قربانی کا گوشت

یہ گوشت صرف گوشت کا لوتھڑا ہی نہیں جس کو کھانے کے لئے کباب، کوفتے، کڑاہی گوشت، سری پائے، بریانی یا پلاؤ یا دیگر کئی اقسام کی صورت میں کھایا جائے گا، یہ کھانا بھی چاہیے اس میں برکت بھی ہے اور شفاء بھی ہے، ویسے بھی یہ وہ گوشت ہے جوہر قسم کے مضر صحت سے پاک ہے، اس خوشی کے موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس مقدس دن کے موقع پر دو اقسام کے لوگ ہیں اول وہ جو قربانی کا جانور سنت ابراہیمی ادا کرنے کی غرض سے ذبح کریں گئے ، یعنی قربانی دینے والے لوگ، دوئم اقسام میں وہ سفید پوش ، غریب ، یتیم مسافر فقیر جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بھی سنت ِ ابراہیمی ادا کر سکیں،یعنی جو لوگ قربانی نہیں دے رہے،

جیسا کہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ قربانی کے جانور زبح کرنے کے بعد تین حصوں میں گوشت تقسیم کرنا چاہیے ، ایک حصہ گوشت خدا کی راہ میں جو لوگ حاضر ہیں اُن میں تقسیم کردینا چاہیے دوسرا حصہ رشتے دار ہمسائے وغیرہ کے لئے جبکہ تیسرا حصہ قربانی کا جانور اﷲ کی راہ میں دینے والوں کے گھر کے لئے ہیں ،

ایسے جانور جن میں سات سات حصے دار ہوتے ہیں ، اور ایسے آدمی جو اپنی الگ الگ قربانی ادا کرنا چاہتے ہیں گزارش ہیں کہ جب جانور کو ذبح کرنے کا وقت آئے تو سب کو حاضرہونا چاہیے کیونکہ

ایک حدیث کا ترجمہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بقر عید کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ اور قربانی کرنے والہ اپنے جانور کے بالوں،سینگوں اور کھروں لو لیکر آئے گا(اور یہ چیزیں ثواب عظیم ملنے کا زریعہ بنے گئی)نیز آپ ﷺ نے فرمایاقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیکک شرف ِ مقبولیت حاصل کر لیتا ہے ۔لہزا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو،
جو لوگ قربانی ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہیں کرتے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اﷲ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عالی شان ترجمہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روات ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ محسن اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو ( ایسا آدمی)ہماری عید گاہ میں حاضر نہ ہو ( الترغیب و الترہیب)
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ جو قربانی کی استطاعت رکھت ہوئے بھی قربانی ادا نہیں کرتے کتنی بدنصیبی ہے کتنے بڑے اجرو ثواب سے محروم رہ گئے،اب ایسے صاحب ایمان کو آنکھیں کھولنی چاہیے کہ قربانی کی فضیلت اور قربانی کی اہمیت کے ساتھ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے رکھنے کا بہت بڑا چواب ہے ،قربانی واجب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر نو رِ مجسم ، رحمت ِمجسم ﷺناراض ہو جائیں اور عید گاہ میں حاضری سے روک دیں تو ایسے شخص کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟عید گاہیں اور مساجد اﷲ تعالیٰ کی محبوب جگہیں ہیں ، یہاں جمع ہونے والوں پر اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں برستیں ہیں ،یہاں سے روک دینا کیا بدنصیبی نہیں ؟
اس لئے قربانی کرتے وقت بخل سے کام نہیں لینا چاہیے
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن پر زکواۃ ادا کرنا واجب نہیں اُن پر قربانی دینا بھی واجب نہیں یہ بات غلط ہے ہاں یوں کہا جا سکتا ہے جس پر قربانی واجب ہے اُس پر زکواۃ دینا بھی فرض ہے، عمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر زکواۃ فرض نہیں اس لئے کے ان کے پاس سونا چاندی ،یا مال ِ تجارتیا نقدی نصاب کے بقدر نہیں ہوتی،لیکن بہت سا فاضل سامان پڑا ہوتا ہے (جیسے استعمال کیا ہوا ضرورت سے زائد فرنیچر وغیرہ)اگر یہ فاضل سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کیی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہوجاتی ہے زکواۃ فرض نہیں ہوتی۔ایک فرق اور بھی ہے کہ زکواۃ کا ادا کرنا اس پر فرض ہوتا ہے جب نصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے گزر جائیں اور قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ، مثلاً
اگر کسی کے پاس بقر عید کی نویں تاریخ کو عصر کے وقت ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے اور دس تاریخ کو بھی اس کے پاس موجود رہا تو اس پر کل قربانی واجب ہو جائے گئی اور گھر کے ہر شخص کی ملکیت الگ الگ دیکھی جائے گئی، اور اگر کسی گھر میں باپ ، بیٹے اور بیٹوں کی ماں ، ہر ایک کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہے تو ہر ایک کی طرف سے قربانی دینا ھوگئی البتہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرنا کسی حالت میں لازمی نہیں ، اکثر خواتین کے ملکیت میں اتنا زیور ہوتا ہے جس پر قربانی واجب ہو جاتی ہے، جن خواتین کے پاس اتنا زیور ہو کہ اُس پر قربانی واجب ہو جائے تو ایسی خواتین کو قربانی کرنا چاہیے،
آجکل جو فیشن بن گیا ہے پورا بکرا فریج میں رکھ کر پورا سال قربانی کا گوشت کھاتے رہتے ہیں ان سے گزارشش ہے گوشت اپنا جتنا عرصہ تک کھاتے رہیں گئے کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہیں لیکن !
عرض ہے یہ گوشت جو ہم نے سنت ِ ابراہیمی کو ادا کر کے جمع کیا تھا اس کی حقیقت کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا، قربانی نہ تو کوئی رسم ہے اور نہ ہی کوئی فیشن ہے بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ سے عشق کی اعلیٰ مثال ہے کہ ایک باپ جو بڑھاپے کی حالت میں اپنا سہارا چاہتا ہے ، اﷲ تعالیٰ ایک فرزند ِعظیم عطا کرتا ہے،جب وہ دھوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچ کر اپنے باپ کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے، پھر حکم ہو اﷲ کی طرف سے وہ بھی خواب کی حالت میں تصور کیجئے ہمارے بیٹے کو بھائی یا بہین کا بیٹا کھیل کود کے دوران اگر کوئی ضرب لگا بیٹھے تو ہم بھائی بہین سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ اس نے ہمارے بچے کو مارا پیٹا ہے، کئی گھرانوں میں ایسی معمولی باتوں سے لڑائی جھگڑے بڑھکر قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں،
یہی اﷲ کے نبی وہ بھی خلیل اﷲ حضرت براہیم علیہ اسلام ہی تھے کہ خواب کی تکمیل عملی جامعہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے اپنے جگر کے ٹکڑے ، آنکھوں کے تارے ، بڑھاپے کے سہارے والے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کواپنے دل کی تمنا ،اپنے رب کا حکم بتایا اور کہا اے بیٹے بتا تیری رضا کیا ہے، قربان جاؤں پیارے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام پر آئیں اﷲ کے پاک کلام ِ مقدس ، قرآن ِ مجید کیا فرما رہا ہے ترجمہ
پھر جب وہ ( حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام )ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکتے (کی عمر) کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا
اے میرے بیٹے ! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔سو غور کرو تمھاری رائے کیا ہے؟(حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام نے )کہا ابا جان ! وہ کام فوراً کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔اگر اﷲ نے چاہاتو آپ مجھے صبر پانے والوں میں سے پائیں گئے
آخری گزارش قربانی کے گوشت کو گوشت سمجھ کر مت کھائے بلکہ اس کو اﷲ پاک کی امانت سمجھ کر زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں ۔ بے شک اﷲ پاک نے قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے کا حکم دیا ہے ، ایک ھصہ تقسیم کرنے کا ایک حصہ رشتے داروں کے لئے جبکہ تیسرا حصہ گھر والوں کے لئے ہیں۔
ایسے لوگ جو قربانی کی سعادت اﷲ کے کرم و فضل سے حاصل کر رہے ہیں گزارش ہے گوشت کو زیادہ عرصہ استعمال کرنے سے کوئی مزائقہ نہیں لیکن اگر ہم اپنے حصے کا گوشت بھی تقسیم کردیں گئے تو مجھے امُید ہے اﷲ کو اور اﷲ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو بہت پسند آئے گئی، اور پھر رسالت ِ آب ﷺ بھی زیادہ خوژش ہونگے، دعا ہے اﷲ پاک امت ِ محمدیہ کی قربانیوں کو قبول و منظور فرما ئے اور وہ مسلمان بہین بھائی جن کو اس عظیم سعادت حاصل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی آئیندہ برس اُن کو بھی قربانی دینے کی توفیق دے آمین

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 296 Articles with 316851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.