سورج کی روشنی اب تھر کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی
فراہم کرے گی
کنیڈین ریڈ کراس نے ہلال احمر کے تعاون سے سولر ٹیوب ویلوں کا منصوبہ تیار
کیا ہے
تھر ۔۔ یہ نام پیاس کی شدت کو ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔۔یہان کی خشک
سالی دل جلاتی ہے۔۔کبھی کسی جوہڑ پر انسان اور حیوان کا ایک ساتھ پانی پینے
کی تصویر دیکھتا ہوں تو بھی دل جلتا ہے۔۔۔یہاں کی گھنٹوں کی دھوپ سب کچھ
جلا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔پانی جو زندگی ہے مگر یہاں کہ باسی اس نعمت کو بارشوں
میں و افر دیکھ سکتے ہیں ۔جدائی،ہجر،محبوب ا سی تھر سے جڑے ہوئے ہیں۔۔سولر
انرجی کا صیغہ اب حرف عام ہے ۔۔سولر لیمپ سکولوں سے لے کر کالجوں اور گاوں
تک فراہم کئے جارہے ہیں تا کہ توانائی کامتبادل بن سکے۔۔سورج کی یہی روشنی
اب تھر کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے گی۔ ’مائی بھاگی‘ کے گانے
یا ’کارواں‘ جیسے ڈرامے کے حوالے سے صوبہ سندھ کا صحرائی علاقہ، تھر ذہن
میں آتا ہے۔ لیکن، اس کے برعکس، یہ علاقہ خشک سالی اور قحط کی بنا پر خبروں
میں رہتا ہے۔ اربابِ اختیار کو تھر کی یاد تب ہی آئی جب وہاں بے شمار مور،
مویشی اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری کی وجہ سے تکالیف جھیل رہے ہیں۔لوگ
پوچھتے ہیں کہ کیا تھر صحرائی علاقہ نہیں ہے؟ کیا کم بارشیں ہونے کی صورت
میں وہاں خشک سالی کا خدشہ نہیں رہتا؟ کیا قحط کی وجہ سے اموات واقع نہیں
ہوتیں؟ اور اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر احتیاطی تدابیر کیوں نہیں کی گئیں؟
خوراک کی قلت تھر میں ہر سال ہی ہوتی ہے۔ لیکن، کبھی کبھار یہ صورتحال بہت
ہی زیادہ سنگین ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے کم بارشیں ہونے کی صورت میں کئی
مرتبہ تھر کو پہلے ہی قحط زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اب کی بار ایسا
نہیں ہوا۔ من حیث القوم، ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوجاتا
ہے تو ہم اس کے بعد سوچتے ہیں۔ لیکن، کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کی
بروقت کوئی تدبیر کرنا ہمیشہ ہماری دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے۔تھر میں
بچوں کی اموات کی خبریں ہر اخبار اور نیوز چینل کی زینت بنیں۔۔ جس سال
بارشیں ہوتی ہیں، اْسی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے، ورنہ کنویں کا کڑوا
اور ناقابلِ استعمال پانی پینا ہی پڑتا ہے۔ ساتھ ہی، غذا، پانی اور دوا کی
عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان کے بچے بیمار
پیدا ہوتے ہیں، مویشی مرجاتے ہیں، بچوں کو نہ ماں کا دودھ ملتا ہے اور نہ
مویشیوں کا؛ اور یوں، ان علاقوں میں بس بے بسی اور موت ہی نظر آتی ہے۔ اگر
وہ دل پر پتھر رکھ کر یہ مان بھی لیں کہ مرنے والے مرگئے تو کم از کم ان کی
موت کی وجہ معلوم کرکے جو زندہ ہیں، اْن کو تو بچایا جا سکتا ہے۔خبر یہ ہے
کہ ہلالِ احمر پاکستان، کینیڈین ریڈ کراس کے اشتراک سے تھر میں سولر ٹیوب
ویلوں کی تنصیب اور ملک بھر کی جیلوں میں 3 لاکھ قیدیوں کی بلڈ سکریننگ اور
خون کے عطیات جمع کرنے کے منصوبے شروع کرے گا۔ کینیڈین ریڈ کراس نے ہلالِ
احمر پاکستان رضاکاروں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی تربیت کیلئے بھی مکمل تعاون
کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اِس بات کا اظہار کینیڈین ریڈ کراس کے چیف
ایگزیکٹو آفیسر کونراڈ سیو اور ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید
الٰہی نے دونوں تنظیموں کے مختلف ریلیف اور بحالی کے کاموں میں باہمی تعاون
کے دس سال مکمل ہو جانے پر منعقدہ بریفنگ میں کیا۔اِس سے قبل مفاہمت کی
یادداشت پر دستخط بھی ہوئے اور دس سالہ کامیاب پارٹنر شپ کا کیک بھی کاٹا
گیا۔اس تقریب میں ڈائریکٹر آپریشن غلام محمد اعوان،بیگ راج،کینیڈا ریڈ
کریسنٹ کی دو خواتین ارکان،جڑواں شہروں کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے
نمائندگان ،سماجی شخصیات،ہلال احمر کے رضا کاروں اور دیگر افراد شریک تھے،
ڈاکٹر سعید الٰہی کا اِس موقع پرکہنا تھا کہ سولر پاور ٹیوب ویلوں کی تنصیب
کے منصوبے سے تھر کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہوگا۔ انہو ں نے کہا
کہ تھر کی خشک سالی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہلالِ احمر پاکستان نے کینیڈین ریڈ
کراس کو سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب سے متعلق اقدامات کی اپیل کی تھی۔ انہوں
نے اِس موقع پر ریلیف اور بحالی کی خدمات میں کینیڈین ریڈ کراس کے تعاون
سراہتے ہوئے اِس امر کا اظہار کیا کہ کینیڈین ریڈ کراس گلگت بلتستان برانچ
کی استعدادِ کار بڑھانے میں بھی ہماری مدد کرے گا تاکہ کسی بھی ہنگامی
صورتحال میں بروقت رسپانس دیا جاسکے۔اِس موقع پر کینیڈین ریڈ کراس کے
کونراڈ سیو نے کہا کہ دس سالہ پارٹنر شپ اِس بات کی گواہ ہے کہ کینیڈین ریڈ
کراس نے ہنگامی صورتحال میں ہلالِ احمر پاکستان کی مدد کیلئے ہمیشہ فرنٹ
رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان برانچ کو فعال مضبوط بنانے
کے علاوہ کینیڈین ریڈ کراس تھر میں سولر پاور ٹیوب ویلوں کی تنصیب میں بھی
مدد کرے گا۔اِس موقع پر سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رضوان نصیر نے کینیڈین ریڈ کراس
کے تعاون کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہلالِ احمر پاکستان کے ساتھ
کینیڈین ریڈ کراس آزاد کشمیر، سکردو، دیامر، غذر، گلگت، بٹگرام، سوات،
چارسدہ، صوابی کے علاوہ سندھ کے علاقوں تھر، میرپور خاص، جیکب آباد، قمبر
شہداد کوٹ اور بلوچستان کے جھل مگسی، تربت اور زیارت کے علاقوں میں بھی
تعاون کررہے ہیں۔اِن کے تعاون سے بحالی و ریلیف کے کاموں کے دورس نتائج
برآمد ہورہے ہیں۔کنیڈین ریڈ کراس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کونراڈ سیو نے بھی
دونوں تنظیموں کے تعاون کو شاندار الفاظ میں خراج پیش کیا اور کہا کہ یہ
پارٹنر شپ چلے گی اور اس طرح مذید دس سال کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی
کئے گئے۔تھر ۔۔ یہ نام پیاس کی شدت کو ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔۔یہان
کی خشک سالی دل جلاتی ہے۔۔کبھی کسی جوہڑ پر انسان اور حیوان کا ایک ساتھ
پانی پینے کی تصویر دیکھتا ہوں تو بھی دل جلتا ہے۔شاید مستقبل میں ایسا نہ
ہو۔۔سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب تھر کی خشک سالی کے ساتھ یہاں کے باسیوں کے
خشک ہونٹ بھی تر کر دے گی۔۔امید تو ہے کیوں کہ مایوسی گناہ ہے ۔ڈاکٹر سعید
الہی کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ ایسا ضرور کرتے ہیں جیسا ضروری ہو۔ |