اس بات سے معلو م ہوا کہ رحمت کا مقام نعمت سے بلند ہے رحمت کے
باعث نعمت تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ نعمت کے سبب رحمت بھی ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو نعمت کے ملنے پر زیادہ خوش ہو نا
چاہیے یا پھر رحمت کے ملنے پر زیادہ خوش ہونا چاہیے۔ یقینا جواب رحمت ہوگا۔
بیٹی کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت کہا گیا ہے اور بیٹے کو نعمت کہا گیا ہے لیکن
عام دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیٹے( نعمت ) کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں ا
ور زیادہ خوشیاں مناتے ہیں جب کہ بیٹی( رحمت ) کی پیدائش پر اتنے زیادہ خوش
نہیں ہوتے بلکہ افسردہ ہوجاتے ہیں۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بیٹے کی
پیدائش پر خوشیاں نہ منائی جائیں۔ بیشک خوشیاں منائیں۔ لیکن اس کے سا تھ یہ
بھی گزارش ہے کہ اگر بیٹی کی پیدائش پر خوشی منانے کی ہمت نہ ہو تو کم از
کم پریشان نہ ہو اکریں۔ کیوں کہ بیٹی اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے اور رحمت
کی وجہ سے بہت سی نعمتیں انسان کو ملتی ہیں۔دو تین روز قبل میرے ایک محترم
استاد صاحب میرے پا س اپنی بیٹی کے کاغذات کی تصیدیق کے سلسلہ میں تشریف
لائے تو میں نے ان کو بتایا کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی ایسی رحمت ( بیٹی) سے
نوازا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے مبارک با د بھی دی۔ یہ بھی بتاتا
چلوں کہ وہ ہمارے گاؤں کے سکول میں پڑھاتے تھے۔ بعد میں انہوں نے بچیوں کی
تعلیم کے لئے اپنا تبادلہ شہر میں کروا لیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میر ی
دو بچیاں ہیں اور دو ہی بچے ہیں۔ ایک بیٹی ماشا ء اﷲ ایم ایس سی میں ہے اور
دوسری بچی گریجویشن کر رہی ہے۔ وہ فرما رہے تھے کہ میں ایک سکول ٹیچر ہوں
اور میر ے پاس ایک سائیکل تھی لیکن آج الحمدﷲ شہر میں اپنا گھر ہے اور دو
گاڑیاں بھی ہیں۔ یہ سب ان رحمتوں ( بیٹیوں ) کی وجہ سے نعمتیں عطا ہوئیں
ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں رحمت کے فرشتے آئیں۔ لیکن دیکھیں
اگر رحمت خو د ہی گھر آجائے تو اسی کی کیا ہی بات ہو گی۔ نبی پاکﷺ کا فرمان
ہے کہ خوش نصیب ہے وہ عورت جس کے ہاں پہلی بیٹی پیدا ہو ۔ اسی طرح ایک جگہ
پڑھا تھا کہ اﷲ تعالیٰ جس سے خوش ہو اس کو بیٹی عطا کرتا ہے اور جس کو خوش
کرنا ہو اس کو بیٹا عطا کرتا ہے بیٹی کی پیدائش پر افسردہ اور غمگین ہونا
تو کفار کا طریقہ تھا اس لئے ہمیں نادانی میں ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔
بلکہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے عطا ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے
کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اس رحمت کی وجہ سے نعمت (بیٹا) بھی ضر ور عطا کرے گا (
انشا ء اﷲ) |