جس طرح وطن ِعزیز اور بہت سے بحرانوں کا شکارہے ، بجلی کا
بحران ، گیس کا بحران ،آ ٹے کا بحران،چینی کا بحران،خلوص کا بحران،سچا ئی
کا بحران ،اسی طرح رشتوں کا بھی کا فی بحران ہے یہ ہر گھر کا مسلۂ ہے
تقریبا ستر فیصد خا ندان اچھے رشتوں کے لیے پریشان اور فکر مند ہیں ۔یہ
بحران حکمرا نوں کا نہیں بلکہ عو ام کا اپنا پیدا کر دہ ہے ۔ذرا دل کی گہرا
ئیوں سے سو چیں اور خوب غور کر یں کہ ہر خا ندان میں لڑکے بھی ہو تے ہیں
اور لڑکیاں بھی ۔اﷲ نے آبا دی میں مردو زن کا تنا سب اسی طرح قا ئم کر رکھا
ہوا ہے جن لوگوں کے بیٹے جوان اور بر سر روزگار ہو ں وہ ان کے لیے رشتے ڈھو
نڈنے کیوں نکل کھڑے ہو تے ہیں اﷲ تعا لی نے انہیں بھا ئی بہنوں کی صورت میں
جو رشتے عطا کیے ہیں ۔کیا ان کی بچیاں انہیں نظر نہیں آ تی ؟اپنے عز یزو
اقا رب کی بچیا ں نظر اندا زکر کے با ہر سے ا علی پا ئے کی بہو ئیں لے ا ٓئیں
گے توکیا وہ آ کر انھیں سر آ نکھو ں پر بٹھا ئے گیں ؟بسا اوقا ت اپنے خا
ندا ن کی لڑکیا ں خو بصو رت ، تعلیم یا فتہ اور خد مت گزا ر ہو تی ہیں لیکن
ان کی یہ خو بیا ں نظر اند ا ز کر دی جا تی ہیں ۔رشتہ دار ہی رشتہ دار وں
کو پر یشا نیا ں اور مسا ئل عطا کر تے ہیں۔اگر بچوں کے بر سر روز گار ہو تے
ہی وہ اپنے قر یبی رشتہ دارو ں میں سے کو ئی بچی ، جو انھیں زیا دہ پسند ہو
اور ان کے خیا ل میں اس بچے سے اس کی ذہنی مطا بقت ہو سکتی ہو اپنے بیٹے کے
لیے طلب کر لیں تو کیا حر ج ہے؟ گو یا لڑکی وا لو ں کوپر یشا ن ہو نے ہی مت
دیں لیکن بد قسمتی سے لڑ کے تعلیم یا فتہ یا بز نس مین بن کر یا کو ئی اچھا
عہدہ حا صل کر کے کسی قا بل ہو جا تے ہیں تو ان کے وا لدین کی سوچ کی ٍاڑان
بلندی کی طر ف ما ئل بہ پروازہو جا تی ہے ان کا ایک معیار بن جا تا ہے جس
سے وہ اپنے غریب رشتہ داروں کو کم تر خیا ل کر تے ہیں وہ ان رشتہ داروں سے
ملتے بھی ہیں تو ایک فا صلہ رکھتے ہیں اور وہ رشتہ ایسے خا ندان میں کر نا
چا ہتے ہیں جو ان کے معیا ر کو اور بھی زیا دہ تقو یت پہنچا ئے ۔یعنی بہو
امیر باپ کی بیٹی ہو اس کے بھا ئی اعلی عہدو ں پر فا ئز ہو ں اور لڑکی زیا
دہ بھا ئیوں کی ایک لا ڈ لی بہن ہو تو نہلے پے دہلا ۔بہو لمبا چو ڑا جہیز
لے کر آ ئے،بیٹے کو سلا می میں گا ڑی کی چا بی مل جا ئے اگر کو ئی پلاٹ یا
مکا ن بھی مل جا ئے تو خو شی دو چند ہو جا تی ہے میں نے ایسے وا لدین کو
بھی لا لچ کی پستیوں میں گر تے دیکھا ہے جو خو د بھی بیٹیوں وا لے ہو تے
ہیں لیکن جب وہ لڑکے کے وا لدین بن کر رشتہ طلب کر نے کے لیے جا تے ہیں
توغرو ر و تکبر خود بخود ان کی طبیعت میں پیدا ہو جا تا ہے کیٹ واک منعقد
کر وا نے لڑکے کی ما ں کے سا تھ اکثر باپ بھی نکل کھڑے ہو تے ہیں حا لا نکہ
اس ڈر امے میں ان کا کر دار با لکل غیر ضروری ہے اگر چا رگھروں میں میا ں
بیوی لڑکی دیکھنے گئے ہیں اور کسی بھی جگہ با ت نہیں بنتی تو چا ر لڑکیوں
اور ان کی ما ؤں کی بے پر د گی کا با عث لڑ کے کا با پ بن گیا جس کاان عو
رتو ں کے سا تھ کو ئی محر م وا لا رشتہ ہی نہ تھا لڑکی دیکھنے کے لیے آ نا
،اس کی ظاہر ی شکل و صو رت کابغور جا ئزہ لینا خا طر مدا رت سے لطف اندوز
ہو نا ،گھر کے فر نیچر اور کر اکری کو تنقید نگاہ سے دیکھنا ،گھر وا لو ں
کے لبا س اور ان کے رہن سہن سے ان کی ما لی پو زیشن کا جا ئزہ لگا نا
اور پھر کسی معمو لی با ت پہ ہر لڑکی کو مسترد کر دینا ،لڑکے وا لو ں کے
پسندیدہ مشا غل اور میر ے نز دیک انتہا ئی قا بل نفرت ہے ان سا رے مر احل
کی بجا ئے اگر کو ئی اچھا رشتہ بتا یا گیا ہے تو لڑکی کی تصو یر دیکھ لیں
اور خا ندا ن کے با رے میں محلے میں کسی با اعتماد ہمسا ئے سے تسلی کر
لیں۔لڑکی وا لو ں کے گھر صر ف اسی وقت جا ئیں جب دل میں رشتہ طے کر نے کا
پکا ارادہ ہو،محض خا طر تو اضع کر وا نے کے لیے منہ اٹھا کر گھر گھر جا نے
کی کیا ضرورت ہے؟
رشتہ دیکھنے کے لیے بھین لڑکے کی ماں اور زیا دہ سے زیا دہ ایک بہن اور بھا
بی چلی جا ئے ،تین عو ر تو ں سے زیا دہ ہر گز نہ جا ئیں مر دو ں کو تو با
لکل بھی ضر ورت نہیں ۔جہا ں عو رتیں زندگی کے ہر شعبہ میں کا میا ب جھنڈے
گاڑ رہی ہیں جہا زتک اڑا سکتی ہیں وہا ں لڑکی پسند کر نا اور رشتہ پکا کر
نے کا کام بھی انہیں کے ذ مے رہنے دیں مسلما ن مر دو ں کو خو اہ مخوا ہ غیر
بچیو ں اور غیر مر دو ں کے ہاں جا نے کی ضر ورت نہیں ۔ہما رے پیا رے نبی
حضر ت محمد ﷺ کے فر ما ن کا مفہو م ہے کہ رشتے طے کر تے وقت ان چیزوں کو
دیکھا جا تا ہے خو بصو رتی حسب نسب اور ما ل و دو لت۔ آ پ ﷺ نے فر ما یا
خبر دار تم دیا نتد اری کوسب سے پہلے ترجیح دینا ۔یقین کیجیے آ ج کل دیا
نتدا ری سب سے زیا دہ نظر اندا ز کی جا تی ہے میں نے بہت سے لو گو ں کو
رشتے کے لیے پر یشا ن ہو تے دیکھا ہے جن میں زیا دہ تعداد لڑکی وا لو ں او
ر قلیل تعدادلڑکے والوں کی ہے مگر میر ے کا ن تر س گئے ہیں کہ کسی لڑکے کی
ما ں کے منہ سے یہ الفا ظ نہیں سنے کہ لڑکی نما زی ہو دیا نتدا رہو ۔خو بصو
رتی ، کم عمری ، اعلی تعلیم،سما رٹ نیس اور اما رات وغیرہ بہت سی خو بیا ں
وہ اپنی بہو میں دیکھنا چا ہتی ہیں مگر دیا نتدا ری ،میرے خیا ل میں ان کے
سا منے کو ئی اہمیت ہی نہیں کیو نکہ جس چیز کو ہم دل میں اہم سمجھتے ہیں وہ
خو د بخود ہما ری زبا ن پر آ جا تی ہے معا شر ے میں اس وبا کو پھیلا نے میں
لڑکے خود بھی شر یک ہیں ۔جب گھر میں لڑکے کی شا دی کا پر و گرا م بنتا ہے
تو اپنے وا لدین سے سختی سے کہ دیناچا ہیے کہ میرے لیے اپنی حیثیت کے برابر
ہی گھر دیکھیں ۔مجھے سسرا ل کی دولت یا لمبے چو ڑے جہیز کی ضر وت نہیں بلکہ
گھر بسا نے کے لیے اچھی نیک شر یک حیا ت کی ضر ورت ہے جو نیک اور دیا نتدا
رہوگھر دا ری اچھے طر یقے سے کر سکے۔لڑکے بھی ما ں بہنو ں کی تلاش ِرشتہ کی
کا ر ائیا ں سن کر خو ش ہو تے ہیں کہ ہما رے وا لدین ہماری کیا قیمت لگا تے
ہیں اور زیا دہ سے زیا دہ بو لی کو ن دے سکتا ہے ۔تعلیم یافتہ اور بر سر
روز گار لڑکو ں کے والدین تو انہیں تا عمر کیش کر وانا چا ہتے ہیں ۔گو یا
اﷲ نے ان کے ہا تھ میں خز انے کی چا بی دے دی ہے اس چا بی کو گھما ئیں تو
کا رنکل آ ئے ،اس کو پھر گھما ئیں تو مکان یاپلا ٹ نکل آئے ،بلکہ عمر بھر
وہ اس چا بی سے فا ئدہ اٹھا نا چاہتے ہیں میری التما س ہے کہ خداکے لیے
اپنے دلوں سے لالچ اور تکبر کو نکا ل پھینکیں ۔آپ کی اپنی بیٹیا ں بھی ہو ں
گی،اپنے خا ندان کی بچیوں کا احساس کیجیے ان کے وا لدین کو پریشانیوں سے
بچا لیجے ۔اﷲ آپ کو اس کا بہت اجر دے گا۔اپنے رشتہ دار خوا ہ ما لی لحا ظ
سے آپ سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں اور بچیا ں انتہا ئی خو بصورت نہ بھی ہوں
توکیا فر ق پڑ تا ہے ؟بیٹیوں کا گھر بسانا ہے کو ن سا مقا بلہ حسن منعقد کر
وا نا ہے ؟خا ندا نی شر افت اور اعلی کر دار کی قدر کیجیے اگر خو بصو رتی
کے ساتھ دو سری عا دا ت نا پسند ہوں تو ایسی خو بصو رتی کا کیا فا ئدہ سب
لوگوں کے بیٹے کون سے یو سفِ ثا نی ہو تے ہیں عموما لڑکے معمو لی شکل و صو
رت ،کا لے رنگ کے یا چھو ٹے قد کے ہو تے ہیں ۔جیسا لڑکا ہے ویسی ہی لڑکی
دیکھ لیں ۔خو بصور ت بہو اکثر سسر الیوں کو نا کو ں چنے چبو اتی ہے ان کے
سا تھ مکس اپ نہیں ہو تی ،گھر داری نہیں کرتی اور اگر ہو سکے تو خا وند
کووا لدین سے بھی جدا کر دیتی ہے وا لدین دعا کر یں کہ اﷲ ہما رے بیٹے کی
کما ئی میں بر کت دے وہ خود کا ر،کو ٹھی اور سا ما ن بنانے کے قا بل ہو جا
ئے بہو پسند کرتے وقت دیا نتداری ،حسب نسب اوراعلی کر دار کو فوقیت دیجیے
یہی چیزیں قا بل قدر ہو تی ہیں ان سے گھر بنتا ہے آئندہ نسلوں کی تر بیت ہو
تی ہے اور وا لدین کو احتر ام ملتا ہے گھر امن و سکون کا گہوارا بنتا ہے
انشااﷲ۔ |