ہمارے وطن پاکستان کو ہمارے
رہنماؤں ،بزرگوں نے بہت محنت اور جدوجہد سے حاصل کیا ہے دن رات ایک کر کے
لا کھوں قربا نیاں دیں ہزاروں جانو ں کا نذرانہ پیش کیا تب کہیں جا کر ہم
ایک آزاد ملک حاصل کر نے میں کامیاب ہوئے۔مگر ہم نے اس پاکستان میں
نفرت،خون ریزی،دہشت گردی،ظلم وزیادتی،عام کردی ہے آئے دن کوئی نہ کوئی دل
دہلا دینے والی داستان ،رونگٹے کھڑے کرنے والا واقعہ سن سن کر انسان یہ
سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر ہم نے ایسی کیا غلطی کی ہے؟جو اتنی ظلم وزیادتی ۔مگر
اس ظلم وزیادتی کی لپیٹ میں معصوم بچوں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال ۷۰ مختلف اخباروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے
۳۵۰۸ واقعات سامنے آئے۔جس میں ۲۰۵۴ واقعات کے ساتھ صوبہ پنجاب سر فہرست
رہا۔ان سب میں ملوث ۹۰ فیصد مجرم وہ تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے ان معصوموں
کو جانتے تھے۔ایک سروے کے مطابق ۸۲ فیصد گھریلو ملازمین جنسی تشدد کا نشانہ
بنتے ہیں جبکہ تقریباً ۵۰ فیصد تک گھریلو ملازمین اور خادمائیں مالکان کے
بچوں کو جنسی تشدد کا نشا نہ بناتے ہیں۔ سانحہ قصور ایک دل دہلادینے والی
داستان قصور میں ہونے والا یہ واقعہ ہماری زندگی کا سیاہ ترین دن ہے اس کی
وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں رسوا ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ سے لے کر اب تک قصور میں
۲۸۴ بچوں کو ظالموں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔۲۰ سے ۲۵ آدمیوں کے گروپ نے
۲۸۰ سے زائد لڑکے اور لڑکیاں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ملزمان نے ۴۰۰ کے
قریب ویڈیو بنا کر فروخت کی۔عالم عرب کے مشہور اور معتبر چینل الجزیرہ کی
ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ کے بنیادی نکات یہ ہیں صوبہ پنجاب کے
افسروں نے وفاقی سطح پر ملک کی تا ریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل کی تحقیقات کا
مطالبہ کیا۔جس میں تقر یباً ۳۰۰ بچے ملوث تھے واقعات کی ۴۰۰ ریکاڈنگز موجود
ہے۔جس میں ایک ۶ سالہ معصوم سمیت ۱۴ سال سے کم عمر بچے شامل ہیں ویڈیوز کی
ہزاروں کاپیاں بنائیں گئیں اور حسین والا گاؤں میں فروخت ہوئی ۔سانحہ اس
وقت سامنے آیا جب پولیس سے اس زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا تصادم ہوا
۔اسی لیے کہ حکومت مجرموں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستان کے بعض
پرائیوٹ چینلز نے سنسنی پھیلانے اور ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں سب کچھ
بھلادیا کس قدر ظالمانہ الزام لگایا ہے کہ ملزموں کے خلاف کوئی کاروائی
نہیں کی جبکہ سات کے سات ملزم گرفتار ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ پولیس
افسر اور سیاستدان اس میں ملوث ہیں اب کوئی ان سے پوچھے کون سے سیاستدان
اور کون سے مجرم ؟یہ بات ضرور ہے ایک تو ہمارا کلچر اور پولیس کا رویہ
جانتے بوجھتے والدین ایسے معاملات کو دبا دیتے ہیں۔ایک سرکاری افسر کا کہنا
ہے کہ متاثرین کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۲۷ ہوسکتی ہے۔ معلوم نہیں ۲۸۴ کی
داستان کس نے تراشی ہے اگر بے گناہوں کو سزا دی گئی تو کیا دشمنیاں مزید
نہیں بڑھیں گی۔ اور پھر ڈی آئی جی شہزاد سلطان کا کہنا ہے ویڈیوز کی تعداد
۳۰ ہے اور وہ یہ سمجھنے سے لاعلم ہے کہ تعداد ۴۰۰ کیسے ہوگئی؟اب ان میں کیا
سچ ہے اور کیا جھوٹ اس بات کو جلد سے جلد حل کرکے پتہ لگائیں۔ایک اور واقعہ
جو یقینا آپ سب کو یاد ہو گا کہ ضیاالحق کے دور میں بھی ایسا ہی ایک المیہ
ہوا تھا ۔ جسے دنیا پپو قتل کیس کے نام سے جانتی ہے پپو ایک معصوم سا بچہ
تھا جسے چند ظالم درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کرڈلا ۔یہ وہ دور
تھا جب ہر دوسرے تیسرے روز بچوں کا اغواہ ہونا اور جنسی تشدد صرف دیہی
علاقوں میں عام تھا۔مگر شہری علاقوں میں پپو کیس اس قسم کی نوعیت کا پہلا
واقعہ تھا دیکھتے دیکھتے خصوصی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی۔ اور
ضیاالحق نے انھیں سرِ عام پھانسی کا حکم دیا پھر انھیں کیمپ جیل لاہور کے
اندر بے حد اونچی کرین کے ساتھ تقریباً ۲ لاکھ سے زائد افراد کے سامنے
پھانسی دی گئی۔اور پھر اس کے ۳۰۰ روز تک اس قسم کا کوئی واقعہ رونما نہیں
ہوا۔ اور اس دور کی حکومت کام تو کرتی مگر سست رفتاری کے ساتھ ۔ویسے دنیا
بھر میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جیسے کہ برطانیہ میں گزشتہ
ایک سال کے دوران ۲۳ ہزار سے زائد کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ اس قسم کے واقعات مغرب
میں کچھ زیادہ عام ہیں ۔بچوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات د ل دہلادیتے ہیں
اور جن بچوں کے والدین اس غم سے گزرتے ہوں گے ان کا غم تو وہی سمجھ سکتے
ہیں۔لاتعداد پاگل کتے گلی کے نکڑ پر آتے ہیں اور معصوم بچوں کو للچائی
نظروں سے دیکھتے ہیں انھیں بھلا عبرت کیسے ہوگی۔اب تو حکومت کو سستی چھوڑ
کر اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کرنے چاہیے۔ملزم کو سخت
سے سخت سزا سنائی جائی۔کیونکہ ہوس کا نشانہ بنتے بچے قوم کا مستقبل ہے اگر
یہی ڈوب گئے تو ہمارا سر فخر سے بلند کرے گا۔اﷲ پاک سے یہی دعا ہے کہ ان
بچوں کے والدین اور بچوں کو صبروہمت عطا کرے اور ملزمان کو راہِ راست پر
لائے آمین۔
|